• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی جمہوریت کے چیمپئن، جنہیں دیکھ کر یہ قیاس کرنا مشکل کہ کیا ان سے بڑھ کر ثقہ کنفیوژن کہیں اور بھی پائی جاتی ہے، اکثر دو چیزوں کو باہم گڈ مڈ کردیتے ہیں۔ ایک جمہوریت اور دوسری قانون کی حکمرانی۔ اُن کا خیالی فہم اس فرق سے گریزاں ہے کہ آپ جمہوریت کے بغیر تو قانون کی حکمرانی قائم کرسکتے ہیں (جیسا کہ یورپ میں جمہوریت سے پہلے بھی قانون کی حکمرانی تھی) لیکن قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور نہیں۔
یورپ کی مطلق العنان بادشاہتوں، جیسا کہ پرشا اور آسٹریا، میں قانون کی حکمرانی تھی، جمہوریت نہیں تھی۔ برطانیہ میں آزادی اور جمہوریت تھی لیکن وہ جمہوریت مخصوص جاگیردار اشرافیہ تک محدود تھی۔ اس کے باوجود وہاں قانون کی حکمرانی تھی۔ مثال کے طور پر بادشاہ یا فرسٹ منسٹر بھی لندن میونسپل کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے تھے ۔ عدالتیں قانون کے مطابق کام کرتیں، چاہے وہ کسی معمولی جرم میں پھانسی کی سزا سنادیتیں، لیکن ایسا اُس وقت کے قانون کے مطابق ہی ہوتا تھا۔ آج دبئی میں جمہوریت نہیں لیکن قانون کا احترام موجود ۔ پاکستان میں دبئی کی نسبت کہیں زیادہ سیاسی آزادی ہے لیکن دبئی میں اسلام کے اس قلعے کی نسبت کہیں زیادہ سوشل آزادی ہے ۔ اس کے علاوہ سرکاری امور میں چھوٹی بڑی سطح پر ہر قسم کی بدعنوانی نہ صرف موجود ہے بلکہ اسے روز مرہ کے لین دین کی طرح کا ایک معمول سمجھا جاتا ہے ، لیکن دبئی میں بدعنوانی بڑی حد تک ناپید ہے ۔ کمیونزم کی موت کے بعد روس میں بھی جمہوریت پروان چڑھی لیکن قانون کی حکمرانی یا اس سے کسی ملتے جلتے تصور کی بجائے وہاں ریاستی اثاثوں کی لوٹ مار شروع ہوگئی ۔ ایسا آزادی اور جمہوریت کے پرچم تلے ہوا۔ یہاں پاکستان میں انتخابات ہوتے ہیں، جمہوریت کے کچھ دیگر لوازمات بھی دکھائی دیتے ہیں اور پھر ہمارے میڈیا کو اسلامی دنیا رشک بھری نگاہوںسے دیکھتی ہوگی ، اور پھر ہمارے پاس قانون کی کتابوں میں لکھا ہوا دستور بھی ہے ، لیکن قانون کی حکمرانی کا شائبہ تک دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں بدعنوانی، رشوت اور ملاوٹ کے بارے میں قوانین موجود ہیں، اور ہماری کسی نہ کسی حد تک قانون تک رسائی بھی ہے ، لیکن قانون کے احترام اور نفاذ کی کوئی صورت نہیں۔ اس حوالے سے ہم ایک بالکل جنگلی معاشرہ ہیں۔قانون درختوں کو کاٹ گرانے سے منع کرتا ہے ، قانون ماحولیاتی اور عوامی ورثے کی حفاظت کا پابند بناتا ہے، لیکن کیا حکومتیں اس کی ذرہ برابر پروا کرتی ہیں؟ہائی کورٹس حکم دیتی ہیں لیکن حکومتیں دیدہ دلیری سے نظر انداز کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھتی ہیں۔ توہین ِ عدالت کی درخواستیں فائل ہوتی رہتی ہیں لیکن بے سود۔ سپریم کورٹ پر ایک ہجوم حملہ آور ہوتا ہے اور چیف جسٹس صاحب بڑی مشکل سے وہاں سے نکل پاتے ہیں۔ اس کی تحقیقات کے لئے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا جاتا ہے۔ طویل سماعتیں ہوتی ہیں، بے شمارگواہوں کے بیانات قلم بند کئے جاتے ہیں لیکن اصل ملزمان پر آنچ تک نہیں آئی، جہاں تک اُن کے ناموں کا تعلق تو ۔۔۔’’جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے ، باغ تو سار ا جانے ہے‘‘۔ سپریم کورٹ کہتی ہے کہ 1990 کے انتخابات متنازع تھے کیونکہ ایک ایجنسی ، آئی ایس آئی ، نے نتائج پر اثر انداز ہونے کے لئے کچھ سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کی تھیں ، لیکن اس انکشاف کے باوجود ملزمان سے با ز پرس ہوتی دکھائی نہ دی۔ لاہور کے قلب میں چودہ افراد کو پولیس نے محض سڑک پر کھڑی رکاوٹیں ہٹانے کے ایشو پر فائرنگ کرکے ہلا ک کردیا لیکن قانون کا پہیہ متحرک نہ ہوا۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس کے سامنے کسی نے پراسرار رکاوٹ کھڑی کردی ہو ۔ آئین کہتا ہے کہ مقامی حکومتوں کا قیام لازمی ، لیکن صوبائی حکومتیں اسے خاطر میں لانے کے لئے تیار نہ تھیں۔ ا س کے بعد سپریم کورٹ میں کی جانے والی پیہم کوششوں کے بعد بادل ِ ناخواستہ الیکشن کرائے گئے ،لیکن کئی ماہ بعد بھی مقامی حکومتوں کو فعال نہیں کیا گیا ۔ یہ ہے ہماری جمہوریت میں قانون کی حکمرانی۔دوسری طرف جمہوریت پر اس کے مختلف علم برداروں کے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ اُنھوں نے اپنے اثاثے بیرونی ممالک میں محفوظ کئے ہوئے ہیں۔ وہ اس لاچار سرزمین پر اپنی سیاسی اہمیت کا ہیولا پینٹ کرتے ہیں، ورنہ اُنہیں لندن یا نیویارک کی گلیوں میں کون پہچانتا ہے ؟ان کا سیاسی اسٹیج ، ان کی سیاسی جاہ و حشمت کا ڈرامہ، یہی سرزمین ہے ، لیکن ان کے محفوظ لاکر دنیا کے دیگر ساحلوں پر ہیں۔ تاہم اسی پر ہی اکتفا نہیں ، وہ اپنی حب الوطنی اور اخلاقی ذمہ داری کے لیکچر دیتے ہوئے قوم کے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہتے ہیں۔ چوری اور ڈکیتی زندگی کی ایک حقیقت ہے ، لیکن اس کے ساتھ اخلاقیات اور نیکی اورپرہیز گاری کا پرچار ناقابل ِ برداشت ہے ۔ اگر حکومت کی خامیوں اور حماقتوں کی نشاندہی کی جائے تو چیخ وپکار شروع کہ جمہوریت کے خلاف سازش ہوگئی۔ جمہوریت میں حکومتوں کا احتساب ہوتا ہے ، اُن پر تنقید ہوتی ہے ، ان کاناقدانہ جائزہ لیا جاتا ہے ،اس میں آزادی ِ اظہار کو تحفظ ہوتا ہے ، لیکن یہاں تنقید سے مراد سازش لی جاتی ہے ۔ یہ مانا کہ ہمارے ماحول میںجمہوریت ایک نازک اور نوخیز پودا ہے۔ منتخب شدہ حکومتوں کو بار ہا فوجی مداخلت کی وجہ سے گھر جانا پڑا، آئین کو اُٹھا کر سرد خانے میں ڈال دیا گیاجبکہ جج حضرات نے بھی نظریہ ِ ضرورت کا پاس کرتے ہوئے اقتدار پر جنرلوں کے قبضے کا جواز پیش کیا۔ اس تاریخ سے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے؟ اہم ترین تو یہی ہے کہ جمہوری حکمرانوں کے پاس غلطی کی اتنی گنجائش نہیںہوتی جتنی حکمران جنرلوں کے پاس ہوتی ہے ۔ چنانچہ اُنہیں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن ہمارے ہاں مستعمل منطق کچھ اور ہے ۔ احتیاط کا مظاہر ہ کرنے اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی بجائے ہمارے سیاست دان جمہوریت کو بدعنوانی کے سابق ریکارڈ توڑنے کا ایک لائسنس سمجھ لیتے ہیں۔ منتخب ہونے کے بعد وہ بہتر کارکردگی دکھاکر اپنا انتخاب درست قرار دینے کی بجائے وہ اسے اپنی طاقت سے منفی فائدہ اٹھانے کا ایک ذریعہ سمجھ لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت غیر یقینی پن کا شکار دکھائی دیتی ہے ۔ ۔ اس کی وجہ صرف طالع آزما جنرلوں کے عزائم یا چالیں نہیں (جو اپنی جگہ ایک مسئلہ ہیں)بلکہ ان دونوں کا مہلک ادغام ۔ 1953 میں مصدق کا تختہ سی آئی اے کی پشت پناہی سے مارے جانے والے شب خون میں الٹ دیا گیا۔ آج تک اُنہیں ایران میں اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے ۔ ایک وقت تھا جب ہمارےیہاں بھی ایماندار رہنماپائے جاتے تھے ، چاہے اُن میں دیگر خامیاں ہوں۔ محمد خان جونیجوسیاسی طور پر بہت قدآور شخصیت نہیں تھے لیکن وہ انتہائی ایماندار تھے۔ ان کے اردگر د بدعنوانی کا شائبہ تک نہ تھا۔
ہمار ی جمہوریت کے سامنے سب سے بڑا خطرہ یہی ہے۔ ہماری قومی زندگی میں فوج بطور ادارہ بہت طاقت اور اختیار کی مالک ہے ۔ جس دوران دیگر ادارے غیرفعال ہیں، فوج انتہائی فعالیت دکھارہی ہے۔ اس عدم توازن کو دور کیا جانا ضروری ہے۔ اس کیلئے سیاسی طبقے کو اپنا بہتر طرز ِعمل سامنے لانا ہوگا۔ ایسا ہونہیں سکتا ہے کہ ایک خاندانی حکومت ہو اور عوامی نمائندگی کا بھی دعویٰ ہو۔ دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار اور قوم کو اخلاقیات کا درس بھی جاری ہو۔ تاہم ابھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔ جنرل راحیل شریف نے پاکستان کے لئے اچھا کام کیا ہے۔ اُنھوں نے اپنے پیشہ ورفرائض کو بہترین طریقے سے سرانجام دیا ہے۔ ان کی کارکردگی کی مثل مشکل ہوگی لیکن امید کی جانی چاہئے کہ اُن کا جانشین قوم کو مایوس نہیں ہونے دے گا۔
تازہ ترین