• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کی بحالی یا احیائے نو کے حوالے سے ایک سوالنامہ جاری کیا ہے۔ سنا ہے چیئرمین نے پارٹی میڈیا سیلز کے کسی ’’بڑے‘‘ کو یہ سوالنامہ ملک کے معروف دانشوروں تک پہنچانے کی ہدایات بھی جاری کی تھیں۔ سو ’’خوش خبری‘‘ ہے پاکستان کے مجوزہ معروف اور ممتاز دانشوروں تک یہ سوالنامہ پہنچا ہی نہیں، ثبوت اس کا اس وقوعہ میں تلاش کیجئے جس کی رو سے ابھی تک کسی ایک بھی صاحب رائے قلمکار یا تجزیہ نگار نے اس موضوع پر اظہار خیال تک نہیں کیا، دوچار تک (محض مفروضےکے طور پر) بلاول بھٹو زرداری کے ان سوالات کی ترسیل ہو بھی گئی ہو، کم از کم اس کے بارے میں ملک کی سیاست و سماج پر لکھنے والوں میں کوئی ذکر اذکار نہ سنا نہ پڑھا، ہاں لوگ پوچھ لیتے ہیں ’’یار! وہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی پی کی بحالی یا احیائے نو کے لئے چھ سوالوں پر مشتمل ایک استفہامیہ جاری کیا ہے وہ آپ نے دیکھا؟‘‘ یقین کیجئے خاکسار بھی اس ’’انمول کاغذ‘‘ سے محروم ہی تھا، اتفاقاً برادر طارق خورشید کا ان دنوں پیپلز پارٹی پنجاب کے آفس سیکرٹری ہیں، سے ملاقات ہو گئی، ان سے بلاول کے سوالنامے کی عدم دستیابی کی بات ہوئی، انہوں نے کہا ’’اچھا! آپ کو نہیں ملا، یہ لیں‘‘ دراز میں ہاتھ ڈالا اور مجھے ’’انمول کاغذ‘‘ کی ’’زیارت‘‘ ہوئی، تفصیل اس کی ابھی بیان کرتے ہیں مگر پی پی کی میڈیا ٹیموں کے سلسلے میں کم از کم سینیٹر سعید غنی جیسے لوگوں کو حقائق پر مبنی رپورٹ مرتب کر کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ان میں سے ان لوگوں یا حصوں کا اصل چہرہ اور کارکردگی دکھانی اور بتانی چاہئے جنہوں نے ’’ٹی وی ٹاک شوز‘‘کی حد تک پی پی کی بحالی یا احیائے نو کا علم بلند کر رکھا ہے۔ چیئرمین پاکستان کے اہل دانش اور فعال سماجی عنصر سے جن سوالوں کا جواب مانگ رہے ہیں وہ استفسار نامہ ان تک پہنچایا ہی نہیں گیا، عجب بات ہے اس تناظر میں ’’پارٹی بجٹ‘‘ تک زیادہ سے زیادہ رسائی اور حصول پی پی کے ایسے ہی میڈیا پرسنز‘‘ کا مقدر بن چکا ہے! پی پی پاکستان کی آج بھی توانا ترین قومی سیاسی جماعت ہے مگر اس کے متعدد کم نگاہ افراد نے پارٹی کو قوم اور قوم کو پارٹی سے دور کرنے میں ’’عدیم المثال‘‘ کردار ادا کیا ہے۔
چیئرمین کے متذکرہ چھ سوال یہ ہیں۔
(1) آپ کے نزدیک پاکستان پیپلز پارٹی کے مقاصد کون سے ہیں؟
پارٹی اپنے ان مقاصد کو حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہی ہے؟
(2) روزمرہ کے چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے پارٹی کے لئے اپنی بنیادی اقدار پر قائم رہنے کا بہترین طریقہ کار کیا ہے؟
(3) آج پارٹی کو کن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے؟ ساتھ ہی ساتھ آپ کے نزدیک ملک کو بھی اس وقت کون سے کلیدی چیلنجوں کا سامنا ہے؟
(4) مختلف سطحوں پر پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں بہتری لانے کے لئے آپ کی کیا تجاویز ہیں؟
(5) پارٹی کے اندر اور پارٹی کے باہر آپس کے رابطوں کو کس طرح زیادہ موثر بنایا جا سکتا ہے؟
(6) ایک ایسے وقت میں جبکہ پارٹی مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے ہماری، معاشی، سماجی اور سیاسی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں؟ برائے مہربانی تین ایسی ترجیحات کی نشاندہی کیجئے جو آپ کے نزدیک فوری نوعیت کی ہوں نیز مزید تین ایسی ترجیحات کی نشاندہی کریں جو طویل مدت کی پالیسی سازی کے نقطہ نظر سے آپ کے نزدیک اہم ہوں۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو اب تک اصحاب فکر ونظر میں سے کتنوں کے جوابات موصول ہوئے یا نہیں، ایک بار پھر یاد رہے اصحاب فکر و نظر کی اکثریت اس ’’انمول کاغذ‘‘ سے آج بھی محروم ہے البتہ زیر تحریر کالم کی صورت میں غالباً پہلی بار ان حضرات سمیت پاکستانی عوام بلاول کے ان اشکال کا مطالعہ کر رہے ہوں گے!
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے اس سوالنامے کے ملک کے دانشور اور عوام کیا کیا جوابات دیتے ہیں، یہ ان کی صوابدید ہے، ہاں! ’’چیلنج‘‘ کے اس قلمکار کو پی پی کے کسی جان نثار کا خط موصول ہوا، کم از کم خاکسار کو یقین ہے، آپ اس خط کو پڑھنے کے بعد پی پی کی بحالی اور احیائے نو کے اس مشکل راستے سے آگاہ ہی نہیں ہوئے آپ کو یہ راستہ ایک سچائی کی صورت آپ کے دل پر دستک دیتا محسوس ہو گا۔ دکھ بھرا اتفاق ایک اور ہے، بلاول کے سوال چھ ہیں اور اس راستے کے مطلوب جواب کے سنگ ہائےمیل کی مثالیں بھی چھ ہی ہیں، خط اور مثالیں پیش خدمت ہیں!
سعید اظہر صاحب! سلام مسنون!
بلاول بھٹو زرداری لوگوں سے مستقبل کا لائحہ عمل اور پی پی پی کے لئے آئندہ کے لئے ’’راہ عمل‘‘ کا پوچھتے ہیں، ان کے پاس ٹائم ہو تو ان لوگوں کی ’’مرقد‘‘ کی طرف اشارہ کر دیں، ’’راستہ‘‘ ان کو سمجھ آ جائے گا‘‘ وہ چھ سنگ ہائےمیل یہ ہیں۔
چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو شہید کی جان بچانے کے لئے خود سوزی کرنے والے جاں نثار کارکن،
(1) یعقوب پرویز کھوکھر، اس مسیحی کارکن نے یکم اکتوبر 1978لاہور میں لوہاری گیٹ کے باہر، خود سوزی میں حصہ لیا تھا، لاہور کے میو اسپتال میں اس کی وفات ہوگئی تھی، اس کا تعلق گوجرانوالہ شہر سے تھا۔
(2) عبدالرشید عاجز، اس نے یکم اکتوبر 1978لاہور میں لوہاری گیٹ کے باہر خود سوزی کی تھی، اس کی وفات اسپتال میں ہوئی تھی، اس کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔
(3) وحید قریشی نے 2؍ اکتوبر 1978ء راولپنڈی میں کمیٹی چوک، مری روڈ پر خود سوزی میں حصہ لیا تھا، بعد ازاں اس کا اسپتال میں انتقال ہو گیا تھا، اس کا تعلق گوجرانوالہ شہر سے تھا۔
(4) راشد ناگی، اس نے بھی 2؍ اکتوبر 1978ء راولپنڈی کمیٹی چوک مری روڈ پر خود سوزی کی تھی۔ اس کی جان بچ گئی تھی، اس کا تعلق بھی گوجرانوالہ شہر سے تھا، بعد ازاں پاکستان چھوڑ کر چلا گیا اور آج کل کسی یورپی ملک میں زندگی گزار رہا ہے۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بے حد ذہین، تعلیم یافتہ اور غیر معمولی شخصیت ہیں، وہ از خود اپنے نانا، پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے بنیادی ساتھیوں کے اس اجلاس کی تیار کردہ ’’پارٹی دستاویز‘‘ کا مطالعہ کریں جس اجلاس کو 1967ء میں بھٹو صاحب نے لاہور میں، ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر چیئر کیا تھا۔ راستہ اس دستاویز کے بطن میں بھی موجود ہے، وہ ایک ایسا قوم پرست سیاسی شہ پارہ ہے جس کے بعد چیئرمین کو شاید پارٹی کی بحالی اور احیائے نو کے لئے اس اساسی روح کی تلاش میں راہ نور دی نہ کرنا پڑے۔ چیئرمین بلاول، اسی پس منظر میں بھٹو لیگی کے چیئرمین مبشر ریاض صاحب سے اس ’’بنیادی دستاویز‘‘ کو اردو میں منتقل کرانے کی بھی بات کریں۔ بلاول بھٹو کو اس ’’ظلم عظیم‘‘ کا یقیناً علم ہی نہیں کہ پیپلز پارٹی کی وہ اساسی دستاویز جس میں شائع شدہ بھٹو صاحب کا خطاب آج بھی پاکستان کے بے حال و خوار عوام میں زندگی کی نئی جوت جگا سکتی ہے۔ اس کا آج تک اردو میں ترجمہ ہی نہیں کرایا گیا، نہ اسے عوام میں تقسیم کیا گیا۔ بلاول بھٹو کو کیا کیا بتایا جائے؟
لکھنا تو پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے مابین سیاسی گرما گرمی اور پی پی پی کی اصل پالیسی پر تھا، درمیان میں بلاول صاحب کا یہ سوالنامہ آن پڑا، اِدھر ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک بڑا سیاسی سیٹ اپ، آپ اسے المناک ناکام سیاسی سفر کا بھی شاید نام دے سکیں، عمران خان کی شکل میں ابھر رہا ہے جس کے اسباب زیر بحث لانے کی ضرورت ہے، فی الحال عمران کے سلسلے میں اس مصرع پر ہی گزارا کریں؎
حصار چاٹتے رہنا ہے کار بے مصرف!
پڑھیں اور رائے ضرور دیں
اداریہ، کالم، قطعہ اور مراسلات سب کچھ قارئین کیلئے لکھے جاتے ہیں ۔ ادارتی صفحے کو قارئین کی پسند کے مطابق بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ان کی آراء سے زیادہ سے زیا دہ استفادہ کیا جائے۔اس مقصد کیلئے ادارۂ جنگ کی ویب سائٹ www.jang.com.pk پرشائع شدہ کالموں پر کمنٹس کے ذریعے آپ ہمیں فوری فیڈ بیک دے سکتے ہیں۔اس کے علاوہ قارئین کالم نگاروں کے ای میلز پر بھی اپنا فیڈ بیک دے سکتے ہیں ۔
ایس ایم ایس کے ذریعے بھی روزنامہ جنگ کے کالموں پر رائے دینے کی سہولت موجود ہے ۔اپنے موبائل فون پر SMS کے ذریعے پیغام بھیجنے کے لئے کالم نگار کا ID لکھیں اور اپنا پیغام لکھ کر 8001پر بھیج دیں اس طرح یہ تبصرہ ہم تک پہنچ جاتا ہے۔ (فی SMSچارجز 50پیسے علاوہ ٹیکس) مناسب ایڈیٹنگ کے بعد اس SMS کو روزنامہ جنگ کی ویب سائٹ www.jang.com.pk پر متعلقہ کالم کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے اور یوں یہ تبصرہ دنیا بھر میں پڑھا جاتا ہے۔بعض منتخب SMS جنگ کے ادارتی صفحات پر بھی شائع کئے جاتے ہیں۔کالم نگاروں کے کوڈ اور ID ان کے کالم کے نیچے درج ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ کسی کالم نگار سے سوال کیلئے ادارۂ جنگ نے ’’روبرو‘‘ کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ جس میں کالم نگاروں سے سوال کیا جاتا ہے۔ یہ سوالات آپ ہمیں letters@janggroup.com.pk" پر اپنی تصویر کے ہمرا ہ بھیج سکتے ہیں۔یہ سوالات کالم نگاروں کے جواب کے ساتھ اتوار کے روز شائع کئے جاتے ہیں۔ (ادارہ ٔجنگ)
تازہ ترین