وزیراعظم نوازشریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امن ہمارا انتخاب نہیں منزل ہے، ہم امن کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں ۔ طالبان سے مذاکرات کیلئے رحیم اللہ یوسف زئی ، عرفان صدیقی ، میجر ریٹائرڈ محمد عامر اور سابق سفیر رستم شاہ مہمند پر مشتمل ایک چار رکنی کمیٹی قائم کرتے ہوئے اسے مکمل اختیار دیا گیا ہے جبکہ کمیٹی نے طالبان کو پیغام دیا ہے کہ وہ جلد مذاکراتی ٹیم کا اعلان کریں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔ وزیراعظم کے اعلان کو بلاشبہ سراہا گیا ہے سوائے ایم کیو ایم تمام جماعتوں نے اس فیصلے کی تائید بھی کی ہے جبکہ طالبان نے حکومت کی جانب سے اس اقدام کو پہلی سنجیدہ کوشش قرار دیا اور اس کیلئے اپنی شوریٰ کے اجلاس میں کہا ہے کہ اگر حکومت سنجیدہ ہے تو قیدیوں کو رہا کرے۔ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے کہا ہے کہ مذاکرات نتیجہ خیز ہونے چاہئیں ۔ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ ہم اپنی منزل امن تک پہنچ پاتے ہیں یا نہیں۔ منزل تک پہنچنے کیلئے کون سا فریق کتنا سنجیدہ ہے ، یہ تو جلد واضح ہو ہی جائے گا ، اس لئے اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ آج کے کالم میں ہم موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک رونما ہونے والے دہشت گردی اور خودکش حملوں کے بڑے بڑے واقعات کی فہرست کسی تبصرے کے بغیر عوام کی طرف سے مذاکراتی ٹیم اور حکومت کے سامنے رکھناچاہتے ہیں تاکہ کسی نتیجے تک پہنچنے اور فیصلہ کرتے ہوئے انہیں یہ بھی یاد رہے کہ کتنے معصوم بچے، عورتیں، مرد اور بوڑھے، قوم کے محافظ اور بہادر سپاہی ملک کو امن دینے کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔
جون 2013ء کو دہشت گردی کے 17مختلف واقعات میں 141افراد جاں بحق اور 245زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں تحریک انصاف کے صوبائی وزیر فرید خان، کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر سمیت 14طالبات، شیر گڑھ نماز جنازہ کے دوران خودکش حملے میں تحریک انصاف کے ایم پی اے عمران مہمند سمیت 30افراد، پشاور نماز جمعہ کے خطبہ کے دوران مسجد میں خودکش حملے، نانگا پربت بیس کیمپ پر دہشت گردی میں 10غیر ملکی سیاح اور کراچی میں سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر کے قافلے پر حملے کے دوران ہلاک ہونے والے افراد شامل ہیں۔ جولائی 2013ء کے دوران ایسے واقعات میں 182افراد جاں بحق اور 497زخمی و معذور ہوگئے ۔ اس مہینے کے واقعات میں وزیرستان میں دہشت گردی ، کوئٹہ امام بارگاہ ، لاہور فوڈ اسٹریٹ ، ہنگو میں دھماکہ ، ڈی آئی خان جیل پر حملہ اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی زیارت میں ریذیڈنسی تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں سے پاکستان کا جھنڈا اتار کرایک لبریشن آرمی کا جھنڈا لہرانے جیسے سانحات شامل ہیں۔
اگست 2013ء کے دوران 8مختلف بڑے دہشت گردی کے واقعات میں84افراد جاں بحق اور 147زخمی ہوئے۔ ان واقعات میں پشاور ایف سی چوکی پر حملہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قریب شالیمار ایکسپریس میں دھماکہ، کوئٹہ میں شہید ایس ایچ او محب اللہ کی نماز جنازہ کے دوران خودکش حملے میں اعلیٰ پولیس افسر سمیت 38افراد کی شہادت اور آصف زرداری کے چیف سکیورٹی کے آفیسر کی کراچی خودکش حملے میں ہلاکت جیسے واقعات شامل ہیں۔ ستمبر کے مہینے میں اپردیر ، شمالی وزیرستان اور بنوں میں حملے کے دوران میجر جنرل ثناء اللہ، لیفٹیننٹ کرنل توصیف سمیت 7اہلکاروں کی شہادت ہوئی اور دیگر 7ایسے واقعات میں کل 133افراد جاں بحق اور 364زخمی ہوئے۔ اکتوبر 2013ء میں ایسے واقعات میں 41افراد جاں بحق اور 171زخمی ہوئے، آواران میں امدادی کاموں میں مصروف 2فوجی شہید کئے گئے۔ 10اکتوبر کو چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں دھماکے ہوئے ڈی آئی خان میں صوبائی وزیر اسرار گنڈاپور کو عوام سے عید ملنے کے دوران خودکش حملے میں اڑا دیا گیا اور پشاور میں پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کی گاڑی دھماکے سے اڑا دی گئی۔ نومبر میں راولپنڈی میں یوم عاشور پر افسوسناک واقعہ میں 9افراد ہلاک 56زخمی اور 100سے زائد دکانیں نذر آتش کر دی گئیں ۔ محرم کا مہینہ قدرے پرسکون تھا جس میں کراچی میں 2دھماکوں میں 5افراد ہلاک ہوئے۔ گزشتہ برس کے آخری مہینے دسمبر 2013ء میں بھی 5بڑے دہشت گردی کے واقعات میں18افراد جاں بحق اور 69زخمی ہوئے۔ 6دسمبر کو اہل سنت والجماعت پنجاب کے صدر شمس الرحمن معاویہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مسجد سے روانہ ہوئے تو انہیں قتل کر دیا گیا ۔ شمالی وزیرستان چیک پوسٹ پر خودکش حملے میں 5سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے ۔ راولپنڈی امام بارگاہ کے قریب خودکش حملے میں بھی ہلاکتیں ہوئیں۔
حکومت پاکستان طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے اے پی سی بلا کر تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے چکی تھی اور توقع تھی کہ مذاکرات کا عمل آگے بڑھے گا اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئے گی مگر نئے سال کا آغاز ہی بڑے بُرے انداز میں ہوا۔ جنوری 2014ء کے دوران شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جس میں ایسی وارداتیں نہ ہوئی ہوں۔ یکم جنوری کوئٹہ زائرین کی بس پر خودکش حملے میں ہلاکتیں۔ 10جنوری کو کراچی میں ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم کو بم حملے میں 2محافظوں سمیت شہید کر دیا گیا۔ 12جنوری کو شانگلہ میں وزیراعظم کے مشیر امیر مقام کی گاڑی پر حملے میں4پولیس اہلکاروں سمیت 6محافظ شہید ہوگئے۔ 17جنوری کو پشاور کے ایک تبلیغی مرکز میں دھماکہ میں 8نمازی شہید اور 60زخمی ہوئے۔ اگلے روز کراچی میں میڈیا اور علماء پر حملوں میں 10افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے۔ پھر 19جنوری کو بنوں میں گاڑی بم دھماکے میں 25سے زائد ایف سی اہلکارجاں بحق اور 30زخمی ہوگئے۔ اسی واقعے کے ایک روز بعد راولپنڈی جی ایچ کیو کے بالکل قریب خودکش حملے میں 7فوجیوں سمیت 14افراد شہید اور 33زخمی ہوئے۔ ایک دن سکون سے گزرا ہوگا کہ 22جنوری کو مستونگ میں زائرین کی بس پر خودکش حملے میں 28افراد جاں بحق اور خواتین و بچوں سمیت 41زخمی ہوئے، اگلے ہی روز مستونگ میں پھر دہشت گردی کے واقعہ میں 6جوان شہید اور غیر ملکی سیاح سمیت گیارہ زخمی کر دیئے گئے۔ اس کے ایک روز بعد پھر پشاور کی ایک ورکشاپ میں کاربم دھماکے میں 7سے زائد افراد ہلاک اور 12زخمی ہوئے ،26جنوری کو ہنگو میں کھلونا بم پھٹنے سے ایک خاندان کے 4 بھائیوں سمیت 6بچے جاں بحق اور 9 زخمی ہوئے، ان بچوں کی عمریں 4سے 10 سال کے درمیان تھیں۔ اس طرح 29جنوری کو رینجر ہیڈ کوارٹر کراچی کے مین گیٹ کے قریب خودکش حملے میں 4 اہلکار شہید ہوئے ۔ اس نئے سال کے پہلے مہینے میں ایسے واقعات میں98سے زائد افراد ہلاک اور 181زخمی و معذور ہوگئے۔ عوام کی طرف سے بس اتنی گزارش ہے کہ موجودہ حکومت کے آٹھ ماہ کے دوران اب تک 710افراد ہلاک اور 1640زخمی ہوچکے ہیں اور یہ چیز مذاکرات کے دوران حکومت اور مذاکراتی کمیٹی کے ذہنوں میں ضرور رہنی چاہئے کیونکہ وزیراعظم کافرمان ہے کہ امن ہمارا انتخاب نہیں منزل ہے لیکن اگر امن انتخاب ہی نہیں تو پھرامن منزل کیسے ہوسکتی ہے!