• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
18مارچ 1967ء میں سب سے پہلے پاکستان سے باہر جانے کا اتفاق ہوا۔ خالص کاروباری سفر تھا اُس زمانے میں پاکستان میں پاسپورٹ حاصل کرنا مشکل البتہ ویزوں کا اصول بہت آسان تھا۔ صرف امریکہ، یورپ میں، سوئٹزر لینڈ، تمام سوشلسٹ کمیونسٹ ممالک میں جانے کے لئے ویزے لئے جاتے تھے بقایا 97فیصد آن ارائیول ویزے ملتے تھے لہٰذا بہت نزدیک سے مشاہدات ہوتے تھے۔ جگہ جگہ کی تہذیب، ثقافت، تمدن، زبان، مذہب، رہن سہن، کھانے، کرنسیاں، مہنگائی کی شرح، تعلیم غرض پوری دنیا سے بآسانی واقفیت ہو جاتی تھی۔ یورپ، امریکہ وغیرہ میں تعلیم و تہذیب بہت نمایاں ہوتی تھیں جو آج بھی ہے البتہ جاپان، کوریا، ہانگ کانگ میں تعلیم و تہذیب میں بہت مثبت پیشرفت ہوئی ہے۔ اُس زمانے میں ہماری تعلیم بہت سست رفتاری سے بڑھ رہی تھی مگر ہماری کرنسی یعنی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 5روپے سے بھی کم تھا، ہم کسی کے مقروض بھی نہیں تھے اور اسلحہ و منشیات سے بھی ہم کوسوں دور تھے۔ ایک نمایاں فرق یورپ اور امریکہ میں انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندوں، چرندوں، درختوں کے حقوق خصوصاً خواتین کے ساتھ بھی مردوں کی طرح برابر کے حقوق تھے جو آج بھی بہت نمایاں ہیں۔ اب تو ان کے حقوق کی حفاظت کے لئے بین الاقوامی طور پر بھی قوانین متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ادارے بھی معروض وجود میں آچکے ہیں۔ ہمارے یہاں قوانین میں تو شامل کر دیئے گئے ہیں مگر عملی طور پر ہم بہت پیچھے جارہے ہیں۔ درختوں، پرندوں اور جانوروں کے حقوق کی حفاظت تو ایک طرف، ہمارے ہاں تو خواتین کو آج بھی دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے ۔گزشتہ سال راقم کو لندن میں اپنے ایک دیرینہ دوست سے ملنے کا اتفاق ہوا جو پاکستان سے 70کی دہائی میں انگلینڈ پڑھنے گیا پھر وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ پرانی واقفیت کی وجہ سے اکثر ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ پچھلے سال انہوں نے ایک پوش علاقے میں بڑا مکان خریدا تھا، وہ اپنے صاحبزادوں کی شادی کرانے میں مصروف تھے۔ نیا مکان اگرچہ پہلے والے مکان کے مقابلے میں بڑا تھا مگر وہ دو اضافی کمرے بنانا چاہتے تھے ۔اتفاق سے ایک بہت بڑا درخت پہلے سے بنے ہوئے مکان کی عمارت سے ملحق تھا۔ یورپ میں 3 کیٹگری کے درخت ہوتے ہیں۔ ایک بہت چھوٹے جن کو آپ تراش سکتے ہیں، دوسرے درجے کے درخت آپ اجازت سے کٹوا سکتے ہیں وہ صرف اس علاقے کی کاؤنٹی کے مجاز افسران ہی کاٹ سکتے ہیں۔ تیسرے درجے پر لسٹیڈ یعنی بہت بڑے پرانے درخت جو صدیوں پرانے ہوتے ہیں ان کو کاٹنا غیر قانونی ہوتا ہے، اس پر سزا اور بڑے جرمانے بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے دوست اس درخت کی وجہ سے بہت پریشان تھے ، ایک سال تک کاؤنٹی والوں کو اپنی ضرورت بتاتے رہے مگر انہوں نے اس پرانے درخت کی کانٹ چھانٹ سے بھی منع کر دیا۔ جس کی وجہ سے مکان میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا تھا باوجود اس امر کے کہ درخت گھر کی چار دیواری میں تھا، بہت قانونی خط و کتابت کی مگر کاؤنٹی نے اجازت نہیں دی۔ یورپ میں مکان بہت آسانی سے قرضے پر 20تیس سال کے مارگیج میں مل جاتا ہے مگر درختوں کا بے حد خیال رکھا جاتا ہے۔ اس مرتبہ حسب عادت ملنے گیا تو وہ مکان کی تعمیر میں لگے ہوئے تھے، درخت بھی نہیں تھا۔ بہت تعجب ہوا کاؤنٹی نے کیسے اجازت دے دی ۔ معلوم ہوا ایک رات لندن میں بہت زور دار بارش ہوئی، ساتھ ساتھ آندھی کے جھکڑ بھی چلے اور صبح 7بجے یہ درخت آندھی کا زور برداشت نہ کر سکا اور جڑ سے اکھڑ کر گر گیا ۔ میرے دوست نے پولیس اور ریسکیو ورکرز کی مدد سے درخت اٹھوایا ۔ خوش قسمتی سے جب درخت گرا تو سب سوئے ہوئے تھے۔ محلے والوں نے بھی گواہی دی کہ درخت قدرتی طور پر گرا ہے ، تب جا کر تعمیر کی اجازت ملی۔ مگر ہمارے ملک میں تو درخت کاٹنا معمولی بات ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں ان کی حفاظت انسانوں ہی کی طرح کی جاتی ہے ۔ ایک مرتبہ میں ایک غیر ملکی دوست جو جرمنی میں رہتا تھا چند دن اس کے گھر میں قیام پذیر تھا۔ اس نے رنگ برنگی خوبصورت چڑیاں پال رکھی تھیں۔ ایک رات 2چڑیاں آپس میں لڑ پڑیں ایک کی چونچ ٹوٹ گئی۔ صبح جب وہ دانہ ڈالنے گیا تو اُس نے زخمی چڑیا کو دیکھا تو وہ دفتر جانے کے بجائے چڑیا کو پنجرے سمیت پرندوں کے اسپتال لے گیا۔ واپسی پر اس نے خوشی خوشی بتایا کہ ڈاکٹر نے اس کی چڑیا کا آپریشن کر کے اس کی جان بچا دی۔ اس میں اس کا آدھا دن صرف ہوا اور تقریباً 50ڈالر لگے ۔ میں نے اس سے کہا کہ ایک چڑیا تو چند ڈالر میں آجاتی ہے ، وہ اس چڑیا کو اُڑا دیتا اور نئی چڑیا 50ڈالر میں تو 10پندرہ مل جاتی۔ اُس دوست نے مجھے بڑے غصے سے دیکھ کر کہا کہ تم جان کو دولت میں تولتے ہو، تم کیسے انسان ہو تمہارے نزدیک ایک چڑیا کی جان جان نہیں ہے، میں واقعی بہت شرمندہ ہوا کہ میں نے کیوں ایسا کہا۔ اسی طرح ایک رات کینیڈا میں باہر کھانا کھا کر گھر تقریباً آدھی رات کو لوٹ رہے تھے کہ ایک سڑک پر ٹریفک جام تھا معلوم ہوا کہ سڑک پر ایک ہرن کھیتوں سے نکل کر گاڑی سے ٹکرا کر زخمی ہوگیا ۔ پولیس کی گاڑیاں مع ایمبولنس اس جنگلی ہرن کی جان بچانے کی کوشش کر رہی ہیں اور ساتھ ساتھ پولیس والے گاڑی کے ڈرائیور سے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ تیز رفتاری سے تو نہیں گزر رہا تھا۔ اس سڑک پر ہرن کے گزرنے کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ جہاں ایسا بورڈ لگا ہو تو گاڑی آہستہ چلائی جاتی ہے۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ڈرائیور کی لاپروائی تھی تو اس کو سزا ہو سکتی ہے ۔ سوچئے ایک وہ لوگ ہیں جو درختوں، پرندوں، چرندوں کی جان کو جان سمجھتے ہیں اور ایک ہم اپنے ہی بھائیوں کی جانیں مسلکوں کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔
تازہ ترین