• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی بھی معاشرے کی بقا اور ترقی کے لئے سب سے ضروری چیز عدل و انصاف کا قیام یعنی چھوٹے بڑے، قوی و ضعیف اور حاکم اور محکوم سب پر قانون کا یکساں اطلاق ضروری ہے۔ زبان رسالتؐ سے یہ حقیقت ہم تک ان الفاظ میں پہنچی ہے کہ وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں جن میں کمزوروں پرقانون نافذکیا جاتا اور طاقتوروں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔آج پاکستان کو درپیش کئی سنگین مسائل اورگمبھیرمشکلات کے باوجود اس معاشرے کا ایک نہایت حوصلہ افزاء پہلو عدلیہ کی آزادی و خود مختاری ہے جو چند برس پہلے پوری قوم کی جانب سے کی جانے والی بے مثال جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ملک کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا وقت کے حکمراں کے غیرآئینی حکم کو ماننے سے انکار ملک بھر کے عوام کو ان کی حمایت کیلئے کمربستہ کرنے کا سبب بنا اور عدلیہ کی آزادی کا خواب حقیقت بن گیا۔تاہم لوگوں کے ذہنوں میں یہ خدشہ پایا جاتا تھا کہ سابق چیف جسٹس کی جری و بے باک شخصیت کے منصب سے الگ ہوجانے کے بعد شاید عدلیہ آئین و قانون کی بالادستی کے لئے اپنا کردار اس مضبوطی کے ساتھ ادا نہ کرسکے جس طرح سابق چیف جسٹس کی قیادت میں کررہی تھی۔لیکن یہ امر انتہائی قابل اطمینان ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اپنے نئے سربراہ جسٹس تصدق حسین جیلانی کی قیادت میں بھی آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے اسی عزم و استقلال کے ساتھ سرگرم عمل اور اسی راہ پر گام زن ہے جس کی نشان دہی عدلیہ کی سابق قیادت نے کی تھی۔ اعلیٰ عدالتوں میں انتہائی طاقتور حلقوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے خلاف کسی رو رعایت اور کسی دباؤ کو قبول کیے بغیر چلنے والے پوری طرح قانونی تقاضوں کے مطابق مقدمات کا جاری رہنا اس حقیقت کاناقابل تردیدثبوت ہے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہر قیمت پر فراہمی انصاف کویقینی بنانے کے عزم کا دوٹوک الفاظ میں اعادہ کیا ہے۔اپنے خطاب میں انہوں نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے دوران اور بعد میں دی جانے والی قربانیوں کو ناقابل فراموش قرار دیتے ہوئے قوم کو یقین دہانی کرائی کہ انصاف کے قیام کے لئے عدلیہ اپنا کردار بلا خوف و خطر ادا کرتی رہے گی۔یہ امر نہایت تسلی بخش ہے کہ چیف جسٹس کے یہ الفاظ عدلیہ کے عملی روئیے سے پوری مطابقت رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں میں کئی ایسے اہم مقدمات کی سماعت جاری ہے جو آئین اور قانون کی بالادستی کو مستحکم کرنے کا سبب بنیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور دیگر اہم معاملات میں عدلیہ کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کی روایت بھی آگے بڑھ رہی ہے۔اس کی تازہ ترین مثالیں بلوچستان کے علاقے خضدار میںاجتماعی قبر کے انکشاف ہے اور پنجاب میںپنچایت کے حکم پر ایک چالیس سالہ عورت کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعات ہیں۔ان دونوں معاملات میں چیف جسٹس نے بلوچستان اور پنجاب پولیس کے سربراہوں اور ڈپٹی کمشنر خضدار سے چار فروری کو تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ چیف جسٹس نے ان واقعات کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت بلوچستان نے بھی گزشتہ ہی روزاجتماعی قبر کی دریافت کے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا اعلان کیا ہے اور اس کے لئے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج نور محمد مسکان کی سربراہی میں کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔اعلیٰ عدلیہ کا یہ کردار ملک میں مکمل قیام عدل کی منزل کی جانب پیش رفت کا مظہر ہے تاہم اس منزل تک پہنچنے کے لئےنچلی سطح تک عدلیہ کو مؤثر بنانا ، ہر قسم کے کرپشن سے پاک کرنا ضروری ہے۔اپنے روز مرہ معاملات کے لئے شہریوں کا سابقہ ان ہی عدالتوں سے پڑتا ہے۔ان عدالتوں میں مقدمات جتنا طول کھینچتے ہیں ، طاقتور فریق جس طرح دباؤ کے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں اورقدم قدم پر لوگوں کو جس طرح ناجائز مطالبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، یہ سب امور جلد از جلد اصلاح کے طالب ہیں۔ امید ہے کہ عدالتی قیادت کی جانب سے اس بارے میں نتیجہ خیز اقدامات ممکنہ تیز رفتاری کے ساتھ عمل میں لائے جائیں گے تاکہ معاشرے میں ہر سطح پر قیام انصاف کا ہدف حاصل ہوسکے۔

پنجاب سندھ وخیبر پختونخوا
موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد وفاقی و صوبائی سطح پر بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا جارہا ہے۔ وفاق چاروں صوبوں میں جوہری ،شمسی،آبی اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے لئے بڑے بڑے منصوبوں کو عملی شکل دے رہا ہے۔ سڑکوں کی توسیع و تعمیر کے ذریعے بین الصوبائی رابطوں کو مضبوط بنانے کی جدوجہد ہورہی ہے جو ترقی کے لئے جزو لازم کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی حکمت عملی کے تحت صوبوں میں اتنے بڑے ترقیاتی پراجیکٹوں کا ڈول ڈالا جارہا ہےکہ وہ تکمیل تک پہنچ گئے تو اس سے وطن عزیز میں تیز رفتار ترقی کا ایک نیا باب شروع ہوجائے گا۔ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں میٹرو بس منصوبے کے توسیعی حصے پر تیزی سے کام جاری ہے۔اس کے ساتھی ہی فیصل آباد ،ملتان اور راولپنڈی میں بھی اسی برس میٹرو بس منصوبہ شروع کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ کراچی میں سرکلر ریلوے کی بحالی کا کام ٹھوس بنیادوں پر شروع کرنے کے انتظامات ہورہے ہیں، کئی بین الاضلاعی بڑی شاہراہوں کی تعمیر کا کام کیاجارہا ہے ۔پی پی پی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے سندھ کی علاقائی ثقافت کو فروغ دینے اور دنیا بھر میں متعارف کرانے کے لئے پندرہ روزہ فیسٹیول کا شاندار آغاز کردیا ہے جس کا افتتاح کے موقع پر لوک فنکاروں کے روایتی لباس میں رقص اور مدھر سندھی گیتوں نے صحرائے موہنجوڈاروکو معنوی اعتبار سے واقعی ایک گلستان میں تبدیل کردیا ۔وطن عزیز میں ثقافتی رنگا رنگی ہی اس کا حسن ہے جسے ترقی دی جانی چاہئےکہ علاقائی ثقافتیں مضبوط ہوں گی تو اسی سے پاکستانی ثقافت کو تقویت ملے گی۔خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی جانب سے بچوں کو پولیو اوردیگر بیماریوں سے محفوظ بنانے کے لئے ایک ہمہ گیر پروگرام شروع کیا گیا ہے جو مستقبل کی نسلوں کو محفوظ بنانے کے لئے ا یک اہم قدم ہے۔ بلوچستان کی حکومت بھی بعض مشکلات کے باوجود اپنے صوبے میں ترقیاتی کاموں کی داغ بیل ڈال رہی ہے ان حالات میں توقع کی جانی چاہئے کہ جب یہ سارے منصوبے تکمیل پذیر ہوں گے تو پاکستان انشاء اللہ ایک نئے دور میں شامل ہوگا۔

کمیٹی کنفیوژن!
کالعدم تحریک طالبان نے حکومت کے ساتھ بات چیت کے لئے5رکنی مذاکراتی ٹیم میں اعلان کیا ہے جس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق ، جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر ابراہیم ،جمعیت علماء اسلام(ف) کے مفتی کفایت اللہ اور لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیزشامل ہیں جو طالبان کی جانب سے حکومتی کمیٹی سے مذاکرات کریں گے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن میجر عامر نے طالبان کی مذاکراتی ٹیم کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اس تک رسائی آسان ہوگی اور مذاکرات میں پیش رفت ہوسکے گی جبکہ جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر ابراہیم کا کہنا ہے کہ طالبان نے فون پر ٹیم میں شامل ہونے کی اجازت لی ہے اور جماعت اسلامی انہیں ٹیم میں شامل ہونے کی اجازت دے دی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جس پانچ رکنی ٹیم کا اعلان کیا گیا ہے اس میں تحریک طالبان کا اپنا کوئی نمائندہ شامل نہیں جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ٹیم میں شامل ہونے سے یہ کہہ کر انکار کردیا ہے کہ طالبان اپنے نمائندہ نامزد کریں جبکہ مولانا سمیع ا لحق کا کہنا ہے کہ صورتحال واضح ہونے پر فیصلہ کرونگا اور مولانا عبدالعزیز نے کہا ہے کہ شریعت کے نفاذ کا مطالبہ ماننے تک امن عمل کا حصہ نہیں بنوں گا۔ اس طرح طالبان کی جانب سے نامزد کردہ مذاکراتی ٹیم کنفوژن کا شکار ہوگئی ہے۔ ایک اہم رکن عمران خان نے اسے اون کرنے سے انکار کردیا جبکہ پروفیسر ابراہیم کے علاوہ باقی ارکان کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہےسوال یہ ہے کہ طالبان کی ٹیم حکومتی مذاکراتی ٹیم تحریک طالبان سے ہدایات فون پر حاصل کرے گی یا تحریک طالبان کی قیادت سے ملاقات کے لئے وزیرستان جائے گی ۔اس حوالے سے کنفوژن پیدا ہونا کسی صورت مناسب نہیں ہے اس لئے دونوں فریق حکومت اور طالبان کو انتہائی سنجیدگی سے معاملات کو آگے بڑھانا چاہئے تاکہ ملک میں مستقل طور پر امن کی راہ بحال ہوسکے اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکے۔
تازہ ترین