• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کی سپر پاور برطانیہ جو یورپ کا بھی لیڈر تھا وہ پاکستانی قوم سے کئی میدانوں میں شکست کھا گیا اور اس معصوم قوم کو جو جرأت مند بھی تھی جفا کش بھی ...میدان جنگ اور میدان سیاست میں جس نے اپنا لوہا بھی منوایا، یہ دور غلامی تھا اس دور میں قدرت نے ہمیں ایسے لیڈر دئیے جو اہل دانش بھی تھے جن کی تحریروں او ر تقریروں پر برطانوی حکومت نے متعد د بار بغاوت کے مقدمے قائم بھی کیے اور سخت ترین سزائیں بھی دیں، یہاں تک کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو برف کی سلوں پر بھی لٹایا گیا تمام دنیا نے اس قوم پر دور بینیں فکس کردیں کہ یہ کیا جذبہ ہے جس سے یہ قوم مالا مال ہے۔ پاکستانی قوم بڑے مضبوط اعصاب کی مالک ہے۔ گزشتہ پچاس سال میں اپنے اور پرائے لوگوں کی سازشوں اور نالائقیوں کے باوجود زندہ و تابندہ ہے اور سر اٹھا کر چل رہی ہے۔ اقوام عالم میں اس کا دبدبہ دوستوں او ر دشمنوں کے لئےایک حیرت انگیز واقعہ ہے کیونکہ اس کے ذہین ترین افراد اور عوامی لیڈر شپ کا قتل، بڑے بڑے حادثے ،سیاسی افراتفری، اقتصادی لوٹ مار رہنمائوں کی رہزنی یہ سب کچھ ہونے کے باوجود اس قوم میں عالمی معیار کے لوگ مسلسل پیدا ہورہے ہیں۔یہ ملک تمام وسائل رکھنے کے باوجود ایک غریب ملک کیوں بن گیا عوام یہ سوچ سوچ کر پریشان ہیں۔ ابھی تک کسی بڑے لٹیرے اور قومی مجرم کو سخت ترین سزا نہیں دی گئی ہمارے ناخدائوں نے اس قوم کی لیڈر شپ کو کٹھ پتلیاں سمجھ کر عالمی بساط پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے چونکہ لیڈر شپ کی اکثریت شعور اور آگہی کو نہیں سمجھتی تھی سب سے پہلے ہمیں کمیونزم کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر استعمال کیا اور کمیونزم کے خلاف یلغار میں ہم سیسہ پلائی دیوار بن گئے آج کل طالبان کے خلاف جنگ ہمارے دروازوں تک لے آئی گئی ہے افغان جنگ کو ہم اپنے گلے کا ہار بنا کر فرنٹ لائن پر لڑے ۔مجھے یاد ہے جب جنرل ضیاء الحق نے مختلف رہنمائوں سے اس معاملے پر رابطہ کیا تو پاکستان کی محب وطن سیاسی لیڈر شپ نے انہیں منع کیا کہ اس جھگڑے میں نہ پڑیں یہ پاکستان کی بقاء کو خطرے میں ڈال دے گا۔ لیکن ہمارے ناخدائوں کی خواہش تھی کہ ہم ہی روس کے خلاف چمپئن بنیں اور ہم بن گئے۔ ہماری لیڈر شپ میں دور تک دیکھنے کی صلاحیت نہ تھی پھر ایک وقت آیا کہ ہمیںاسلام اور سوشلزم کی جنگ میں دھکیل دیاگیا۔ مغرب جب کوئی منصوبہ بندی کرتا ہے اس کے تانے بانے جمہوریت اور عوامی رد عمل کے نام سے جوڑ کر آگے بڑھتا ہے مسائل سلجھنے کا وقت جب بھی آتا ہے تو وہ اسے بہت خوبصورتی کے ساتھ سبوتاژ کر دیتے ہیں جیسے کہ ہر اہم مسئلے پر جب بات مذاکرات کی کامیابی کی طرف بڑھنے لگتی ہے جن کے ذریعے امن قائم ہوسکتا ہے تو ڈرون کے ذریعے سارے عمل کو افراتفری کا شکار کردیا جاتا ہے اس کے مقابلے کے لئے ایمانداری سے سوچنے کی بات ہے کہ آپ کے پاس کوئی ایسا تھنک فورم موجود ہے جو ان کا توڑ کرکے ردعمل سے آگاہ کرسکے اب یہ بات ہماری بے بسی تک جا پہنچی ہے ہم صرف دھمکیاں دے سکتے ہیں جو دیتے رہتے ہیں۔میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ہماری سرکاری مشینری اور سیاسی جماعتیں اس قابل نہیں ہیں کہ برصغیر کے پڑوسی ملکوں کی آنے والی اور گزری ہوئی سازشوں ،ٹیکنیکل چالاکیوں کو سمجھ سکیں۔ ہم تو آج تک یہ بھی نہ کرسکے کہ ہمارے یہاں ہونے والے دھماکوں کا ذمہ دار کون ہے ہمارے اہم ترین لوگ ہر دھماکے پر تخریب کاری کو غیر ملکی دہشت گردی قرار دے کر چپ ہوجاتے ہیں ارے بھائی کسی کا نام تو لو ’’کون معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں ‘‘عالمی سازشیں ہمارے خلاف کہاں ہورہی ہیں ہمارا تو آدھا ملک ٹوٹ گیااور ہماری قیادت حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹوں کے باوجود کوئی بھی کارروائی نہ کرسکی کل کے عام لوگ جلد سے جلد کیسے ارب پتی بن گئے ہمیں ہر دور میں ایسی سیاسی نرسری دی گئی جس کا احتساب بھی کرنا پڑا قیادت ان لوگوں کے سپرد کی گئی جو اپنا وزن بھی نہ اٹھا سکے ۔ کیا یہ سچ نہیں ہے۔
تازہ ترین