• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسے وقت ، کہ پوری قوم کی نگاہیں حکومت اور طالبان کے درمیان مجوزہ مذاکرات پر مرکوز ہیںاس سلسلے میں اب تک پیش رفت سے پتہ چلتا ہے کہ فریقین مذاکرات کی کامیابی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے نیک نیت تو ہیں لیکن حد درجہ محتاط بھی ہیں اس لئے مذاکراتی عمل بے شمار ابہامات اور سست رفتاری کا شکار ہے طالبان کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی کا اشارہ ملنے پر حکومت نے ان سے رابطے کے لئے ایک ایسی کمیٹی بنا دی جس کے ارکان غیر سیاسی اور طالبان کے لئے قابل قبول ہیں اس کے جواب میں طالبان نے اپنی صفوں سے باہر کے علماء اور سیاست دانوں پر مشتمل ایک سیاسی کمیٹی قائم کر دی جس کا کام حکومتی کمیٹی سے مل کر مذاکرات میں زیر بحث آنے والے امور کی حدود و قیود طے کرنا ہے اس کمیٹی کے بعض ارکان ابھی اس تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ کمیٹی میں شامل ہوں یا نہ ہوں اسی دوران طالبان شوریٰ نے اپنے رہنمائوں پر مشتمل ایک دس رکنی وسیع البنیاد کمیٹی قائم کر دی ہے جو حکومتی اور طالبان کمیٹی کے مابین مجوزہ مذاکرات کی نگرانی کرے گی حکومت نےبھی اپنی کمیٹی کا دائرہ کار متعین کر رکھا ہے یہ کمیٹی طالبان سے انکی شرائط و مطالبات جاننے اور انہیں حکومت تک پہنچانے کی کوشش کرے گی طالبان کی سیاسی کمیٹی کا مینڈیٹ ابھی واضح نہیں ہے تاہم بعض اطلاعات ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا دائرہ کار ایک طرف مذاکرات کے لئے طالبان کی شرائط معلوم کرنا انہیں حکومتی کمیٹی تک پہنچانا اور پھر حکومت اور طالبان کے درمیان اتفاق رائے کی بنیادیں تلاش کرنا ہے اگر ایسا ہے تو یہ ایک طویل عمل ہو گا جس کے مکمل ہونے میں کافی وقت لگ سکتا ہے اور اس دوران فریقین میں سے کسی کی معمولی سی بھی غلطی یا لغرش باہمی اعتماد کے ماحول کو خراب کر سکتی ہے جو ایک المیہ ہو گا اس ضمن میں اتوار کو پشاور کے ایک سینما گھر میں ہونے والے دھماکوں کا حوالہ کافی ہے ۔طالبان نے اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے مگر اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ ملک میں امن و استحکام کی مخالف قوتیں حکومت طالبان مذاکرات سے خوش نہیں وہ انہیں سبوتاژ کرنے کے لئے اپنے تنخواہ دار ایجنٹوں کے ذریعے کچھ بھی کر سکتی ہیں پھر امریکہ نے بھی ڈرون حملے نہ کرنے کی کوئی ضمانت نہیں دی اس لئے اس طرح کا کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ مذاکرات میں رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے اس پس منظر میں مذاکراتی عمل کو زیادہ طول نہیں دینا چاہئے اب تک جو کمیٹیاں قائم ہوئی ہیں ان کا دائرہ کار واضح ہونا چاہئے اور انہیں آپس میں مل بیٹھنے کی محفوظ سہولت دی جانی چاہئے ان کے کردار کی نوعیت کا باضابطہ تعین ہونا چاہئے اس دوران فریقین کو ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے گریز کرنا چاہئے اور دونوں طرف سے عملی کارروائیاں روک دینی چاہئیں جتنا جلد ممکن ہو حکومت اور طالبان قیادت کے درمیان براہ راست اور نتیجہ خیز مذاکرات کو ممکن بنانا چاہئے تا کہ قتل و غارت بند ہو طالبان نے اپنی صفوں سے باہر کی نامور شخصیات پر مشتمل مذاکراتی ٹیم مقرر کر کے ملکی آئین کو تسلیم کر لیا ہے۔ شریعت کے نفاذ سمیت ان کے دوسرے مطالبات بھی آئینی تقاضوں کے مطابق اور باہمی افہام و تفہیم حل کئے جا سکتے ہیں۔ یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے کہ قبائلی عوام طویل عرسے سے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں۔وہ اپنے جان و مال کا تحفظ چاہتے ہیںجسے یقینی بنانے کیلئے مذاکرات کی کامیابی بہت ضروری ہے ۔ایسے وقت ، کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کا اعلان شدہ وقت قریب آرہا ہے اور وہاں مزاحمت کرنے والی قوتیں کشمکش اور آویزش کے ایک طویل دور کے بعد افغانستان میں قیام امن کے لئے امریکہ سے مذاکرات کر رہی ہیں پاکستانی طالبان کو بھی قومی دھارے میں شامل ہو کر امن کو راستہ دینا چاہئے امریکہ افغانستان سے جانے والا ہے جسکے لئے احتیاط اور دانشمندی سے تیاری کی جائے تو پورے خطے میں امن و ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو گا پاکستانی طالبان کوبھی امن آشتی اور ترقی کے اس موقع کو ضائع نہیں جانے دینا چاہئے تاکہ ان کے لوگ بھی اس کے ثمرات سے بہرمند ہوسکیں۔ مذاکرات کی کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت ہر مرحلے میں اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لے اور باخبر رکھے ملک میں امن و استحکام کے لئے اتحاد و اتفاق کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

پشاور دھماکےکے پیچھے کون ؟
پشاور کے بارونق علاقے قصہ خوانی بازار میں واقع ایک سنیما گھر کے اندر گزشتہ رات یکے بعد دیگرے ہونے والے دو بم دھماکے پانچ انسانی جانوں کے نقصان اور ڈیڑھ درجن سے زائد افراد کے زخمی ہونے کا سبب بنے۔ تحریک طالبان پاکستان نے فوری طور پراس افسوسناک واقعے سے لاتعلقی کا اظہارکردیا جس کے بعد اس واردات میں ان عناصر کا ملوث ہونا یقینی معلوم ہوتا ہے جو حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان قیام امن کے جاری عمل اور مذاکرات کے لئے سازگار ہوتی فضا کو سبوتاژ کرکے پاکستان کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونکنے کے لئے کوشاں ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ ملک کے اندر متعدد ایسی علاقائی اور عالمی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیاں ایک مدت سے سرگرم عمل ہیں جو خطے میںاپنے استعماری اور نظریاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے پاکستان کو مسلسل عدم استحکام اور انتشار میں مبتلا رکھنا چاہتی ہیں۔ ان میں وہ طاقتیں بھی شامل ہیں جنہوں نے پاکستان کے وجود کو اب تک دل سے تسلیم نہیں کیا اور وہ بھی جن کے نام نہاد ماہرین کی جانب سے پاکستان کے خاتمے کی پیشین گوئیاں کی جاتی رہتی ہیں۔ یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ یہ بم دھماکے مبینہ طور پر چینی ساختہ بموں کے ذریعے کیے گئے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح ہرقسم کے حالات میں پاکستان کا ساتھ دینے والے عظیم اور قابل اعتماد دوست سے پاکستانی عوام کو بدگمان کرنے کی مکروہ کوشش کی گئی ہے۔ایسی مزید کوششیں عین متوقع ہیں۔ ماضی میں بار بار اس کا تجربہ ہوچکا ہے۔ ایک عالمی طاقت کے نمائندوں نے ایک دن پہلے ہی لندن میںمقیم بلوچستان کے باغی لیڈروں سے مل کر انہیں علیحدگی کی تحریک کے لئے مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے جس سےبعض قوتوں کی سوچ کےبارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لہٰذامذاکرات کو ناکام بنانے کے لئے کی جانے والی تخریب کاری کی روک تھام کے لئے انتظامیہ کو زیادہ چوکس رہنا ہوگا جبکہ مذاکرات کے دونوں فریقوں کو تہیہ کرلینا چاہئے کہ مشترکہ دشمنوں کی سازشوںکو قیام امن کی کوششوں میں رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا ۔

گولارچی گیس: خوشخبری
ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے گولارچی کے قریب بدین کنسیشن بلاک میں تیل کی تلاش کے لئے کھودے جانے والے بھٹی ڈیپ ون نامی کنوئیں سے گیس کے نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں جن سے 1740کیوبک فٹ گیس یومیہ حاصل ہو گی اور رواں مہینے میں ہی سسٹم میں شامل ہو جائے گی۔
ملک میں اس وقت گیس کی جتنی قلت ہے اس کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ نہ صرف سی این جی سٹیشنوں کو ہفتہ میں دو دو تین تین دن بند کرنا پڑ رہا ہے بلکہ ملک بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص گیس کی اتنی شدید لوڈشیڈنگ کرنا پڑ رہی ہے کہ خواتین کے لئے کھانا پکانا تک دشوار ہو گیا ہے جس کی وجہ سے بچوں اور ملازمین کو خالی پیٹ سکولوں اور دفاتر میں جانا پڑ رہا ہے۔ ان حالات میں سندھ میں گیس کے نئے ذخائر کی تلاش فی الواقع ایک بڑی خوشخبری ہے۔ ہمارے ہاں آنے والی مختلف حکومتوں نے پچھلے برسوں میں گیس کی تلاش کے لئے ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کو لائسنس دینے کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی حالانکہ ماہرین ارضیات پورے تواتر سے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ نہ صرف سندھ اور بلوچستان میں گیس کے بڑے ذخائر مل سکتے ہیں بلکہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے پوٹھوہار کے علاقے میں بھی تیل و گیس ملنے کے روشن امکانات ہیں۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد تیل و گیس کی کھدائی کے لئے کوئی دو درجن کے قریب کمپنیوں کو لائسنس جاری کئے ہیں۔ اگر ارباب اختیار کی نگرانی میں تیل و گیس کی تلاش کو سرگرمی سے جاری رکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید واثق ہے کہ اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے اور گیس کے نئے ذخائر کی تلاش سے فرنس آئل پر خرچ ہونے والے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی ۔ امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے بھی پاکستان کے توانائی بحران کو کم کرنے میں تعاون کی پیشکش کی ہے اس سے بھی ضرور فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔ اسی طرح ایل این جی کی درآمد کا مرحلہ تیزی سے مکمل کرنے سےبھی صورتحال میںقابل ذکربہتری آسکتی ہے۔
تازہ ترین