• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج میں آپ کو کوئی قصہ نہیں سنائوںگا۔ آج میں آپ کو لٍلی برج کے نیچے ہونے والی تاریخی کانفرنس میں فیصلوں کا خلاصہ سنائوںگا۔ ایک روزہ کانفرنس لگاتار بارہ گھنٹے چلتی رہی تھی۔ مندوبین نے کھل کر اپنی آرا کا اظہار کیا تھا۔ بغیر کسی رکھ رکھائو کے ! لہٰذا کانفرنس میں جو کچھ دیکھا، جو کچھ سنا میں اس کارروائی کا خلاصہ آپ کو سنائوں گا۔ اپنی طرف سے خلاصہ میں اضافہ نہیںکروں گا اور نہ ہی کسی قسم کی ڈنڈی ماروں گا۔ نہ ہی ترمیم کروں گا۔ کانفرنس دعوت عام نہیں تھی وہ اس لئے کہ لٍلی برج کے نیچے آزاد میدان نہیں ہے۔ لٍلی برج کے نیچے مشکل سے پانچ چھ سو لوگ جمع ہوسکتے ہیں۔ ایک اور بات آپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ آپ اگرکبھی بھی لٍلی برج کے نیچے کانفرنس ، یا سیمینار کرناچاہیںتو اس بات کو مدنظر رکھیں ۔ لٍلی پل کے نیچے بے شمار بے گھر بچے رہتے ہیں جن کو نہ اپنے باپ کا پتہ ہے اورنہ اپنی ماں ، اگر کسی کو اپنے ماں باپ کے بارے میں معلوم ہے بھی، تو وہ بتانا نہیںچاہتے۔ وہ بچے ڈیفنس کراچی کے کباب خانوں کے پیچھے اندھیری گلیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں اورگاہگوں کا بچا کچا کھانا ڈرموں سے نکال کر لے جاتے ہیں اور لٍلی پل کے نیچے مل کر کھاتے ہیں۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ ڈیفنس جیسے پوش علاقے میں اس قدرکباب خانے کیوں ہیں ! بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ۔ ڈیفنس اتھارٹی کے علاقے میں جہاں کباب خانے ہیں وہاں خوبصورت اوردیدہ زیب مساجد بھی ہیں۔کچھ مساجد ایرکنڈیشنڈ ہیں۔نماز کے وقت مساجد کے باہربڑی بڑی گاڑیوں کی قطار میں لگ جاتی ہیں۔ سچ جانیے مجھ جیسا میلا کچیلا ، گندہ گنہگار شخص جگمگ کرتی ہوئی مساجد میں داخل ہونے کی ہمت نہیں کرسکتا۔
حکومت اور معاشرہ پسماندگی میں پلنے والے بچوں کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ انہیں نالی کا کیڑا سمجھ کر نظراندازکردیا جاتاہے۔انکی فلاح و بہبود کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ سوچ سے محروم معاشرہ گمان تک نہیںکرسکتا کہ یہی لاوارث بچے آٹھ دس سال بعد جواں ہو کر معاشرے کیلئے مستقل عذاب بن جاتے ہیں ۔وہ چھوٹی موٹی چوریوں سے لیکر ڈاکہ زنی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ قتل و غارت کو اپنا پیشہ سمجھتے ہیں۔ ہم جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔ تعلیم، تربیت، عزت کی روٹی، گھر سے محروم، ننگ دھڑنگ بچوںکو جب معاشرے کی مدد کی ضرورت تھی تب کسی نے ان کی مدد نہیںکی تھی۔ ماحول کی ٹھوکریں کھا کر جواں ہونے کے بعد وہ معاشرے کی عزت کیوں کریں؟ لٍلی پل کے نیچے بسنے والے بچے بڑے سخت جان ہیں۔ لٍلی پل کسی کوآسانی سے آنے جانے نہیں دیتے۔ اپنے علاقے میںکسی کی دخل اندازی برداشت نہیںکرتے۔ لیکن ہماری پارٹی پی کے پی یعنی پاکستان کنگال پارٹی پرکسی قسم کی پابندی عائد نہیں کرتے۔ بلکہ ہمارے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے ملک بھر کے تمام لاوارث، ننگے بھوکے،خانہ بدوش بچے ہماری پارٹی کی بچہ پارٹی ہے، یعنی پاکستان کنگال پارٹی کی ذیلی پارٹی ہے۔ یہ حقیقت ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ ہماری پارٹی کے زیادہ تر ممبر وہ ہیں جن کا بچپن اور لڑکپن تمام ملک کی لٍلی برجوں کے نیچے کسمپرسی میںگزرے ہیں۔ لٍلی برج علامت ہے۔ علامت کو علامت رہنے دیجئے۔ سمجھنے کی غلطی مت کیجئے ، ورنہ کئی راتوں تک آپ چین کی نیند نہیں ہوسکیں گے یہ وہ کسک ہے جو بانٹی نہیں جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پی کے پی والے جب بھی کوئی ہنگامی کانفرنس کرتے ہیں تو لٍلی برج کے نیچے کرتے ہیں ۔حال ہی میں ہونے والی کانفرنس کاموضوع تھا: کیا وجہ ہے کہ حکومت مٹھی بھر دہشت گردوں سے ڈرتی ہے۔ ان سے صلح صفائی اورافہام و تفہیم کرنا چاہتی ہے اورملک کی سب سے بڑی پارٹی پی کے پی یعنی پاکستان کنگال پارٹی کو گھاس نہیں ڈالتی! تمہید سے آگے آپ کانفرنس کی کارروائی کا خلاصہ پڑھیں:
پاکستان کنگال پارٹی کے ممبران جانتے ہیں کہ پچھلے چھیاسٹھ برسوں سے حکومت وقت نے ہماری طرف کبھی توجہ نہیں دی۔ اس لاتعلقی کے لئے ہم حکومتوں کو موردالزام نہیں ٹھہراتے ۔ ہم جانتے ہیں کہ روز اول سے آج تک حکومتیں طرح طرح کے وہموں میںگھری رہتی ہیں ۔گھبرائی گھبرائی رہی ہیں وہم بڑھتے بڑھتے حکومتوں کے لئے خوف کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ ڈرکی وجہ سے حاکم تھرتھرکانپتے رہتےہیں۔ 1947میں پاکستان کے وجود میں آنے کے فوراً بعد حکومت کو وہم نے گھیر لیا کہ کوئی خفیہ ہاتھ پاکستان کو غیرمستحکم کرنا چاہتا ہے۔ غیرمستحکم کوئی تب ہوتا ہے جب پہلے سے مستحکم ہو ۔ لیکن پاکستان کے حکمرانوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ یا پھر وہ اس بات کو سمجھنے کے اہل نہیں تھے۔ انہوں نے ملک کو مستحکم کرنے کے بجائے تمام توجہ اور وسائل پاکستان کو غیرمستحکم کرنے والے خفیہ ہاتھ کی کھوج میں لگا دیئے اور سب کچھ کھو بیٹھے۔
ہندوستان کا خوف حکمرانوں کی نفسیات کا حصہ بن چکا ہے۔ ان کو ڈر لگا رہتا ہے کہ ہندوستان کبھی بھی پاکستان پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔حکمران خود خوفزدہ رہتے ہیں اور پاکستانیوں کو خوفزدہ کرتے رہتے ہیں۔ کانفرنس کے مندوبین نے سوال اٹھایا کہ آخر ہندوستان کیوں چاہے گا کہ ایک ایسا ملک اس کے ملک کا حصہ بن جائے جس میں روزانہ ستر اسی لوگ قتل کر دیئے جاتے ہیں، خواتین کی بے حرمتی ہوتی ہے۔لوگوں کے جائز کام بھی رشوت کے بغیر نہیںہوتے چور اچکے محلوں پرراج کرتے ہیں تعلیمی نظام زوال پذیر ہے حاکموں نے دنیا بھر کے ممالک سے امداد وصول کرنے کے بعد بیرون ملک اپنی تجوریاں بھر لی ہیں اور املاک خرید لی ہے حاکموں نے دنیا بھر سے اس قدر قرض لیا ہے کہ پاکستان میں اب جوبچہ پیدا ہوتا ہے وہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے کا مقروض ہو کر اس دنیا میں آتا ہے۔ ایسے میں آپ خود فیصلہ کر لیں کہ کیا حکومت طالبان کامقابلہ کرسکتی ہے؟
ہم حکومت پاکستان کے سامنے ایک تجویز رکھتے ہیں۔ ملک سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کا ٹھیکہ پاکستان کنگال پارٹی کو دیدے۔ ہم تعداد میں اٹھارہ کروڑ ہیں دہشت گردوں کی گولیاں مختصر ہو جائیں گی مگر ہم ختم نہیں ہوں گے۔ ہم انہیں اپنے پیروں تلے کچل دیں گے لیکن اس کیلئے ہماری ایک شرط ہے ۔ حکومت پاکستان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان کنگال پارٹی پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی ہے لہٰذا آئندہ پاکستان کا وزیراعظم ، صدر اورچاروں صوبوں کےوزرائے اعلیٰ ہماری پارٹی سے ہوں گے اگرآپ نےاٹھارہ کروڑلوگوںکی پاکستان کنگال پارٹی کو نظراندازکردیاتوپھر پاکستان کا صدر طالبانی ہوگا۔ وزیراعظم طالبانی ہوگا اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ طالبانی ہوں گے۔
تازہ ترین