• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نو منتخب جمہوری حکومت کی قیادت میں دہشت گردوں سے مذاکرات کے لئے جب اسلام آباد میں APC ہوئی تو ہمیں اس پر سہ طرفہ تحفظات تھے۔ دوسری جانب اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ آخر امن کا وہ کونسا خواستکار ہے جو مذاکرات پر ملٹری آپریشن کو ترجیح دے گا؟ حالات خواہ کیسے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں انسانوں سے محبت کرنے والے ہر شخص کی اولین آرزو مذاکرات اور افہام و تفہیم سے مسئلے کو حل کرنا ہی ہو سکتی ہے ملٹری آپریشن تو انتہائی آخری آپشن یا آخری حربہ و چارہ کار ہے۔ اس کے باوجود ہمارا یہ سوال تب بھی تھا اور اب بھی ہے کہ فرض کریں طالبان بھائیوں سے وطن عزیز کی سیاسی عسکری قیادت کے مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں اس کے بعد والے منظر نامے پر ذرا غور فرمائیں کہ وہ کیا ہو گا؟۔ مذاکرات ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتے ہیں پاکستانی ریاست کے پاس دہشت گردوں کو کچھ دینے کے لئے کیا تھا؟ طالبان کے متوقع طور پر کم از کم تین مطالبات تو بہر صورت سامنے آنے تھے اور آنے ہیں اول جمہوریت نظام کفر ہے اور انگریزی قوانین پر استوار ہمارا پورا عدالتی نظام بھی کافرانہ ہے لہٰذا پورے ملک میں بالعموم اور پختون پٹی میں بالخصوص شریعت محمدی ﷺ نافذ کی جائے۔ اس پر ہم انہیں اپنے سیاسی مذہبی رہنمائوں کے ذریعے سمجھا بجھا کر خاموش کر دیتے کہ دیکھو آئین کو نہیں چھیڑا جا سکتا لہٰذا تمہارا یہ مطالبہ وفاقی پارلیمانی آئین کی حدود میں رہ کر ہی قبول ہو سکتا ہے حالانکہ شرعی قانون کے نفاذ کی مناسبت سے پاکستانی ریاست ماقبل صوفی محمد صاحب کے سامنے سرنگوں ہو چکی ہے جس کی حمایت میں ہمارے یہاں خاصی حجت بازی بھی کی جاتی رہی ہے یہاں حکومت کو یہ واضح کرنا ہو گا کہ کیا اب بھی اس کا کوئی اس نوع کا ارادہ ہے؟ دوم: طالبان کا مطالبہ یہ آنا تھا اور آئندہ بھی آنا ہے کہ ہمارے مخصوص خطے سے پاکستان کی مسلح افواج کو نکالا جائے تاکہ ہم اپنی منشاء کے مطابق کم از کم قبائلی علاقوں کو کنٹرول کر سکیں۔ ایسے کسی مطالبہ کو ماننے کے بعد جو اودھم بپا ہونا تھا اس کے پیش نظر یہ مطالبہ بھی پاکستانی قیادت کے لئے ناقابل قبول ہو گا فوج نکالنے کا صاف مطلب ہو گا کہ فاٹا کے شہریوں کی جان و مال طالبان لیڈروں کے رحم و کرم پر آ ٹھہرتی۔ لہٰذا ریاستی اقتدارِ اعلیٰ کا مسئلہ پیدا ہو جانا تھا۔ فوج نہ سہی کسی بھی دوسرے نام سے وفاق کو فورس تو رکھنی ہی پڑے گی ورنہ حالات کنٹرول سے باہر ہو سکتے ہیں۔ طالبان کا تیسرا کڑوا مطالبہ ظاہر ہے یہ ہو تاکہ ریاست ہمارے لئے عام معافی کا اعلان کرے اور شدید ترین جرائم میں ملوث ہمارے تمام ساتھیوں کو بھی رہا کر دیا جائے بدلے میں ہم بڑے ہتھیار پھینک دیتے ہیں اور دہشت گردی پر مبنی کارروائیاں روک دیتے ہیں پاکستانی قیادت و ریاست کو کم از کم یہ مطالبہ تو ضرور ماننا ہی پڑے گا لیکن ایک بڑا الجھائو پھر بھی ہتھیاروں کے حوالے سے ضرور رہ جائے گا یہ کہ پختون ہو کر اپنے پاس بندوق بھی نہ رکھیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟اسلحہ وہ جتنا بھی ریاست کے حوالے کریں گے پھر بھی یہ ممکن نہیں کہ فاٹا قطعی طور پر اسلحہ سے پاک ہو جائے گا۔
سو ہمارا سوال یہ تھا کہ ایک نوع کی فتح کے نشے سے سرشار یہ جہادی جب عام معافی حاصل کرتے ہوئے اپنے تمام قیدیوں کو بھی رہا کروا لیںگے تو کیا اس کے بعد وہ سب تسبیح پکڑ کر مساجد میں بیٹھ جائیں گے کہ اب ہم نے دنیا داری بھی چھوڑ دی ہے یا سنیاس لے لیا ہے خطے کے مخصوص تاریخی و زمینی حقائق کی روشنی میں یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ معاملات سے لاتعلق ہو کر بیٹھ جاتے بلکہ ہم یہ دیکھ رہے تھے کہ زیادہ دیر نہ گزرتی کہ وہ ایک نئی آب و تاب کے ساتھ ابھرتے..... افغانستان کے اندر بھی ہم ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ بربادیوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ افغانستان کی دہشت گردی کو بھی اس باریک صورتحال کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ امریکی فورسز کی قیادت میں جب اتحادیوں نے طالبان اقتدار کا خاتمہ کرتے ہوئے افغانستان پر قبضہ کیا تو کوئی خاص لڑائی نہ ہوئی تھی جس کی ہمارے لوگ توقع کر رہے تھے اتحادی فورسز کے پاس اتنے ماڈرن اور حساس اسلحہ و ٹیکنالوجی کے باوجود طالبان کی کمر توڑی جا سکی نہ اُن کی طاقت کا اس طرح خاتمہ کیا گیا جو وہاں کے مخصوص مذہبی و قبائلی تعصبات اور افغان کلچرمیں انقلاب کے لئے ضروری تھا جس کی قیمت آج تک نہ صرف امریکی و اتحادی فورسز کو چکانی پڑ رہی ہے بلکہ عام افغان عوام بھی اس بڑی تبدیلی کے ثمرات سے محروم ہیں گوانتاناموبے سے بھی بھرپور واپسی ہو گئی اور یہ سب کوتاہیاں تحریک مزاحمت کے دوام کا باعث بنی رہتی۔ کسر حامد کرزئی کے کرپٹ و کمزور و ناکارہ انتظامی سٹرکچر اور بالخصوص افغان صدر کے ناپختہ و غیر سنجیدہ رویئے نے نکال دی وہ افغان قوم کو اتنی طویل حکمرانی کے باوجود کچھ بھی ڈلیور کرنے سے بُری طرح قاصر رہے یہاں تک کہ اب تمام نگاہیں آنے والے انتخابات کے بعد قائم ہونے والے سیٹ اپ پر لگی ہوئی ہیں۔ طالبان بھی اس سال امریکی فورسز کے انخلاء پر نظر جمائے بیٹھے ہیں تاکہ ملک میں ایک نیا اودھم برپا کیا جا سکے جو طالبان اور احمد شاہ مسعود کی خانہ جنگی سے بھی بدترین نئی خانہ جنگی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ امریکی و اتحادی فورسز کا انخلاء ہونے کی دیر ہے تمام افغان سیٹ اپ زمین بوس ہو کر طالبان کے قدموں میں آ گرے گا ہم اسے درست نہیں سمجھتے اگرچہ چیلنج خاصا بڑا ہے۔ ایک تو لوکل افغان فورسز کا اچھا خاصا سیٹ اپ سالوں کی ٹریننگ سے تیار کیا جا چکا ہے دوسرے سپورٹ کے لئے ایک مخصوص حد تک امریکی فورسز بھی رکھی جائیں گی تیسرے امریکی بحری بیڑے بھی بہت زیادہ دور نہیں ہوں گے۔ چوتھے افغان عوام میں طالبان اور ان کی پالیسیوں سے نفرت کرنے والوں کی تعداد میں بھی کسی طرح طالبان حمایتیوں سے کم نہیں ہے بہت سے موثر طبقات موجود ہیں جو طالبان واپسی میں شدید مزاحم ہوں گے۔
اس تمام تر خوش فہمی کے باوجود شدید نوعیت کی طویل خانہ جنگی کے خدشات ناممکنات میں سے نہیں ہیں ایسی صورت میں اگر پاکستانی طالبان کو نئی جلا ملتی ہے تو پاکستان بھی بدترین عدم استحکام کی زد میں آ سکتا ہے بالخصوص پختون خواہ اور فاٹا کے ان حساس قبائلی علاقوں میں۔ لہٰذا پاکستانی قیادت اگر فہم و فراست سے خالی نہیں ہے تو اسے ہر قیمت پر پاکستانی طالبان کی طاقت کو نہ صرف یہ کہ ختم کرنا ہو گا بلکہ مختلف اصلاحات روبہ عمل میں لاتے ہوئے خطے کی تقدیر کو بھی بدلنا ہو گا بالخصوص سیاسی اصلاحات کے تحت قبائل کو شہری زندگی سے ہمکنار کرتے ہوئے فاٹا میں مواصلات کو ترقی دینا ہو گی۔ تعلیم اور روزگار کے ذریعے وہاں بڑی سماجی تبدیلی ہی انتہاء پسندی و دہشت گردی کا حقیقی خاتمہ کر سکتی ہے۔ پاکستانی ریاست بشمول سیاسی و عسکری قوت اگر مگر اور دوغلا پن چھوڑ کر صدقِ دل سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے پر تل جائے تو کوئی دیوار یا پہاڑ اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتے۔ اس مخمصے کو سلجھانے میں ہمارے تعاون کے بغیر جو نتائج سپر پاور حاصل نہیں کر سکتی ہم اس کے تعاون سے وہ آئوٹ پٹ بھی نکال سکتے ہیں اس لئے کہ ہم گھر کے بھیدی ہیں اور یہ سب تانے بانے ہمارے اپنے بنے ہوئے ہیں۔
تازہ ترین