• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت پوری قوم کی توجہ طالبان اور حکومت کی مذاکراتی ٹیموں کی سرگرمیوں اور پیش رفتوں پر ہےمگر یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہئےکہ اس طرح کے معاملات خط مستقیم کی طرح سیدھے اور ہموار نہیں چلتے، ان میں پیچ و خم اور نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔منگل کے روز حکومت اور طالبان کی مذاکراتی ٹیموں کی ملاقات نہ ہونے اور بعدازاں طالبان کے ترجمان اور ان کی نامزد کمیٹی کی وضاحت کے بعد باضابطہ ملاقات کی خواہش کے اظہار کا معاملہ متحارب فریقوں کے مذاکرات کے حوالے سے اچانک سامنے آنے والی بہت سی رکاوٹوں کا ایک حصہ ہے مگر جب ایسے معاملات ذرائع ابلاغ پر لائے جاتے ہیں یا بیانات کا حصہ بنتے ہیں تو سنگین پیچیدگیاں پیداہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ اس لئے فریقین اگر مذاکرات کو کامیابی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں تو انہیں چند باتوں کا بہر طور خیال رکھنا ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی بھی مکالمے کے نتیجہ خیز ہونے کی سب سے پہلی شرط اخلاص ہے۔ وطن عزیز کو اس وقت جس بڑے بحران کا سامنا ہے اس کا تقاضا ہے کہ طالبان سمیت اس وطن میں رہنے بسنے اور اس آب و ہوا میں سانس لینے والے تمام فریق پہلے قدم کے طور پرنیک نیتی کے ساتھ آپس میں بات چیت کریں اور اس ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے مل جل کر کام کریں۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس باب میں رابطوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں دوسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ قتل و غارت اور تخریب کاری کا سلسلہ بند ہو۔ پچھلے کئی روز کے دوران خیبرپختوا اور سندھ میںرونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں درجنوں افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے ہیں ۔ تحریک طالبان نے ان واقعات سے لاتعلقی ظاہر کی ہے لیکن یہ کافی نہیں ، اس مرحلے پر اسے ان واقعات کی روک تھام میں حکومت کی مدد کرنی ہوگی ۔ اس ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ جب دو فریق اپنے اختلافات دور کرنےاور باہمی اتفاق کے حامل نکات پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو میڈیا کے ذریعے مذاکرات نہیں کرتے۔ سنجیدہ مذاکرات براہ راست یا بالواسطہ رابطوں کے ذریعے ہوتے ہیں۔ آئرش ری پبلکن آرمی اور برطانوی حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے ہوں یا فلسطین اور اسرائیل کے درمیان صلح کی کوششیں، سب میں یہی طریقہ اختیارکیا گیا۔ خود پاکستان میں بھی ماضی میں حکومت اور بعض متحارب گروپوں کے درمیان کئی معاہدے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ذریعےہوئے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ دونوں فریق اپنی باتیں، شکایات اور تحفظات ایک دوسرے تک پہنچانے کے لئے میڈیا کو استعمال کرنے سے گریز کریں۔ سنجیدہ مذاکرات کی ایک اہم ضرورت ان کا ایجنڈا، طریق کار اور معاملات طے پانے کی صورت میں فیصلوں پر عملدرآمد کا پہلو ہوتا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ مذاکراتی ٹیموں کی پہلی نشست میں ہی ان نکات پر غور کرلیا جائیگا۔ کمیٹیوں میں موجود جید علمائے دین ،دانشوروں اور نامور صحافیوں کو اس باب میں بھی معاشرے کی رہنمائی کرنی ہوگی کہ آبادیوں میں مذاہب، فرقوں اور نسلوں کی جو ہمہ رنگی پائی جاتی ہے اسے رواداری اور خوش دلی سے کیسے برداشت کیا جانا چاہئے ماضی میں ملی یکجہتی کونسل نے مختلف فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کے لئے کچھ رہنما اصول بنائے تھے جن پر تمام مکاتب فکر نے اتفاق کیا تھا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں انہی رہنما اصولوں سے کام چلایا جاسکے گا یا کچھ نئے رہنما اصول وضع کرنے کی ضرورت ہوگی۔ طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے یہ بات بھی ملحوظ رکھنی ہوگی کہ ابتدا میں چاہے یہ معاملہ علاقائی رہا ہو مگر اب نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی بن چکا ہے ۔ اس لئے جہاں طالبان کے لئے ضروری ہوگا کہ ملا عمر سے رہنمائی لیں وہیں حکومت پر بھی لازم ہوگا کہ اس نے اب تک جس طرح سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا ہے اسی طرح اس مشاورت کے پہلو بہ پہلو سیکورٹی اداروں سے بھی پوری طرح رابطہ رکھے۔ چیلنج یقیناً بہت بڑے ہیں مگر ان پر قابو پانا بھی ضروری ہے اور اخلاص عمل سے کام لیا جائے تو بڑے سے بڑا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔
تیسری طاقت اور دہشت گردی
حکومت پاکستان اور تحریک طالبان میں قیام امن کے لئے مذاکرات کے امکانات روشن ہونے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے ایسے واقعات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جن سے طالبان مکمل لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ پشاور میں اتوار کے روز پکچر ہاؤس سنیما میں ہونے والے دو بم دھماکوں کے بعد منگل کو قصہ خوانی بازار کے قریب واقع ایک ہوٹل میں ہونے والا خود کش دھماکے سے بھی تحریک طالبان نے بلاتاخیر لاتعلقی کا اظہار کرنے کے علاوہ اس کی شدید مذمت بھی کی ہے۔ منگل ہی کو کراچی میں شالیمار ایکسپریس کو بھی دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کارروائی کی ذمہ داری اب تک کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ طالبان کی مذاکرات پر آمادگی اور اس مقصد کے مذاکراتی ٹیم کی نامزدگی کے بعد ہونے والی اس دہشت گردی کا ایسی قوتوں کی کارروائی ہونا بالکل قرین قیاس ہے جو مذاکراتی عمل کو ناکام بنانا چاہتی ہیں ۔ تاہم ماضی کے مقابلے میں اس وقت طالبان قیادت بھی ایسے واقعات سے اظہار لاتعلقی کرکے مذاکرات کی فضا کو خراب ہونے سے بچانے میں پرعزم دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اس تیسری قوت کو بے نقاب کرنے میں حکومت پاکستان سے تعاون بھی کرے اور اگر اس کا کوئی اتحادی گروپ ایسے واقعات میں ملوث ہو تو اس کے خلاف اس کی جانب سے کارروائی بھی کی جائے۔ پشاورکے سنیما گھر کے دھماکوں کی ذمے داری جنداللہ نامی تنظیم نے قبول کرلی ہے، جسے طالبان کا اتحادی گروپ سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے قیام امن سے اپنے اخلاص کو ثابت کرنے کے لئے طالبان کو جنداللہ کو ایسی سرگرمیوں سے روکنے کی تدبیر یا اسے اتحاد سے الگ کرنے کا اقدام کرنا چاہئے۔ پشاور کے ہوٹل پر خود کش حملہ کے بارے میں بھی طالبان کو معلومات کی فراہمی میں حکومت پاکستان کی مدد کرنی چاہئے کیونکہ جو عناصر بھی ایسا کررہے ہیں وہ طالبان اور حکومت پاکستان کے قیام امن کے مشترکہ مقصد کو ناکام بنانے کی سازش میں شریک ہیں۔ لہٰذا اس تیسری طاقت کو بے نقاب کرنے اور کیفر کردار کو پہنچانے میں طالبان کی طرف سے بھرپور تعاون کیا جانا چاہئے۔

بھارت کی آبی جارحیت
قومی اسمبلی نے منگل کو متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں سندھ طاس معاہدے کو ہدف تنقید بناتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ہمالیائی بلندیوں سے آنے والے دریائوں کے پانی میں پاکستان کے جائز حصے کے حصول کو یقینی بنانے اور بھارت کی آبی جارحیت کو روکنے کے لئے فوری اور موثر اقدامات کئے جائیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ 1960میں دونوں ملکوں میں کرائے گئے سندھ طاس معاہدے میں پاکستان کے حقوق نظر انداز کئے گئے۔ پنجاب کے پانچ دریائوں میں سے ستلج اور بیاس کو مکمل طور پر بھارت کی عملداری میں دے دیا گیا تھا راوی، چناب اور جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا مگر عملی صورت حال یہ ہے کہ ان دریائوں کے منابع تبت اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہیں بھارت اس سے فائدہ اٹھا کر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مختلف طریقوں سے پاکستان کی جانب آنے والے پانی کو مسلسل روک رہا ہے اس نے مقبوضہ کشمیر میں غیر اخلاقی اور غیر قانونی طور پر تقریباً ڈیڑھ سو چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر شروع کر رکھی ہے جس کے خلاف پاکستان بین الاقوامی فورموں پر آواز بھی اٹھا چکا ہے آبی ماہرین نے سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بعض ایسی تکنیکی خامیوں کی نشاندہی کی ہے جن سے بھارت فائدہ اٹھا رہا ہے خصوصاً ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے صرف نظر کیا گیا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو معاملے کے تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر سندھ طاس معاہدے میں ردوبدل کراناچاہئے قدرتی آبی ذخائر میں اپنا جائز حصہ وصول کرنے کے لئے بھارت کے ساتھ نیا معاہدہ کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں بین الاقوامی فورموں سے بھی رجوع کرنا چاہئے ماہرین پیشگوئی کر رہے ہیں کہ یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان آئندہ جنگ آبی ذخائر پر ہو گی اس صورت حال سے بچنے کے لئے پاکستان کو قومی اسمبلی کی قرارداد پر سنجیدگی سے توجہ دینا ہو گی۔
تازہ ترین