• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
راقم کا پچھلا کالم مندرجہ بالا عنوان ہی پر تھا۔ اس کا سارا تعلق آبادی سے ہے اگر آبادی بڑھتی ہے تو لامحالہ روٹی، کپڑا اور مکان کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے، اگر آبادی تیزی سے بڑھتی ہے تو بقول مالتھس پیداواری ذرائع اس کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ 1951 کی پہلی مردم شماری میں پاکستان کی کل آبادی صرف 3کروڑ 37لاکھ تھی جو 21سال میں دگنی 6کروڑ 53 لاکھ اور 1998تک یعنی مزید 25سال میں چوگنی سے زائد ہوگئی۔ اس طرح ہم نے مالتھیس کے نظریئے آبادی کو صحیح قرار دے دیا۔ اس وقت ہماری آبادی میں بڑھوتری کی شرح 3.2فیصد سے کم ہوکر 1.84تک رہ گئ یہے۔ خاندانی منصوبہ بندی پر اربوں روپے اور اجتماعی محنت صرف کرکے وہ نتائج حاصل نہیں کرسکے جو حاصل کرنا چاہئے تھے۔
گو مختلف مردم شماریوں میں شہری علاقوں کی تعریف میں ردوبدل ہوتا رہا ہے اس کے باوجود شہری آبادی ملکی آبادی کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 1951 میں ہماری صرف 13فیصدی آبادی شہروں میں رہتی تھی اور زائد آبادی والے شہر گنتی کے تھے۔ 1998میں شہری 4کروڑ 36لاکھ اور دیہی آبادی 8کروڑ 93لاکھ ہوگئی تھی۔ گو 98کے بعد سے ملک میں مردم شماری نہیں ہوئی لیکن منصوبہ بندی کمیشن نے جو اندازے لگائے ہیں اس کے مطابق یکم جنوری 1914کو ہماری کل آبادی 19کروڑ سے تجاوز کرگئی اور شہری آبادی 9کروڑ سے آگے بڑھ چکی ہے صوبہ سندھ میں شہری اور دیہی آبادیاں تقریاً برابر ہوگئی ہیں۔ اس لئے وہاں ون ٹو کا سوال اٹھا تھا، ملک میں بھی چند سال بعد یہ دونوں آبادیاں برابر ہوجائیں گی، شہری آبادی میں تیز رفتاری کے مختلف اسباب ہیں مثلاً شہروں کی رنگا رنگ زندگی کے افسانے، بہتر روزگار بہتر رہائش، بجلی، گیس اور صاف پانی کی سہولت، گند آب کا بہتر نظام، ذرائع آمد رفت کی بہتری (مگر یہ سارے خواب شہروں میں آکر بکھر جاتے ہیں) بہتر اعلیٰ تعلیم کی سہولت تفریح کے بہتر ذرائع، دیہی زندگی کی یکسانیت کا ماحول، بے جا رسوم و روایات کی پابندیاں، وڈیروں، پولیس وغیرہ کے مظالم۔
حکومت کو آبادی کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ بے روک ٹوک اضافہ آبادی ایک ٹائم بم کی طرح ہے۔ 2030 میں ہماری آبادی 24کروڑ ہوجائے گی اس کا سب سے زیادہ اثر خوراک کے وسائل پر پڑے گا۔ اس وقت ہم گندم، چاول اور شکر کے معاملے میں خود کفیل ہیں لیکن کھانے کا تیل، چائے، چنا ، دالیں، دودھ وغیرہ ہمیں درآمد کرنا پڑ رہا ہے۔ کبھی حکومت کے متعلقہ محکموں نے یہ اندازہ لگایا کہ ہمیں مزید 5کروڑ آبادی کی غذا اور دوسری ضروریات کے لئے کیا منصوبہ بندی کرنا چاہئے اور ہم کب تک غذائی اشیا درآمد کرتے رہیں گے۔ نیز ان کو درآمد کرنے کے لئے زرمبادلہ کہاں سے آئے گا اور ہم ان کے بدلے میں کونسی چیزیں برآمد کرسکیں گے۔
سروے کے مطابق غذائیت کے متعلق اس کی جانب سے جو اطلاعات فراہم کی جاتی ہیں ان کے بموجب 12-13 میں 22کلو گوشت سالانہ پاکستان کے ہر شخص کے حصے میں آیا اگر تقسیم صحیح ہو تو ہر شخص کے حصے میں کم از کم 6گرام گوشت روزانہ آسکتا ہے۔ مگر سجیوں، روسٹ، تکوں اور کڑہائی گوشت کی وجہ یہ قلیل مقدار بھی غریب آدمی کے حصے سے نکل جاتی ہے۔ دودھ کو لیجئے 170کلو دودھ ہر پاکستانی کے حصے میں آتا ہے۔ مگر یہاں بھی خوشحال گھرانوں کے بچے صبح کو دودھ کا ایک گلاس پیتے ہیں۔ اکثر طلبا کو انگریزی اسکولوں میں دودھ ملتا ہے۔ پھر کافی دودھ دہی لسی وغیرہ میں کھپ جاتا ہے۔ اسکے بعد 600،700 روپے روزانہ کمانے والا کارکن اپنے بچے کے لئے 75/70روپے لیٹر کا دودھ روزانہ کہاں سے خرید سکتا ہے۔ لہٰذا اس کی بیوی اپنے بچے کو دودھ کے بجائے چائے پر پالتی ہے۔
دوسرا اہم مسئلہ شہروں میں رہائش کا ہے۔ اگر کروڑ پتی نہ ہو تو وہ کسی بھی شہر میں کوئی معقول رہائش گاہ خریدنے کا تصور ہی نہیں کرسکتا۔ رئیل اسٹیٹ کی جانب سے جو اطلاعات فراہم کی جارہی ہیں ان میں 2013کو رئیل اسٹیٹ کے لئے بہترین سال قرار دیا گیا۔ اس سال جائیداد کی خریداری میں 35-15فیصد اضافہ ہوا کرایہ کی شرحوں میں 15سے 20فیصد اضافہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں لوگوں نے کرائے کے بجائے جائیداد کی خریداری کو ترجیح دی۔ دوسری سطح کے شہر جیسے ایبٹ آباد، فیصل آباد، حیدرآباد، ملتان، مری اور کوئٹہ میں رئیل مارکیٹ میں کافی ہلچل رہی۔ سرمایہ کاروں نے ان شہروں میں جائیدادیں خریدنے کے رجحان کا اظہار کیا دربند معاشروں (gated communities) فارن ہائوسیز اور اپارٹمنٹ کی طلب میں سیکورٹی کے انتظامات کی وجہ سے اضافہ ہوا۔ ان زرعی زمینوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جن پر ’’مال‘‘ یا دوسری بڑی عمارات تعمیر کی جاسکتی ہوں۔ لاہور، ملتان، سیالکوٹ، سکھر، ٹنڈوآدم خاں کے اردگرد کی زمینوں کی قیمتوں میں 25-15فیصدی تک اضافہ ہوا اور اصل زرعی زمینوں کو تجارتی یا رہائشی استعمال کے لئے لینا۔ زراعت کو شدید نقصان پہچانے کا باعث ہوتی ہیں۔ یہ زمینیں بڑی زرخیز ہوتی ہیں اور ان پر ’’ویلیو ایڈیڈ‘‘ فصلوں کی کاشت ہوتی ہے۔ جیسے پھل اور سبزیوں، کراچی اور لاہور میں اسی رجحان کو لالو کھیت ، گولی مار، سہراب گوٹھ، لاہور میں جہاں اب گلبرگ واقع ہے دیکھا جاسکتا ہے یہ سب زمینیں شاداب تھیں)۔ کراچی حال میں ایک پلاٹ فروش کمپنی اور ایک ہائوسنگ کمپنی کا بڑا شہرہ ہے مگر ان میں کسی غریب آدمی کا ذکر نہیں۔ موجودہ سرمایہ کاری کی غریب آدمی کو آزادانہ زندگی کے گزارنے کا حق دینا ہی نہیں چاہتے۔ وہ ان کو اپنے زیر سایہ چڑھانا چاہتے ہیں۔ اور ان کو ڈرائیور، مالی، خانساماں، چوکیدار، وغیرہ تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ رجحان خود ان کے لئے اور ان کی سوسائٹی کے لئے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ان کو اس وقت کے آنے سے پہلے اس کا علاج سوچ لینا چاہئے۔
شہروں کی آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث ایک متوسط شہری کی آمدنی متوسط دیہاتی کے مقابلے میں سکڑتی ہے اس پر آئندہ اظہار خیال۔
تازہ ترین