• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ میں متعین پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی تازہ ترین کتابMAGANIFICENT DELUSIONS"ـ" (عظیم الشان مغالطے) اپنے موضوع، تفصیلات، تجزیاتی دانش اور طاقتور انداز نگارش سے آپ کو ایک طرح سے جکڑ لیتی ہے۔
کتاب میں پاک امریکہ تعلقات کے ’’زرد‘‘ ماحول کی پچاس ساٹھ برس پر مشتمل کہانی کے پیش نظر ’’غلط فہمیوں‘‘ کے بجائے ’’بدگمانیوں‘‘ کے الفاظ اس کہانی کی وزنی مقدار برداشت کرنے میں زیادہ بہتر کہےجاسکتے ہیں۔
"Magnificicent Delusions" (عظیم الشان مغالطے) حقیقتاً چھ ابواب پر مشتمل ایک تاریخی دستاویز ہے، ان ابواب کے عنوانات ہی آپ کو پاک امریکہ تعلقات کے تجریدی سایوں کی برکتوں اور نحوستوں کی تجریدی دنیائوں میں لے جاتے ہیں۔ عنوانات ملاحظہ فرمائیے:
(1) ''FALSE START'' (جھوٹی شروعات)
(2) ''AID, ARMS, AND BASES'' (امداد، اسلحہ اور اڈے)
(3) ''A SPILT AND A TILT'' (بکھرائو اور جھکائو)
(4) ''PICKING UP THE PIECES'' (ریزوں کی جمع بندی)
(5) ''A MOST SUPERB AND PATRIOTIC LIAR'' (مہاکلار اور محب وطن جھوٹے)
(6) ''DENIAL AND DOUBE GAME'' (انکار اور مکاری)
(7) ''PARALLEL UNIVERSES'' (متوازی دنیائیں)
’’عظیم الشان مغالطے‘‘ کے ان چھ موضوعات کا بالاستیاب مطالع آپ کو پاک امریکہ تعلقات کے آسیبی تعلقات کی مکمل چہرہ کشائی کر دیتا ہے آپ بالآخر خود کلامی کرتے ہیں ’’اچھا تو اصل معاملہ یوں ہے‘‘ ویسےتو کتاب کے شروع کی ضرب المثل شاید دونوں ملکوں کے شطرنجی ریکارڈ ہی کی روشنی میں منتخب کی گئی ہے۔ یہ انتساب ہے:
’’مشتبہ دوست کھلے دشمن سے بدتر ہے۔ آدمی کو ادھر یا ادھر ہونا چاہئے تب ہم کسی تعلق کی نوعیت کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔‘‘ کتاب کے ابتدائی صفحات میں مصنف حسین حقانی کا تحریر کردہ دیباچہ آپ کو نہ صرف پاک امریکہ تعلقات کے تاریخی پس منظر سے واضح انداز میں آگاہ کردیتا ہے، اس پس منظر میں ریاست پاکستان اور پاکستانی قوم کے رویوں کی حقیقی تصویر بھی سامنے آجاتی ہے۔ آپ ان کے نقطہ نظر سے اختلاف کرسکتے ہیںتاہم ان کی حب الوطنی کا ایکسرے کرنے کی زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ حب الوطن کے ایکسرے کی پاکستانی کہانی غیر انسانی ہی نہیں ذہنی جنون کے برادے سے تیار کی گئی ہے۔ ملک کے بیسیوں قابل فخر فرزندوں کو اس برادے کے ملبے تلے دبا دیاگیا جن میں ایک نام حسین حقانی بھی ہے۔ یہ کہانی ایک مائنڈ سیٹ کے دماغی اختلال کے متشدد انجماد کی کہانی ہے جس کے گلیشیر نے پاکستان کی مملکت اور ریاست کو پہلے روز سے ہی اپنے بوجھ سے آزاد نہیں ہونے دیا۔
جناب حسین حقانی کے تحریر کردہ اس دیباچے کا ایک جزوی حصہ پیش خدمت ہے۔ آپ رقم طراز ہیں۔ ’’اخبار نویس کی حیثیت سے میں نے افغان روس جنگ کی کوریج کی۔ افغان مجاہدین کو امریکی اسلحے کی بھرپور فراہمی کے سیلاب کا براہ راست مشاہدہ کیا جس پالیسی نے 1992ء تک پاکستان کو عالمی برادری کے سامنے دہشت گردی کومدد دینے والی ریاست کے طور پر لاکھڑا کیا۔ 1993ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ شمولیت کے دوران میں میں نے پاکستان کے اوپر سے یہ لیبل ہٹائے جانے کی جدوجہد کی حتی کہ پرویز مشرف آمریت نے مجھے 9/11 کے واقعہ کے چند ماہ بعد ہی وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
’’گزرے تمام برسوں میں میں نے پاکستان کے ساتھ DEALINGS میں امریکیوں کے مجموعی طرز عمل کا عمیق جائزہ لیا، بلاشبہ وہ اس معاملے میں غلطیوں کے مرتکب ہوتے رہے، بایں ہمہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ایک عالمی طاقت ہونے کے وقوعہ کو تسلیم کرتا رہوں گا۔ میں پاکستان کو ایک ایسے ملک کی حیثیت سے دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا، جسے امریکہ کےساتھ تعلقات رکھنے میں بے پناہ فائدہ پہنچا، فائدہ پہنچتا رہے گا۔
2008ء تا 2011ء امریکہ میں اپنی سفارت کاری کے دورانئے میں بھی میں نے اپنے وطن کی اسی جذبے سے خدمت کرنے کی کوشش کی۔ میں نے اس دوران میں اس نکتے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی کہ آخر دوسرے ممالک نے امریکی تعاون کے بعد اقتصادی عروج اور سماجی عالمی ترقی کا سفر طے کیا جبکہ پاکستان، امریکہ کے ساتھ گزشتہ چھ دہائیوں کے تعلقات کے باوجود اس منزل کے حصول میں کیوں ناکام رہا‘‘۔
’’پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے میری اس دیانتداری کو پاکستان کے لیے میری خدمات کا داغ بنانے کی کوشش کی، مجھ پر پاکستان میں سی آئی اے کا جاسوسی نیٹ ورک پھیلانے کے الزامات عائد کئے گئے کہ ایک مشتبہ پاکستانی نژاد امریکن بزنس مین (مقصود اعجاز) کی وساطت سے میں نے پاکستان میں ’’فوجی تبدیلی‘‘ لانے کے لیے امریکی امداد کا منصوبہ بنایا‘‘۔
جناب حسین حقانی پاک امریکہ تعلقات کے پس منظر میں اپنی بات یہاں ختم کرتے ہیں کہ ’’افسوس میرے ہم وطنوں کی جانب سے ایسی باتوںیا الزامات پر یقین کرنے کے رجحان نے مجھے عمیق ترین دلسوزی کا شکار کردیا۔ یاد رہے وہ اسی ’’میمو گیٹ سکینڈل‘‘ کا ذکر کررہے ہیں جس کے باعث انہیں بالآخر، چاہے وقتی طورسہی، جبراً ترک وطن کرنا پڑا) بہرحال پاکستانی عوامی ہی نہیں اچھے خاصے خواص، جن میں بین الاقوامی ماحولیات سے بخوبی آگاہ فعال اور موثر پاکستانی بھی شامل ہیں، ایک ایسے ’’مذہبی خواب‘‘ کو عالمی سطح پر ’’تعبیر‘‘ کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں جس کا عالمی حقائق سے کوئی واسطہ ہو ہی نہیں سکتا‘‘۔
جناب حسین حقانی کے دیباچے کے اس حصے کا میں نے ممکن حد تک لفظی ترجمہ بھی سامنے رکھا ہے البتہ وہ تین باتیں بہ تقاضائے اختصار ضرور مطلوب مفہوم کے انداز میں بیان کی گئی ہیں۔’’طالبان‘‘ کے مقابلے میں اہل پاکستان کو شہید تسلیم نہ کرنے والے سید منور حسن ’’کلمہ حق‘‘ کہنے کے منصب پر رہتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ’’امت مسلمہ کے دلوں میں بسنے والا‘‘ قرار دیں گے! کتاب پڑھیں یہ سارا قصہ آشکار ہو جائے گا۔
جناب حسین حقانی نے اپنی پہلی کتاب:
''BETWEEN MOSQUE AND MILITARY'' اور موجودہ کتاب ''MAGNIFICIENT DELUSIONS'' ’’عظیم الشان مغالطے‘‘ میں ایک مسلمان، ایک پاکستانی اور امن پر ایمان کے علمبردار کی حیثیت سے ارفع ترین سطح پر اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ ان دونوں کتابوں کا تفصیلی مطالع آپ کو میری عاجزانہ رائے کی تصدیق کرسکتا ہوں۔ حسین حقانی، جیسا کہ ایک دنیا کو معلوم ہے ان دنوں امریکہ میں زندگی بتا رہے ہیں۔ اس صبح کے منتظر جس کے سورج کی کرنوں کا نظارہ وہ اپنی دھرتی پہ کھڑے ہو کے کرسکیں گے!
پہلے روز سے عاجز ان کا غیر مشروط حامی ہے، انہیں قائداعظم کا سچا پیروکار سمجھتا ہے۔
تازہ ترین