• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہندوستان دیکھنے کی دیرینہ خواہش تھی۔ ا س لئے کہ ہم دونوں ملک اکٹھے آزاد ہوئے۔ معاشی، سماجی اور سیاسی حالات ایک جیسے ہی ہیں۔ دونوں ملکوں نے ایک ساتھ سفر کا آغاز کیا، دیکھنا چاہتا تھا وہ کہاں کھڑے ہیںاور انہوں نے اس سفر میں کون کونسے سنگ ِمیل طے کئے ہیں۔ انہیں بھی ہماری طرح امن وامان کے گھمبیر مسائل اور سکیورٹی کے بڑے چیلنج درپیش ہیں وہ ان سے کس طرح نمٹ رہے ہیں۔ اتنی بڑی آبادی کیلئے پولیسنگ کا کیا نظام اور کیا حکمتِ عملی ہے؟
چند سال پہلے ویزا کیلئے درخواست دی مگر کئی ہفتوں کی کوشش کے بعد بھی ناکامی ہوئی۔ اس بار سرکار کی وساطت سے ایک دن میں ویزہ لگ گیا۔ فارن آفس نے دلّی میں پاکستانی سفارتخانے کے حکّام کو اطلاع کردی تو وہاں سے ڈپٹی ہائی کمشنر منصور خان صاحب کا فون آگیا ۔ ان کے کہنے پر دلّی میں ہمارا قیام انہی کے گھر پر رہا۔ جب ہم (ایس ایس پی عباس احسن بھی ساتھ تھا) واہگہ بارڈر پر بابِ آزادی پارکررہے تھے تو ذہن میں ماضی کی کئی دہائیوں کی فلم چلنے لگی۔1930ءمیں علیحدہ وطن کیلئے اقبال کا تصور، قائدؒ کا عزمِ صمیم، 1940ء میں مسلمانوں کے حقوق کیلئے کیا گیا عہد، نئے وطن کے قیام کیلئے کی جانے والی تاریخ ساز جدّوجہد ۔ 14اگست 1947، پاکستان کا قیام۔۔ کٹے پھٹے ، زخم زخم قافلوںکی اپنے خوابوں کی جنّت۔ پاکستان میں آمد۔
چندقدم چلنے کے بعد معلوم ہوا کہ ہم بھارت پہنچ گئے ہیں اور اب ہم بھارت میں کھڑے ہیں۔ وہاں سے بس پر ہمیں ایک بڑی عمارت تک پہنچایا گیا۔جہاں کسٹمز اور امیگریشن کے مراحل طے ہوتے ہیں۔ تعارف ہونے پر کسٹمز آفیسر خوش اخلاقی سے پیش آیا۔ اس نے دفتر میں چائے پلائی اور ہمیں تمام مراحل سے جلد فارغ کرادیا ۔ وہیں بیٹھے تھے کہ ایک سکھ پولیس آفیسر آپہنچا۔اس نے آتے ہی ہمیں غور سے دیکھنا شروع کردیا۔ کسٹمز آفیسر بھی پریشان ہوگیا۔ سکھ پولیس افسر نے پوچھا "تاں ایہہ پروہنے پاکستان توں آئے نیں؟"کسٹمز آفیسر کچھ گھبراگیاکہ نہ جانے پولیس کیوں آگئی ہے! اس کے جواب دینے سے پہلے وہاں موجود ایک اور سردار جی نے پولیس افسر سے پوچھا۔ ـ"اج پولساں کدھر آئیاں نیں؟ خیر اے اَج کِدے تے ریٹاں مارن آئے او؟" (آج پولیس کدھر آئی ہے خیریت ہے آج کس کے خلاف ریڈ کرنے آئے ہیں؟) سکھ پولیس افسر نے جواب دیا۔ـ"کُج پروہنے پاکستان توں آئے نیں اونہاں لئی آیاں تے گڈی لے کے آیاواں"۔سردار نے ’’پروہنے‘‘ پر زور دیتے ہوئے معنی خیز سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔" سمجھ گیاں اَج پولساں بارڈر تے کیوں چَڑآیاں نیں، تاں پروہنے کیہڑے کیس وچ چاہی دے نیں؟"۔(سمجھ گیا ہوں پولیس بارڈر پر کیوں آئی ہے’’'مہمان‘‘کس کیس میں مطلوب ہیں؟") اب کسٹمز آفیسر مزید پریشان ہوگیا کہ جن مہمانوں کو ابھی چائے پلائی ہے کیا انہیں پولیس گرفتار کرنے آگئی ہے؟ وہ کبھی ہماری اور کبھی سکھ پولیس آفیسر کی طرف دیکھتا تھا۔ پھراس نے کہا’’خیریت ہے؟ پاکستان سے تو یہ آئے ہیں!۔ یہ وہاں پولیس میں آئی جی ہیں‘‘اس پر سکھ پولیس افسر سردار پریت پال سنگھ نے سیلوٹ کیا۔ ہم نے ہاتھ ملایا اور اس نے بتایا کہ امرتسر کے پولیس کمشنر صاحب نے گاڑی دے کر بھیجا ہے" سرجی میری ڈیوٹی لگی اے میں تہانوں دلّی پچاناںاے’’(سر جی میری ڈیوٹی لگی ہے میں نے آپ کو دہلی پہنچانا ہے‘‘ سب نے اطمینان کا سانس لیا۔
پاکستانی سفارتخانے نے بھی اپنا ایک افسر ہمیں وصول کرنے کیلئے بھیجاہوا تھا۔ ہم سب لوگ گاڑی میں بیٹھ کر شیرشاہ سوری کی بنائی ہوئی جی ٹی روڈ پر دلّی کی جانب رواں دواں ہوگئے۔ دوچیزوں نے فوراً اپنی جانب متوجہ کیا، ایک تو دو رویہ سڑک (ہائی وے) کی حالت توقع سے بہتر نکلی (ہمیں بہت مشورے دئیے گئے کہ سڑکیں اچھی نہیں ہیں اسلئے جہاز سے دلّی جائیں مگر ہمارا پختہ ارادہ تھا کہ اگربھارت دیکھنا ہے تو بائی روڈ جائیںگے)َ اور دوسرا دونوں جانب فصلوں کی صحت بہت اچھی تھی۔ دوسری بات کی وجہ پریت پال سنگھ نے بتائی کہ حکومت کسانوں کو تقریباً مفت بجلی فراہم کررہی ہے اور ٹریکٹر، کھاد اور بیج بھی بہت سستے داموں فراہم کئے جارہے ہیں۔
واہگہ سے بیس پچیس منٹ میں ہم امرتسر پہنچ گئے، پریت سنگھ نے پوچھا "سرجی باہروبارچلئے؟"۔ میں نے کہا امرتسر آئیں اور گولڈن ٹمپل اور جلیانوالہ باغ جیسے تاریخ کے انمٹ نقوش دیکھے بغیر چلے جائیںیہ کیسے ہوسکتا ہے؟۔ ڈرائیور نے گاڑی کا رُخ گولڈن ٹمپل کی طرف موڑدیا۔
سکھوں کا یہ مقدس ترین گردوارہ پانچویں سکھ گرو ارجن صاحب نے سولہویں صدی میں تعمیر کرایا تھا اس کی وسعت کیلئے مغل باد شاہ اکبر نے جاگیر عطاکی۔ کہا جاتا ہے کہ صوفی بزرگ حضرت میاں میرؒ اور گُرو ارجن صاحب نے مشترکہ طور پر اس کی بنیاد رکھی تھی۔اس کے چار دروازے ہیں جو دوسرے مذاہب کی جانب خیر سگالی اور کھلے پن کا مظہرہے ۔ 1764ء میں جسہّ سنگھ آہلووالیا نے اس گردوارے کی ازسرِنو تعمیر کی اور انیسویں صدی کے آغاز میں مہاراجہ رنجیت سنگھ جب پورے پنجاب کا حکمران بنا تواس نے گردوارے کے گنبدپرسونے کا لیپ چڑھا دیا۔ جس کے بعد اسے گولڈن ٹمپل کہاجانے لگا۔ اس کے تقدّس کے پیش ِنظرزائرین پر لازم ہے کہ وہ گردوارے میں ننگے پاؤں داخل ہوں اور ان کے سرڈھکے ہوئے ہوں۔ (سر ڈھانپنے کیلئے رومال فراہم کئے جاتے ہیں) گردوارے کے اندر کسی قسم کی نشہ آوار اشیا یا شراب کا استعمال مکمل طور پر ممنوع ہے۔ یہاں ہرروز ایک لاکھ زائرین کو سادہ کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ 1984ء میں خالصتان تحریک اپنے عروج پر تھی۔ دنیا بھر کے سکھ علیحدہ وطن کا مطالبہ کررہے تھے۔ اس وقت کے سب سے سرگرم مذہبی لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے گولڈن ٹمپل میں اپنا ہیڈکواٹر قائم کیا اور وہاں جدید ہتھیاروں سے مسلح ہزاروں رضاکار جمع کرلئے۔ 3ِجون 1984ء کو اندراگاندھی کی حکومت نے سکھوں کی خالصتان تحریک کو کچلنے کیلئے آپریشن بلیوسٹار کے نام سے سخت آپریشن کا حکم دیا۔ میجر جنرل کلدیپ سنگھ بلبل ٹینکوں اور توپوں کے ساتھ مقدس گردوارے پر چڑھ دوڑا۔ جوابی فائرنگ میں بیاسی فوجی ہلاک اور اڑھائی سو زخمی ہوئے ۔فوج کی فائرنگ سے ہزاروں سکھ مارے گئے، گردوارے کا کافی حصہ تباہ ہوگیا۔ سکھوں نے اپنے مقدس ترین گردوارے کی توہین کا بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔
31ِاکتوبر 1984ء کو وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دوسکھ محافظوں نے وزیر اعظم کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ اندراگاندھی کے قتل کے بعد درندگی اور بربریت کا شرمناک کھیل کھیلاگیا۔ دلّی کی سڑکوں کو ہزاروںبے گناہ سکھوں کے خون سے نہلادیا گیا۔ بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل وی پی سنگھ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’ہزاروں سکھوں کو زندہ جلادیا گیا۔ حتیٰ کہ ٹرینوں اور بسوں سے سفر کرنے والے سکھوں کو نکال کر بیدردی سے قتل کردیاگیا‘‘۔
گولڈن ٹمپل سے نکل کر ہم چند فرلانگ چلے تو تاریخی جلیانوالہ باغ پہنچ گئے۔ پہلی جنگ ِ عظیم نومبر1918ء میں ختم ہوگئی۔ برصغیر کے لوگوں کو امید تھی کہ اب ان کی آزادی کا اعلان ہوگا مگر غلامی کی زنجیریں نہ ٹوٹ سکیں۔1919ء میں روالٹ بل آگیا جس نے برصغیر کے عوام میں یہ شکوک پختہ کردئیے کہ انگریز حکومت انہیں بغیر ٹرائل کے بغاوت کے الزام میں سزا سنادے د ے گی۔اُس وقت پنجاب کا حکمران لیفٹیننٹ گورنر مائیکل ڈائر تھا جو تعلیم یافتہ مقامی افراد سے نفرت کرتا تھا۔ اس نے مقامی لوگوں کے انسانی حقوق سلب کرنے کیلئے تمام ترجابرانہ ہتھکنڈے آخری حد تک استعمال کئے ۔ 9ِاپریل 1919ء کو ستیاگڑھ مہم کے تحت امرتسر کے لوگوں نے پُر امن احتجاجی جلوس نکالا جس میں بڑی تعداد میں ہندو، مسلمان اور سکھ شامل تھے۔ انگریز سرکار نے امرتسر کے دو اہم لیڈروں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیا پال کو گرفتار کرکے شہر بدر کردیا۔ 10ِاپریل کوہزاروں لوگوں نے اپنے لیڈروں کی گرفتاری کے خلاف جلوس نکالا۔پُرامن جلوس کے شرکاء ڈپٹی کمشنر سے ملنا چاہتے تھے مگر ملاقات کی بجائے ان پر فائرنگ کردی گئی جس سے 20افراد ہلاک اورمتعدد زخمی ہوگئے۔ اس پر لوگوں نے مشتعل ہوکر کئی سرکاری عمارتیں جلادیں۔ اس ہنگامے میں تین انگریز باشندے بھی ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد مقامی لیڈروں کی مزید گرفتاریاں ہوئیں۔ 11ِاپریل کو بریگیڈیئر آر ایم ڈائر جالندھر کینٹ سے امرتسر پہنچا اور امرتسر کا مکمل کنٹرول فوج نے سنبھال لیا۔ 13ِاپریل کو بیساکھی کا دن تھا۔ دن کو لوگوں نے بیساکھی کی تقریبات منائیںاور شام کو جلیانوالہ باغ میں جلسہ عام منعقد ہوا۔ جلسے میں بیس ہزار افراد شریک تھے۔ غروبِ آفتاب سے چند منٹ پہلے ڈائر نے جلسہ گاہ کے دروازے بند کراکے نہتے افراد پر بغیر کسی وارننگ کے فائرنگ کا حکم دے دیا۔ دس منٹ تک مسلسل فائرنگ کی گئی۔ جس سے جلیانوالہ باغ انسانی خون سے سرخ ہوگیا۔سرکاری طور پر 400افرادکے ہلاک اور 1100کے زخمی ہونے کو تسلیم کیا گیا۔ مگر امرتسر کے اس وقت کے سول سرجن ڈاکٹر سمتھ کے مطابق 1520افراد ہلاک اور کئی ہزار زخمی ہوئے۔ امرتسر کے باسیوں کی اس عظیم قربانی نے آزادی کی جدوجہد کو جلابخشی۔ بے گناہ افراد کے خون نے ہندوستان کے کونے کونے میں آزادی کی شمعیں روشن کردیں۔ ظلم کرنے والوں کا انجام بھی سن لیں۔ بریگیڈیئر ڈائر تو بچ نکلا مگر حکم دینے والے لیفٹینٹ گورنر ڈوائر کا پیچھا کیا گیا۔ 13ِمارچ 1940ء کو سردار اُودھم سنگھ نے انگلستان جاکر اسے لندن کے کیکٹن ہال میں قتل کردیا۔
امرتسر سے جالندھر پہنچے تو اپنے جالندھر سویٹ ہاؤس یاد آنے لگے۔جالندھر کی مٹھائی کھاتے ہوئے اپنے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری مرحوم کا وہ واقعہ سنایا جس میں سفر کے دوران ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کو بتایا گیا کہ یہ عظیم شاعر ہیں وہ بالکل متاثر نہ ہوا۔ پھر بتایا کہ یہ قومی ترانے کے خالق ہیں وہ ٹس سے مس نہ ہوااس نے نام پوچھا تو حضرت نے بتایا حفیظ جالندھری، تو وہ یہ کہتے ہوئے ان سے لپٹ گیا کہ "اچھا تُسی وی جلندھردے او"۔ کھاناکھانے کیلئے لدھیانہ رُکے توکالج کا وہ دور یاد آگیا جب رات کے کھانے کے بعد دوستوں کے ساتھ سیر کیلئے مال روڈ پر نکلتے تھے تو سیرت اصغر (جنہیں اﷲنے بلا کا حافظہ عطا کیا ہے جو آج کل ایک اہم محکمے کے سیکرٹری ہیں اور اپنی قابلیت، ذہانت اورحب الوطنی کے باعث ایک قابلِ فخرسول سرونٹ مانے جاتے ہیں) ساحر لدھیانوی کا سارا کلام سنا دیا کرتے تھے۔ پانی پت پہنچتے پہنچتے رات ہوچکی تھی۔ پانی پت کی پہلی لڑائی بابر اور ابراہیم لودھی کے درمیان 1526ء میں ہوئی، بابر فتحیاب ہوا۔ دوسری جنگ مغل بادشاہ اکبر اور ہندوراجے ھیموکے درمیان ہوئی، اکبر کو فتح نصیب ہوئی۔ تیسری جنگ احمد شاہ درانی اور مرہٹوں کے درمیان 1761ء میں ہوئی،جس میں احمد شاہ درانی فتحیاب ہوا۔ سفارتخانے کے نمائندے شبیر صاحب، بابر اورابراہیم لودھی کی فوجوں کی خیالی نشاندہی کرنے کی کوشش کرنے لگے ۔ ہم نے روکنے کی کوشش کی مگر وہ فوجیوں اور ہاتھیوں کی اصل پوزیشنیں بتانے پر مُصر رہے۔ اس پر ڈرائیورنے کہا "چاچا توںجنگ دے میدان وِچ چلّے گولے کَٹھّی کرداریاایں یا فیر ہاتھیاں نوںکھرکھنا پھیردارہیاں ایں؟"(چاچا! آپ اُس وقت میدانِ جنگ میں چلے ہوئے گولے اکھٹے کرتے تھے یا ہاتھیوں کو مساج کیا کرتے تھے؟)۔اس پر چچا نے خاموشی اختیارکرکے پانی پت میں صلح کا اعلان کردیا۔
راستے میں مختلف جگہوں پر عام لوگوں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ پہلے سفر میں ہی چند حقائق واضح ہوگئے کہ انڈیا نے پچھلی ایک دہائی میں خاصی ترقی کی ہے مگر غربت ہر طرف جھلکتی ہے اور گندگی بہت نمایاں ہے۔ اپریل/مئی کے الیکشن میں کانگریس فارغ ہوجائے گی۔ اندراکے پوتے راہول کو عوام نے قبول نہیں کیا۔ امکان ہے کہ عام آدمی پارٹی (آپ) پچاس سے ساٹھ نشستیں لے جائے گی جس سے نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے امکانات معدوم ہوجائیں گے۔ ملک میں اٹھارہ سے بیس کروڑ مسلمان بستے ہیں مگر راستے میں کسی سٹوریا دکان پر کسی مسلمان کا نام نظرنہ آیا۔
ڈرائیورنے مسلسل نور جہاں کے گانوں کی کیسٹ لگائے رکھی ۔ رات کے سائے بڑھتے گئے دلّی کا جب بھی پوچھا ۔جواب وہی ملا۔" ھنوز دلّی دُور است" ۔ رات گیارہ بجے ہم دلّی کی حدود میں داخل ہوگئے۔ ساڑھے بارہ بجے اپنی رہائش گاہ پر منصور صاحب نے جس گرمجوشی سے استقبال کیا، اس نے سفر کی ساری تھکاوٹ دور کردی۔ (جاری ہے)
تازہ ترین