• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے تحریک انصاف کے عمران خان کا کردار بہت شرمناک رہا۔ یہ وہی لفظ شرمناک ہے جسے عمران خان نے عدلیہ کیلئے استعمال کیا تھا اور بازپرس پر کہا تھا کہ شرمناک کسی طور غیر پارلیمانی لفظ نہیں ہے۔ ہم نے بھی عمران خان کے معنوں میں اسے استعمال کیا ہے۔ میاں نواز شریف نے بھی کہا ہے کہ عمران کا پیچھے ہٹنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک شخص کی سزا پر عملدرآمد کرنے کے لئے جب اس کا سر قلم کیا جانے لگا تو ملزم نے امیر سے کہا کہ اس نے ایک شخص کی امانت لوٹانی ہے، تب تک اگر مہلت ہو تو میں وہ امانت دے کر آ جائوں۔ امیر بولے! ضمانتی لائو۔ ملزم نے موت کا منظر دیکھنے کیلئے جمع ہونے والے لوگوں پر نگاہ دوڑائی اور ہجوم میں موجود ایک شخص کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ میرا ضامن ہے۔ اس شخص سے پوچھا گیا تو اس نے بھی ملزم کی بات کی تائید کر دی۔ اس طرح ملزم کو چند گھنٹوں کی مہلت دی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ وقت مقررہ سے تھوڑی دیر پہلے تک جب ملزم لوٹ کر نہ آیا تو ضامن کو اس کی جگہ لا کر کھڑا کر دیا گیا۔ ابھی جلّاد اپنی تیاریوں کو آخری شکل دے رہا تھا کہ دور، بہت دور ایک نقطہ سا دکھائی دیا۔ پھر جوں جوں وہ قریب آتا گیا مطلع واضح ہوتا گیا۔ حتّیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ صاف دکھائی دیا کہ یہ وہی ملزم ہے جو کسی کی امانت لوٹانے گیا تھا۔ واپسی پر اس سے پوچھا گیا کہ جب تمہیں پتا تھا موت تمہارا انتظار کررہی ہے پھر بھی تم پلٹ آئے تو ملزم نے کہا تھا کہ اس نے وعدہ پورا کیا ہے۔ موت کا تو ایک دن معین ہے لیکن وعدے کی بازپرس ہو گی۔ پھر اس کے بعد ضامن سے پوچھا گیا کہ کیا تم ملزم کو جانتے تھے؟ اس نے کہا کہ نہیں، لیکن جب تمہیں پتا تھا کہ اس کے لوٹ کر نہ آنے کی صورت میں تمہیں موت کے گھاٹ اتارا جائے گا پھر بھی تم نے حامی بھر لی؟ تو ضامن نے کہا کہ بھری محفل میں اس نے میرا انتخاب کیا تھا اس لئے میں نے اس کا بھرم ٹوٹنے نہیں دیا، اس کا مان رکھ لیا تھا۔طالبان نے اگر مذاکرات کے لئے عمران خان کا نام لے ہی لیا تھا تو خان صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ طالبان کا بھرم نہ ٹوٹنے دیتے، ان کا مان رکھ لیتے۔ مذاکرات کے حوالے سے ہی جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام لیا گیا کہ ہو سکتا ہے طالبان کی طرف سے ڈاکٹر خان صاحب کو بھی شامل کیا جائے تو اس پر محسن پاکستان نے کہا کہ اگر حکومت اور طالبان کے معاملات احسن طریقے سے حل کرنے کیلئے ان کی ضرورت محسوس کی گئی تو وہ حاضر ہیں۔ ڈاکٹر خان اور عمران خان کے کردار کا یہیں سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون کتنا بڑا ہے؟
سچّی بات ہے کہ ہمیں ذاتی طور پر مذاکرات کی کامیابی کی ضرورت ہے۔ طالبان کی طرف اگر اسلام دوست قوتیں ہیں تو ادھر دوسری طرف قلم کے مجاہد ہیں جو ہمیں بہت عزیز ہیں۔ ہمیں دونوں دھڑے عزیز ہیں، ہم کسی کی بھی ناکامی کے حق میں نہیں ہیں اور نہ ہی مذاکرات کی میز پر آنا کسی کو نیچا دکھانا سمجھتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مذاکرات ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ فی الحال مذاکرات ہوئے ہی نہیں تو دکھائی کیسے دیں اور پھر یہ کہ جس طرف سے جو کوئی سامنے آیا اس سے بات چیت شروع کر دینی چاہئے۔ کس طرف کون کون ہے، کون انکار کر گیا، کس کا کتنا وزن ہے، کون اختیار رکھتا ہے، کس کے ساتھ کون ہے؟ اس قسم کے سوالات کا وقت نہیں ہے۔ بنی اسرائیلیوں کی طرح بچھڑے کی ساخت پر وقت ضائع نہ کیا جائے۔ مذاکرات شروع کیے جائیں۔ جب دونوں طرف کے لوگ آمنے سامنے آئیں گے تو پتا چلے گا کہ یہ دو دھڑے نہیں ایک ہی ہے جو ایک پرچم تلے مدتوں ایک ساتھ کئی غزوات میں برسرپیکار ہے اور اب چند نام نہاد اور مسلم کش عناصر نے درمیان میں نفرت کی دیوار کھڑی کردی ہے۔ اس قسم کی اسلام دشمن قوتوں کو علاقے سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ ایسا تب ہی ہو گا جب ہم ایک میز پر مل بیٹھیں گے۔ مذاکرات کیے بغیر پہلا رائونڈ ختم اور اگر دوسرا اور تیسرا رائونڈ بھی اسی طرح بیٹھے بغیر ختم ہو گیا تو پھر کھیل ہی ختم ہوجائے گا۔ بعض قوتیں یہی چاہتی ہیں کہ یہ بیل منڈے نہ چڑھے۔ پشاور میں خودکش حملہ اور کراچی میں لانڈھی اسٹیشن کے قریب ریلوے ٹریک پر دھماکہ، مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے حربے ہیں۔ ان عناصر پر کڑی نگاہ رکھنا ریاست کے ساتھ ساتھ طالبان اور ہر محب وطن کو چوکنّا ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ حبیب جالب کے بہ قول:
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو
تازہ ترین