• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان طویل سرد مہری کے بعد دونوںطرف سے سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کے لئے عملی پیش رفت ہورہی ہے۔حکومت اور طالبان کی طرف سے مذاکراتی کمیٹیوں کے نام سامنے آچکے ہیں۔اگرچہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جمعیت علمائے اسلام(ف)کے مفتی کفایت اللہ نے کمیٹی میں اپنے نام کے حوالے سے معذرت کرلی ہے۔تحریک انصاف کا موقف ہے کہ ان کی طرف سے رستم شاہ مہمند کا نام پہلے سے موجود ہے۔پی ٹی آئی نے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کے حوالے سے حمایت وتعاون جاری رکھنے کا اظہار کیا ہے۔ مولاناسمیع الحق،پروفیسر ابراہیم اور مولاناعبدالعزیزنے حکومتی کمیٹی کے ساتھ رابطوں کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے۔ عمران خان اور مفتی کفایت اللہ کے ناموں کے بعد طالبان کی طرف سے مذاکراتی کمیٹی کے لئے انصار عباسی اوریا مقبول جان کے نام منظر عام پر آچکے ہیںمگر انصار عباسی اور اوریامقبول جان کی طرف سے بھی معذرت کی گئی ہے۔اس سارے منظرنامے میں یہ بات خوش آئند ہے کہ دوطرفہ مذاکرات میں خلوص دل اور نیک نیتی نظر آرہی ہے۔یہی وہ طرز عمل ہے جو انشاء اللہ ان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے میں معاون ومددگار ثابت ہوگا۔طالبان اور حکومت مذاکرات سے’’آپریشن فوبیا‘‘عناصرکو شدیدجھٹکا لگاہے۔قومی توقعات اور آرزوئوں کے برعکس ہمارے چند دانشوروں کی تان صرف اور صرف شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن پر ٹوٹتی ہے۔ ان ’’دانشوروں‘‘کی ساری امیدوںپر پانی پھرگیاہے۔وہ تو چاہتے تھے کہ حکومت،سوات اور بلوچستان کے بعد قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کرکے ایک نیامحاذ کھول لے جس کافائدہ امریکہ اور بھارت اٹھائیں اورپاکستان امریکی غلامی سے کبھی نہ نکل سکے۔حکومت اور طالبان میں حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی کا پایاجاناخوش آئند ہے۔توقع کی جارہی ہے کہ حکومت ماضی کی طرح غلطیوں کا اعادہ نہیں کرے گی اور مذاکرات کو’’جنگی حکمت عملی‘‘کے طور پر استعمال نہیں کرے گی۔اسی طرح طالبان سے یہ امید بھی حق بجانب ہے کہ وہ حکومتی اقدامات کاخوش دلی اورسنجیدگی سے جواب دیں گے۔1973ء کا آئین متفقہ ہے۔پاکستان کی تمام دینی وسیاسی قوتوں کے اتفاق رائے سے1973ء کاآئین منظور ہواتھا۔طالبان کو پاکستان کے آئین کے دائرہ کار کے تحت اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے آگے بڑھناہوگا۔ملک میں نفاذ شریعت کا ان کا مطالبہ بھی غیر آئینی نہیں ہے۔آئین کے عین مطابق ہے۔قرار دادمقاصد کے دیباچے میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی گئی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شریعت بندوق کے ذریعے نافذ کی جاسکتی ہے؟طالبان کا مسئلہ ذہنی اپروچ کا معاملہ ہے۔امید کی جاتی ہے کہ دونوں فریق حالات و واقعات کے پیش نظر مثبت انداز فکر اپنائیں گے اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے معاملات کو حل کریں گے۔طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی سبیل نکلنے کی صورت میں ملک میںجاری بدامنی میں نمایاں کمی آئی ہے اور عوام نے بھی سکھ کاسانس لیا ہے۔ مستقبل قریب میںیہ معاملہ اور زیادہ کنٹرول میں آجائے گا۔دہشت گردی کے اِکّادُکّاواقعات جوپشاور اور کراچی میں پیش آئے ہیں ان کا تعلق بیرونی خفیہ ایجنسیوں، امریکی بلیک واٹر،راء اور ریمنڈڈیوس نیٹ ورک سے ہے۔ طالبان کے اظہار تعلقی کے بعدیہ ثابت ہوگیا ہے کہ ان واقعات کا تعلق بیرونی خفیہ ایجنسیوں سے ہے۔اب حکومت کواس بیرونی خفیہ نیٹ ورک کوتوڑنا ہوگا۔طالبان کی طرف سے بھی مذاکراتی کمیٹی کو نامزد کر نااچھا شگون ہے۔ طالبان گروپوں میں مشاورت مکمل ہونے کے بعد حکومت کو مقدمات ختم کرنے،قیدیوں کی رہائی اور حملوں کے متاثرین کو معاوضہ دینے سمیت 22مطالبات میڈیا کے ذریعے پیش کیے گئے ہیں۔ملک کے جیّد اور اکابر علمائے کرام نے بھی حکومت اور طالبان مذاکرات پر نیک خواہشات کا اظہارکیا ہے۔مفتی رفیع عثمانی کی قیادت میں 15ممتازعلمائے کرام نے دونوں فریقوں پر’’جنگ بندی‘‘ کیلئے زور دیا ہے۔پاکستان میں بندوق کے ذریعے شریعت کے نفاذکامطالبہ کسی بھی طور درست نہیں ہے۔ آئینی اور جمہوری طریقے سے آنے والی تبدیلی یاانقلاب ہمیشہ پائیدار ہوتے ہیں۔مذاکرات کی کامیابی کیلئے سازگار ماحول صرف اسی صورت فراہم ہوسکتا ہے کہ جب دوطرفہ سیز فائر ہو۔محض حکومت کی جانب سے طالبان کو یکطرفہ جنگ بندی کا مطالبہ درست نہیں۔دونوں اطراف سے سیز فائرضروری ہے۔طالبان نے بھی بڑے ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتی کمیٹی پر اپنے تحفظات کے باوجود اعتراض نہیں کیا۔حکومت اور طالبان میں اعتماد کی بحالی کی فضاء سے ہی معاملات بہتر طور پر حل ہوسکتے ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات’’امریکی جنگ‘‘سے علیحدگی کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتے۔اس’’کڑوے سچ‘‘کوہمیں اب تسلیم کرنا ہوگا۔نائن الیون کے بعد مسلسل قبائلی علاقوں میں ’’حالت جنگ‘‘میں رہ کرحکومت پاکستان کو اندازہ ہوگیا ہے کہ’’ڈائیلاگ‘‘ہی تمام مسائل کا حل ہے۔گزشتہ بارہ سالوں میںامریکہ کافرنٹ لائن اتحادی بن کر ہم قبائلی علاقوں میں’’ایکشن‘‘کی حالت میں ہی تھے۔ اب ہم نے قومی مفاد میںبالآخر صحیح راستہ اپنا لیاہے۔
’’سب سے پہلے پاکستان‘‘کادلفریب نعرہ لگانے والوں نے ملک کا ’’حشرنشر‘‘کردیا ہے۔سابق آمرپرویز مشرف اب’’سب سے پہلے اپنی جان ‘‘بچانے کے نعرے پر اکتفا کررہے ہیں۔یہ قدرت کا انتقام ہے کہ وہ آج مکافات عمل کا شکار ہیں۔موجودہ حکمرانوں کو اس سے سبق سیکھنا چاہئے۔قبائلی علاقوں میں امن سے کراچی اور بلوچستان کی صورتحال بہتر ہونے کے قوی امکانات ہیں۔کراچی ہماری اقتصادی شہ رگ ہے۔کراچی میں حالات کی دن بدن خرابی تشویش ناک صورت اختیار کرچکی ہے۔کراچی میں امن وامان کی خرابی کی اصل ذمہ دار ایم کیو ایم،پیپلز پارٹی اور اے این پی کی موجودہ اور سابقہ حکومتیںہیںجنھوں نے روشنیوں کے اس شہر کا امن تہہ وبالا کیا۔ اب اس حقیقت کو مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی 12سال کی طویل مہم جوئی کے بعد ’’افغانستان‘‘سے محفوظ انخلاء کیلئے ہاتھ پائوں ماررہے ہیں۔ یہ نوازشریف حکومت کی ’’سیاسی مہارت‘‘ اور ’’قابلیت‘‘ کا امتحان ہوگا کہ وہ ایسے فیصلہ کن مرحلے پرقبائلی علاقوں ،بلوچستان اور کراچی میں دہشتگردی کے عفریت سے کس طرح نجات حاصل کرتی ہے؟گزشتہ بارہ سالوں میں خاصا جانی و مالی نقصان کے علاوہ پاکستان کو سب سے زیادہ جوافسوسناک’’جھٹکا‘‘لگاہے وہ’’تحریک آزادیٔ کشمیر‘‘کا کمزور ہونا ہے۔یہ بارہ سال مقبوضہ جموںو کشمیر کے عوام پر بڑے بھاری گزرے ہیں۔حقیقی معنوں میں بھارت کو اس کا بہت بڑا فائدہ پہنچا ہے۔آج پاکستان کو’’کشمیریوں‘‘کے شانہ بشانہ دوبارہ کھڑا ہوناہوگا۔پاکستان کشمیر کے بغیر نامکمل ہے۔ہمیں تحریک آزادیٔ کشمیر کی اخلاقی،سیاسی اور سفارتی سطح پر سپورٹ کوجاری رکھنا ہوگا۔پورا پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں سے مکمل اظہاریکجہتی کرتا ہے۔ہم کیسے دکھ،مصیبت اور آزمائش کی اس گھڑی میں مظلوم کشمیری عوام کو تنہا چھوڑ سکتے ہیں؟وہ آج بھی اہل پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔پاکستان کے عوام نے اہل کشمیر کیلئے ہمیشہ اپنے دیدۂ ودل فرش راہ کیے ہیں۔پاکستان میں جمہوری نظام مضبوط ہورہا ہے۔فوج اور عدلیہ میںنئی قیادت آچکی ہے۔اداروں کی مضبوطی سے ملک بہتری کی جانب مائل بہ سفرہے۔اب ہمیں اپنے بنیادی مسائل پر توجہ دینی ہوگی۔جمہوری رویوں کے استحکام سے ملک ترقی کرتے ہیں۔بھارتی آبی جارحیت کا نوٹس لینابھی اب وقت کا اہم تقاضا ہے۔ پاکستان بدترین توانائی کے بحران کاشکارہے۔لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔کاروبار زندگی مکمل طور پر مفلوج ہوچکا ہے۔بجلی و گیس نہ ملنے سے انڈسٹری بھی تباہ حالی کی تصویر پیش کررہی ہے۔بھارت چھوٹے بڑے 62ڈیم بناچکا ہے۔ہم اس معاملے پر’’تہی دامن‘‘ثابت ہوئے ہیں۔گزشتہ تین دہائیوںمیں اس جانب ہمارے حکمرانوں نے خالصتاً سنجیدگی کے ساتھ کوئی کردار ادانہیں کیا۔وولربیراج کے معاملے پر بھی ہمارا رویہ بھارت کے ساتھ’’معذرت خواہانہ‘‘احتجاج پر مبنی رہا۔1990ء میں بھارت کی وولر بیراج بنانے کی کوشش کومقبوضہ جموں وکشمیر کے مجاہدین نے ناکام بنادیاتھا۔بھارت نے ہمارے دریائوں پر بھی ڈیم بناکر مستقبل میں پاکستان کو ’’بنجر‘‘بنانے کی سازش پرعملدرآمدشروع کردیا ہے۔اب ہم کس بات کا انتظار کررہے ہیں؟۔پانی ہماری’’لائف لائن‘‘ہے’انرجی بحران‘‘کو اگر ہم نے ختم کرنا ہے تو اس کیلئے چھوٹے بڑے کئی ڈیم بنانے پڑیں گے۔یہ صرف اسی صورت ممکن ہوسکتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے اہداف پر نظر رکھے اور اس کی جانب عملی طور پر پیش رفت کرے۔پاکستان کا مستقبل کشمیر سے وابستہ ہے اور’’مستقبل‘‘سے نظریںچرائی نہیں جاسکتیں۔ روشن اورتابناک مستقبل کیلئے ضروری ہے کہ دور حاضر کے چیلنجوں کی حقیقت کو سمجھاجائے اور ان سے عہدہ براہونے کیلئے پر عزم جذبوں کے ساتھ کامیابی کی منازل کی طرف بڑھاجائے۔
تازہ ترین