• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب کوئی شخص کسی ایک انسان کا قتل کرتا ہے تو اسے ریاست کے قانون کے مطابق سزا ملتی ہے اور کہیں کہیں یہ سزا پھانسی کی صورت میں بھی ہوتی ہے تاکہ ریاست کی عمل داری قائم رہے ۔ جب کوئی شخص 10 لوگوں کو قتل کرتا ہے تو اسے ذہنی مریض قرار دے دیا جاتا ہے لیکن جب کوئی شخص سیکڑوں یا ہزاروں انسانوں کا قتل کرتا ہے تو ریاست اس کے ساتھ مذاکرات کرتی ہے ۔ اس پر بہت افسوس ہوتا ہے ۔ یہ الفاظ خانہ جنگی سے تباہ حال افریقی ملک ’’ روانڈا ‘‘ کے مظلوم ’’ تتسی ‘‘ قبیلے کے ایک شخص نے کوئی دو عشرے قبل اس وقت ادا کئے تھے ، جب اسے یہ بتایا گیا کہ روانڈا کی حکومت ’’ ہوتو ‘‘ شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کررہی ہے ۔ واضح رہے کہ ہوتو شدت پسندوں نے تتسی قبیلے کے لوگوں کی نسل کشی کے لیے ہزاروں افراد کو قتل کردیا تھا ۔ مذکورہ شخص کے یہ الفاظ ایک امریکی میگزین نے اپنے سرورق پر شائع کئے تھے ۔ اس شخص کے خاندان کے کئی لوگ خانہ جنگی میں مارے گئے تھے ۔ یہ الفاظ ایک آفاقی سچ بن گئے ہیں ۔ پاکستان میں حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے تناظر میں ان الفاظ کی گونج آج ہر طرف فضا میں سنائی دے رہی ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور طالبان کے مذاکرات کامیاب ہوں گے یا نہیں ؟ اس وقت پاکستان کا ہر شخص یہی سوال کررہا ہے ۔ میں نے بھی یہ سوال پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر سے کیا تو انہوں نے اس کا ایک مختصر سا جواب دیا اور کہا کہ ’’ یہ ان کے گھر کی بات ہے ۔ ‘‘ میں نے پھر ان سے دوسرا سوال نہیں کیا حالانکہ حکومت اور طالبان نے مذاکرات کے لیے جو کمیٹیاں قائم کی ہیں ، ان کمیٹیوں کے ارکان کے ناموں کے حوالے سے بے شمار سوالات ذہن میں تھے ۔ویسے بھی مذاکرات میں طالبان زیادہ سے زیادہ حکومت سے یہی مطالبہ کر سکتے ہیں کہ شریعت نافذ کی جائے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت سے اصولاً انہیں یہ مطالبہ کرنا ہی نہیں چاہئے کیونکہ جب اس ملک میں طالبان کا اس طرح وجود ہی نہیں تھا ، میاں محمد نواز شریف نے 28 اگست 1998ء کو آئین میں 15 ویں ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا ۔ یہ بل ملک میں شریعت کے نفاذ کے لیے ہی تھا ۔ طالبان پاکستان کو جس طرح کی تھیوکریٹک ( مذہبی ) ریاست بنانا چاہتے ہیں ، اس کے لیے میاں محمد نواز شریف 15ویں آئینی ترمیم کی صورت میں پہلے ہی کوشش کر چکے ہیں ۔ ان کی اس کوشش کے خلاف مزاحمت خود ان کی پارٹی کے اندر سے بھی ہوئی تھی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض حلقے یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ میاں محمد نواز شریف 15 ویں آئینی ترمیم کی آڑ میں مبینہ طور پر ’’ امیر المومنین ‘‘ بننا اور پاکستان کی وفاقی حیثیت ختم کرنا چاہتے تھے ۔ 15 ویں آئینی ترمیم کے بل کا جو مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا ، اس کے اغراض و مقاصد میں یہ کہا گیا تھا کہ ’’ اس حقیقت کے پیش نظر کے قرار داد مقاصد اب آئین کا مستقل حصہ بن گئی ہے ، یہ ضروری ہو گیا ہے کہ قرآن و سنت کو پاکستان کا سپریم لاء قرار دیا جائے اور حکومت کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ شریعت کے نفاذ کے لیے ضروری اقدامات کرے ۔ ‘‘ اس بل کے ذریعے آئین میں ایک نئے آرٹیکل 2۔ بی کا اضافہ تجویز کیا گیا جس کا عنوان قرآن و سنت کی بالادستی تھا ۔ اس آرٹیکل میں جو کچھ دیا گیا تھا ، اس سے زیادہ طالبان مطالبہ نہیں کر سکتے ۔ اس بل میں آرٹیکل 239 میں نئی شق 3۔ اے کا اضافہ بھی کرنے کی بھی تجویز دی گئی ، جس میں حکومت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ شریعت اور اسلام کے نفاذ میں در پیش رکاوٹوں کو دور کرے ۔ 15ویں آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے منظور ہوگیا تھا لیکن سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں تھی ، جس کی وجہ سے یہ بل سینیٹ سے منظور نہیں ہوسکا تھا۔ 15ویں آئینی ترمیم کے لیے بعض مذہبی جماعتوں نے مہم بھی چلائی تھی اور ایک مولوی صاحب نے لاہور میں پریس کانفرنس کرکے یہ کہا تھا کہ جو 15 ویں آئینی ترمیم کی حمایت نہیں کرتا ، وہ نہ صرف کافر ہے بلکہ واجب القتل ہے ۔ اس پریس کانفرنس کے بعد سینیٹرز نے گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا تھا ۔ یہی باتیں اب طالبان کر رہے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیوں اعتراض کرے گی لیکن لگتا ہے کہ ایک بات پر ضرور جھگڑا ہو گا کہ امیر المومنین کون ہو ۔ پاکستان کو اسی طرح کی ایک تھیو کریٹک اسٹیٹ بنانے کی اسکیم بہت پرانی ہے ، جس کا خاکہ 15 ویں آئینی ترمیم میں دیا گیا تھا تاکہ پاکستان کی ایک وفاقی ریاست کی حیثیت سے ہیئت کو تبدیل کر دیا جائے اور یہاں بسنے والی قوموں کے حقیقی سیاسی کردار کو مسخ کردیا جائے ۔ اس اسکیم کو نافذ کرنے کی کوشش میں پاکستان کو ایک مخصوص لسانی فرقہ وارانہ ( Ethno-sectarian ) ریاست بنانے کے لیے شاید ایسے حالات پیدا کئے گئے ہیں کہ اس اسکیم کے حامی لوگوں کے آپس میں مذاکرات کرائے جائیں ۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور حکومت میں بھی جنرل ضیاء الحق کے کہنے پر پارلیمنٹ میں ایک شریعت بل نافذ کیا گیا تھا ، جو جونیجو حکومت اور غیر جماعتی پارلیمنٹ کے خاتمے کی وجہ سے منظور نہیں ہو سکا تھا ۔ اس پر مولانا سمیع الحق نے کہا تھا کہ حکومت تو چلی گئی ، اس شریعت بل کا کیا ہو گا ۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ضیاء الحق کے دور میں بھی آئین میں ہر طرح کی ترامیم ہوئیں لیکن شریعت بل منظور نہ ہوسکا۔ اب یہ بات کچھ دنوں میں واضح ہو گی کہ 15 ویں آئینی ترمیم صرف طالبان کے زیر اثر علاقوں میں نافذ ہو گی یا پورے ملک میں ؟ یہ بھی آئندہ چند دنوں میں واضح ہو جائے گا کہ امیر المومنین بننے کی دوڑ میں کون کون شامل ہیں ۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ 15 ویں آئینی ترمیم میں دیئے گئے خاکے کے مطابق پاکستانی ریاست کی ہیئت تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ ایک 15 ویں ترمیم 1868ء میں امریکا کے آئین میں بھی ہوئی تھی ۔ اتفاق سے اس کے تحت بھی امریکا کو ایک نئی ریاست اور امریکیوں کو ایک نئی قوم بنایا گیا تھا ۔ اس ترمیم کے ذریعہ سیاہ فام اور دیگر قدیم امریکی باشندوں کو ووٹ کا حق دیا گیا تھا لیکن پاکستان میں 15 ویں ترمیم کے جس خاکے پر عمل ہو رہا ہے ، اس کی بنیاد پاکستان کی وفاقی اکائیوں اور قوموں کے سیاسی کردار سے انکار پر ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس اسکیم کے متاثرہ لوگوں اور حقیقی اسٹیک ہولڈرز کی مذاکراتی کمیٹیوں میں کوئی نمائندگی نہیں ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو ایک تھیو کریٹک اسٹیٹ بنانے کی اسکیم بہت پرانی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امیرالمومنین بننے پر جھگڑا بھی تاریخ میں بہت پرانا ہے ۔اس جھگڑے پر پاکستان میں پہلے بھی فوجی مداخلت ہوئی تھی اور آج بھی امریکا کے سیاسی تجزیہ کار جے الفیلڈر ( Jay Ulfelder ) یہ پیش گوئی کررہے ہیں کہ 2014ء میں پاکستان سمیت دنیا کے 40 ملکوں میں فوجی بغاوت کا خطرہ ہے۔
تازہ ترین