• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام میں پارلیمانی نظامِ جمہوریت کا کوئی نظریہ نہیں ہے ۔ یہ نظام ہمیں برطانویوں سے وراثت میں ملا ہے۔ لیکن پاکستان میں اس کے اطلاق میں شدید کوتاہیاں سامنے آئی ہیں۔اسلامی نظریئے کے تحت ’شوریٰ ‘ ہے جو کہ صرف ’فہم ‘ کے ذریعے باہمی مشورے سے کی جا سکتی ہے۔بے شک سورہِٗ انعام کی آیت 16 1میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیاہے کہ’ اکثریت ہی کی خواہش نہ سنو ورنہ بھٹک جائوگے‘۔ پاکستان میں جس قسم کا جاگیردارانہ حکمرانی نظام ہے اسلام میں اس طرح کی حکمرانی کا کوئی تصوّر ہی نہیں ہے جس میں غریبوں کو جاگیردار زمینداروں کا غلام بنایا ہوا ہے۔
کچھ لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس ملک میں جمہوریت کو آمریت کی مداخلت کی وجہ سے پنپنے اور بڑھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ دراصل پاکستان میں اصل جمہوریت کبھی آئی ہی نہیں بلکہ ایک ان پڑھ اور جاہل قوم پر بڑے بڑے بدمعاشوں کا قبضہ رہا اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رہا جس کی مثال پچھلی حکومت کا پانچ سالہ دور ہے اس دور میں جو کچھ ہماری قوم کے ساتھ ہوا وہ ایک عبرت کا مقام ہے ۔ بیشتر موقعوں پر فوج نے ملک میں اس وقت مداخلت کی جب بے تحاشہ بدعنوانیوں نے ملک کو دیوالیہ کرکے تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ۔ کچھ لوگ ملک میں کسی رکاوٹ کے بغیر پانچ سالہ جمہوریت کے مکمل ہونے پرجھوٹی خوشی مناسکتے ہیں یہ دور پاکستان کی تاریخ کا بدترین دور تھا جب ــ’ جمہوری منتخب حکومت ‘ کی پانچ سال کے عرصے میں شدید بدعنوانی اور لوٹ مار نے فوج کے علاوہ تمام شعبوں کو تباہ کر دیا۔اس تباہی کے ذمہ داران کو اس وقت جیل میں ہونا چاہیے تھالیکن موجودہ حکومت نے ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے ۔ علاّمہ طاہر القادری بالکل صحیح تھے جو انہوں نے انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات کی ضرور ت پر اصرار کیا تھا۔ جس کی شروعات خود الیکشن کمیشن پاکستان کی اصلاحات ہونی چاہیے تھی ۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے مطابق 8,500 ارب روپے کی بدعنوانی2008 ؁ء سے 2011؁ء میں ہوئی اور پانچ سال (2008-2012) کی بدعنوانی کا تخمینہ تقریباً 11,000 ارب روپے (تقریباً 110 ارب ڈالر) لگایاگیاہے جو کہ اس رقم سے60 گنا زیادہ ہے جو ہم امریکہ سے سول اور فوجی امداد کے سلسلے میں حاصل کرتے ہیں۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ اس بدعنوانی کے خلاف مداخلت نہیں کی گئی اور ـ ملک کو تباہی کی گہرائی میں ڈوبنے دیا تاکہ یہ جمہوریت اپنی میعاد پوری کر سکے۔
یہ بات کئی مرتبہ واضح کی جاچکی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی موجودہ شکل ( "feudocracy ’جاگیرداریت ‘ کیونکہ جاگیردار زمینداروں کے چنگل میں ہے) قطعی فعال کردار ادا نہیں کرسکتی جب تک کہ یہاں طاقتور اور بدعنوان جاگیردار پارلیمنٹ کا حصّّہ ہیں اور پھر کابینہ کا حصّہ بنتے رہیں گے۔ہماری گزشتہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے تقریباً200 معزز پارلیمانی اراکین‘ جعلی ڈگریوں کے حامل تھے۔ ہم دنیا کے وہ واحد ملک ہیں (گنیزبُک برائے عالمی ریکارڈ میں جگہ کے مستحق ہیں)جہاں کے وفاقی وزیر برائے تعلیم ـ’وقاص اکرم‘کو اپنی کالج اور جامعہ کی جعلی ڈگریوں کے ذریعے ذریعے انتخابات جیتانہیں اس وقت جیل میں ہونا چاہئے تھا لیکن خود کو بچانے کیلئے انہوں نے بڑی ہوشیاری سے اپنی وفاداریاں تبدیل کرلیں اور حکومتی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (نواز شریف گروپ ) کا حصّہ بن گئے۔
کسی بھی ملک کا پارلیمانی نطام ِ جمہوریت کامیاب نہیں ہوسکتا جہاں کی سطح خواندگی نہایت کم اور ملکی سیاست جاگیردارانہ نظام کے مضبوط شکنجے میں ہو۔ ہمیں ضرورت ہے کہ ایک نیا صدارتی نظامِ جمہوریت قائم کیا جائے جیسا کہ امریکہ، فرانس اور دیگر ممالک میں ہے۔ جہاں منتخب صدر اپنی کابینہ کے وزراء کے لئے اعلیٰ و معیاری پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے مالک افراد کی ایک الگ ٹیم چن سکتا ہو جوکہ پارلیمنٹ کا حصّہ نہ ہوں۔ اراکینِ پارلیمنٹ کے لئے ماسٹرز کی ڈگری ہونا لازمی قرار دیا جائے ( جیسا کہ ایران میں کیا گیا ہے) اور ان کی ماضی کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور دیانت داری کی بڑی احتیاط سے جانچ پڑتال کی جائے اور مناسب قانون سازی کی صلاحیتوں کو بھی پرکھاجائے۔ ان اراکین کا کام کابینہ اور پارلیمنٹ کے لئے قانون سازی اور حکومتی اقدامات کی نگرانی کرنا ہوگا انہیں وفاقی و صوبائی وزراء بننے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ اس طرح پارلیمانی رکن بننے کی لالچ اور اس کے لئے انتخابات محض ایک گندے منافع بخش کاروبار( کہ آج 5 کروڑ لگائیں گے اور کل100 کروڑ کمائیںگے )کی حیثیت سے لڑنے کی ترغیب ختم ہوجائیگی جس نے پارلیمنٹ کوبری طرح سے آلودہ کر دیا ہے ۔ وہ تمام افراد جو انتخابات میں حصّہ لیں انہیں سب سے پہلے ــ’بزرگوں کی عدالتی کونسل ‘ سے ایمانداری، قابلیت اور اہلیت کی بنیادوں پر منظوری حاصل کرناہوگی۔ تاہم یہ کون کرسکتا ہے؟ موجودہ پارلیمنٹ کبھی بھی اپنے اختیارات کو محدود کرنے پر متفق نہیں ہو گی۔ صرف ایک ہی صورت ہے کہ ایک عبوری حکومت قائم ہو اورقومی ریفرنڈم کے ذریعے اس صدارتی نظام کو رائج کیا جائے۔
پاکستان میں زبردست صلاحیت موجود ہے۔ تقریباً 100 کروڑ کی آبادی 19سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جو کہ ہماری کُل آبادی کا 56% حصّہ ہے۔ ہمارے بچّے دنیا کے ہوشیار اور ذہین بچّوں میں سے ہیں جبکہ افسوس کہ ہم اپنی مجموعی پیداواری صلاحیت (GDP) کا صرف 1.9% حصّہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ اس طرح شرمناک طور پر ہمارے ملک کا شمار دنیا بھر میں تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والے آٹھ 8ممالک کی صف میں آتا ہے۔ نتیجتاً نصف سے زیادہ پاکستانی آبادی ناخواندہ ہے اور ان پڑھے لکھوں میں سے بھی نصف آبادی بمشکل دستخط کرسکتی ہے۔ یہی عنصر تو جاگیردارانہ زمینداروں کی مضبوطی اور طاقت کا سبب ہے کہ ان کے خدمت گزار ناخواندہ، کمزور اور غریب رہیں۔ہم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم کم قیمت زرعی معیشت سے ہٹ کرعلم پر مبنی معیشت کی طرف رخ نہ کرلیں۔ تعلیم ، سائنس، ٹیکنالوجی ، جدّت طرازی اور منصفانہ نظام جو صاف اور فوری انصاف فراہم کرے ترقی کے اہم عناصر ہیں ۔اور یہی وہ شعبے ہیں جنہیں ہماری پچھلی حکومت نے سب سے کم ترجیح دی ہے۔ کوریا میں انقلاب جنرل پارک کے حکومت سنبھالنے سے ظہور پذیر ہوا کیا ہم بھی کسی جنرل پارک کے انتظار میں ہیں؟یا پھر حکومت "اعلیٰ معیار کی تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور ایک علم پر مبنی معیشت (knowledge economy) کی طرف توجّہ دے گی؟"
آج کل جنرل مشرّف کے مقدمے کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ یہ واضح رہے کہ3 نومبر 2007ء کو نافذ کردہ ہنگامی صورتحال کو 24 نومبر 2007 میں اس ملک کے سپریم کورٹ نے قانونی قرار دے دیا تھا اور اس کے نفاذ کے فوراً بعد ہی انتخابا ت کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیاتھا ۔اس ہنگامی صورتحال کو دو مہینے کے لئے رہنا تھا لیکن بدقسمتی سے اس کی معیاد میں ایک ماہ کی توسیع محترمہ بے نظیر بھٹّو کی اچانک شہادت کی وجہ سے ہوئی۔
اس طرح انتخابات فروری 2008؁ء ہوئے۔ لہٰذا یہ ڈرامہ صرف ان تین مہینوں کا ہے۔ اس سے پہلے کہ 8سالہ دور کو یکسر فراموش کیا جارہا ہے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس طرح بہت سے لوگ شکنجے میں آئیں گے کیونکہ نومبر2007؁ء میں آئین کی معطّلی قانونی طور پر ملکی غدّاری کا معاملہ نہیں تھا۔ اسے غیر قانونی آئین کی اٹھارویں ترمیم میں کیا گیا لیکن یہ اعلان کئی سال بعد میں ہوا۔ قانون کا نفاذ ہمیشہ رائج الوقت ہوتا ہے نہ کہ ان فیصلوں پر جو کہ سالوں پہلے نافذالعمل ہو گئے ہو ں ان پر عائد کیا جائے۔کچھ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس قانونی کارروائی کو ایسے ہی چلنے دیا جائے اور بالآخر 1999؁ء کی فوجی بغاوت کے مرتکب افراد مقدمے کی کارروائی کے ساتھ اپنے انجام کار کوپہنچیں گے۔ یہ فضول بات ہے۔ عدالتِ عظمیٰ اپنے طور پر آئین کے آرٹیکل 6کے تحت غدّاری کے لئے کسی کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس سلسلے میں ایسے افراد کے خلاف حکومت کی جانب سے مخصوص الزامات نہ دائر کئے جائیں۔ چند ضعیف البصر سرکار ی افسران کے مطابق ایک مرتبہ جنرل پرویز مشرّف کے ساتھ یہ مثال قائم کر دی جائے تو مستقبل میں کسی اور جنرل کی ہمّت نہیں ہوگی ایسا قدم اٹھانے کی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے بہت سے ماہرین کے خیال کے مطابق جن میں عاصمہ جہانگیر اورنجم سیٹھی بھی شامل ہیں کہ موجودہ اعمال مارشل لا کو متحرک کررہے ہیں اور اگر اس وقت مارشل لا لگ گیا تو یہ پر تشدد بھی ہو سکتا ہے۔
تازہ ترین