• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غربت ،مہنگائی، افلاس اور بے روزگاری تو ایک طرف مگر پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم اب تک 50ہزار سے زائد قیمتی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔آج جب ہم دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔لیکن کئی ماہ کی کوششوں کے باوجود دہشت گردی کے خلاف پالیسی تیار نہیں کرسکے جو پالیسی تیار کی گئی وہ وزیراعظم کے اعتراض کے باعث کابینہ سے منظور نہ ہوسکی۔مگر اس سے پہلے حکومت تحفظ پاکستان آرڈنینس اور پھر اس کی ترمیم کے نام پر ایک ایسا آرڈیننس لے آئی ہے ۔اپوزیشن کے شدید احتجاج اور واک آؤٹ کے باوجود اس آرڈیننس کو قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظور بھی کر لیا ہے۔
حالانکہ سپریم کورٹ واضح کرچکی ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ الگ الگ ہیںاس لئے بظاہر اس آرڈیننس میں اس پر کاری ضرب لگائی گئی اورعام شہری کے بنیادی حقوق کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں اور اس کے ساتھ لگتا ہے کہ مقدمے کی منصفانہ پیروی کا حق (Right to Fair Trial)بھی سلب کرلیا گیا ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے 1996کے فیصلے میں واضح کر چکی ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ بالکل الگ ہیں،مگر اس آرڈیننس کی شق نمبر8کی ذیلی شق 5میں واضح لکھا گیا ہے کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے گریڈ 18 یا اس سے اوپر کے افسر کو اسپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ لگایا جاسکتا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ایک مرتبہ پھر غیر محسوس انداز میں ڈی ایم جی کے افسران کو عدالتی اختیارات تفویض کردئیے گئے ۔گزشتہ چند سالوں میں ایسی متعدد کوششیں کی گئیں مگراعلی عدلیہ نے ایسی ہر کوشش کو ناکام بنایا۔
دنیا کے تمام تہذیب یافتہ ممالک میں شہریوں کے بنیادی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ آئین پاکستان میں بھی شہریوں کے بنیادی حقوق کا واضح تحفظ کیا گیا ہے ۔مگر اس آرڈیننس کو دیکھ کر لگتا یہ ہے اس میں سب سے زیادہ نشانہ عام شہری کے بنیادی حقوق کو بنایا گیا ہے،جو1973کے آئین پاکستان سے بھی متصادم ہے۔آرڈیننس کی شق3کی ذیلی شق 2میں واضح ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بغیر وارنٹ گرفتاری کے مجاز ہیں،کسی بھی شخص پر شک وشبہ کی بنیاد پر فائرنگ کا اختیار دے دیا گیا،جس پر کوئی پوچھ گچھ نہیں۔کسی بھی چاردیواری کی بغیر احکامات کے تلاشی لے جاسکتی ہے۔شق 5کی ذیلی شق 4ہے کہ شہری کا90دن کا ریمانڈ لیا جاسکتاہے،جبکہ شق 6میں لکھا ہے کہ سیکریٹری داخلہ کسی بھی شہری کو 90دن تک تحویل میں لینے کا حکم دے سکتا ہے۔
دنیا کے تمام ممالک میں (Criminal Justice System)کی بنیاد Right to Fair Trialیعنی مقدمے کی منصفانہ پیروی پر ہوتی ہے ۔قانون میںاس اختیار کو بھی چھین لیا گیا۔Burden of Proofکے صدیوں پرانے نظام کوتبدیل کردیا گیا۔ یعنی قانون نافذ کرنے والے ادارے بغیر کسی ثبوت کے کسی بھی شخص کو حراست میں لے سکتے ہیں ۔حالانکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسفند یار ولی کیس میں اسی حوالے سے نیب آرڈیننس کی شق نمبر 14جس میں Burden of Proof کی ایسی ہی تشریح کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔
آرڈیننس کی شق18میں اپیل کا ایک فورم ہی ختم کردیا گیا ہے ،یعنی سیشن عدالت سے مقدمہ براہ راست سپریم کورٹ میں جائے گا۔ بھٹو کیس میں سب سے بڑی تنقید ہی یہی کی جاتی ہے کہ ایک فورم ختم کرتے ہوئے مقدمہ براہ راست ہائی کورٹ میں لایا گیا تھا۔ کسی بھی کیس میں تمام فورمز کو استعمال کرنا ملزم کا پورا حق ہوتا ہے،مگر اس قانون کے تحت یہ حق ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھین لیا گیا۔ سیکشن 18میں ہر قسم کے جرائم شامل کر دئیے گئے ہیں۔ اب اس کے بعد پاکستان پینل کوڈ صرف برائے نام ہی رہ جائے گا۔ قارئین حیران ہوںگے کہ اس آرڈیننس کی منظوری سے قبل بھی جو لوگ لاپتہ ہیں انہیں بھی یہی قانون تحفظ فراہم کرے گا۔جبکہ اس آرڈیننس کے بعد مقتدر ادارے کسی بھی شخص کو تحویل میں رکھنے کی وجہ اور جگہ بتانے کے مجاز نہیں ہیں۔ شق 21ہے کہ اس قانون کو تما م قوانین پر فوقیت ہوگی۔ حتی کہ کسی شہری کی شہریت منسوخ کرنے کا بھی جواز تیار کیا گیا ہے۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں اپنے شہری تو کیا پرائے کے لئے بھی ایسے قوانین نہیں بنائے جاتے،اپنی ہی عوام سے بھلا ایسا برتاؤ کون کرتا ہے؟؟۔امریکہ نے 2002میں ہوم لینڈ سیکورٹی ایکٹ نافذ کیا تھا ۔جس پر پوری دنیا نے شدید تنقید کی تھی۔لیکن ایسی شقیں تو اس میں بھی شامل نہیں کی گئی تھیں۔امریکہ نے گوانتاناموبے جیل تیار کی مگر اپنے شہریوں کے لئے نہیں ۔ہم آج جہاں عدلیہ اور انتظامیہ کو ایک مرتبہ پھر ملانے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف اپنے ہی شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوششوں کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت عام شہری کے حقوق کو مزید تحفظ دیتی مگر افسوس۔۔اس آرڈیننس کے بعد وطن عزیز کا کوئی شہری بھی محفوظ نہیں ہے ،سب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے رحم و کرم پر ہوںگے۔
کیا پولیس سمیت کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کی ساکھ ایسی ہے کہ اس طرح کے قوانین بنا کر شہریوں کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے؟ کم ازکم جمہوری حکومت سے ایسی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ ہم اپنے قانون نافذکرنے والے اداروں کو ایسے اختیارات دینے کے بجائے اس چیز پر غورکیوں نہیں کررہے کہ ایسی کون سی وجہ ہے کہ ان کے استعداد کار میں خوفناک حد تک کمی آئی ہے، اسے بہتر کیسے کیا جاسکتا ہے؟۔وہ ادارے جنہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کراچی کے ایک نہتے جوان کو گولیوں کا نشانہ بنایا ،جس پر اعلی عدلیہ کو نوٹس لینا پڑا۔یہ تو ایک واقعہ ہے جس کی فوٹیج سامنے آگئی۔ہم انہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کواپنے ہی شہریوں پرگولی چلانے کی کھلم کھلی اجازت دے رہے ہیں۔وہ پولیس جو اب تک 1898کے کوڈ کے تحت کام کرتی ہے اور برطانوی سامراج کے بنائے ہوئے 1924پولیس رولز پر چل رہی ہے ۔جس کی اپنی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔98 میں جب پولیس مقابلے عروج پر تھے تب عابد باکسر جیسے متعدد پولیس انسپکٹروں نے ذاتی لین دین کے معاملے میں معصوم افراد کو پولیس مقابلوں میں مارا تھا۔
میں یہ تو نہیں جانتا کہ اس قانون کا مسودہ کہاں تیار کیا گیا ہے مگر حکمران جماعت کو ایسے قانون کو نافذ کرتے ہوئے کچھ غور کرلینا چاہئے تھا،کل یہی آرڈیننس مسلم لیگ ن کے کسی رکن پر بھی استعمال ہوسکتا ہے۔پاکستان میں دہشت گردی ختم ہونی چاہئے مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ عوام پر ایسا کالا قانون تھوپ دیا جائے ،جو ان سے ان کے بنیادی حقوق ہی چھین لے۔جو عدالتی فیصلوں کی ہی کھلی خلاف ورزی ہوں، جس میں ملزم کو یہ ہی نہ پتہ ہو کہ اس پر الزام کیا ہے اور اس نے اپنے مقدمے کی پیروی کیسے کرنی ہے ؟
ملک میں اگر بہتری لانی ہے تو Social Economic Justiceقائم کرنا ہوگا۔عوام کی ایک بڑی اکثریت تحفظ پاکستان آرڈیننس کو کالا قانون تصور کررہی ہے،مگر سوال یہ ہے کہ اس کالے قانون سے عام شہریوں کوکون بچائے گا؟کیا سپریم کورٹ ہی اس قانون کی شقوں کا جائزہ لے گی؟
تازہ ترین