• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میںآخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی اس لئے آبادی میںکتنا اضافہ ہوا اس کاکسی کے پاس حتمی جواب نہیں مگرمبصرین اور میڈیا اب پاکستان کی آبادی 18 کروڑ سے زائد بتاتے ہیں ۔ آبادی میں اضافے کےتناسب سے مسائل بھی بڑھتےہیں اور اس کا حل منصوبہ بندی کے ذریعے وسائل میں اضافہ ہے جو ہمارے ہاںنہیں ہوپا رہا۔ حکمرانوں کا دعویٰ ہےکہ جمہوری اور عوامی حکومتیں ہیں اور جو کام بھی کرتی ہیںاس میں ان کے پیش نظر عوام ہی کی بھلائی ہوتی ہے اس لئے ہم 18کروڑ عوام کے چند مسائل پرحکمرانوںکی توجہ دلانے کے لئے یہ کالم لکھ رہے ہیں۔یہ صرف چند لوگوں کے نہیںبلکہ آبادی کی اکثریت کےمسائل ہیں ہیںاوریہاں انہیںدرج کرنے کا مقصد یہ ہےکہ حکمران ان مسائل کے حل پر بھی توجہ دیں۔
ملک میں بجلی کےساتھ گیس کا بھی شدید بحران ہے اسکی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک وجہ بدعنوان ملازمین کی ملی بھگت سے بڑے پیمانے پر گیس کی چوری بھی ہے جس سے عام صارف پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ بدعنوان ملازمین یہ ترغیب دیتے ہیں کہ وہ حکومتی خزانے میں پیسے جمع کرانے کی بجائے انہیں ماہانہ دے دیا کریں اور جتنی مرضی گیس استعمال کریں ۔ بل زیادہ نہیں آئیگا۔ حکومت اورگیس کمپنی کے اعلیٰ حکام کی اطلاع کے لئے میں ایسی ہی ایک مثال درج کر رہاہوںجس سےکرپٹ ملازمین کی ذہنی کیفیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ نقشہ اسٹاپ وحدت روڈ پرایک گھرتقریباًسال بھرپہلے تعمیر ہوا اور جسے چند ماہ بعد طالبات کے ہاسٹل میں تبدیل کردیا ۔ چونکہ میٹر کیلئے کئی سال پہلے درخواست دے رکھی تھی جب میٹر لگنے کے بعد ہاسٹل کے طور پر استعمال شروع ہوا تو متعلقہ علاقے کےگیس کمپنی عملے کو مقررہ فیس کے ساتھ درخواست دی گئی کہ اس میٹر کو کمرشل میٹر میں تبدیل کردیا جائے تو متعلقہ عملہ نے فیس کےدس ہزار روپے ہڑپ کرلئے اور کہا کہ میٹر یہی لگا رہے گا آپ دس ہزار روپے ہر مہینے ہمیں دے دیا کریں مگر مالک نے اصرار کیا کہ میٹر کمرشل کریں تاکہ پیسہ قومی خزانے میں جائے اس کے بعد متعلقہ عملے نےاس کیلئے 50ہزار روپے رشوت طلب کی، جب مالک نے یہ دینے سے انکار کیا تو میٹر ہی کاٹ دیا گیا ۔ جس پر کرایہ دار سول عدالت میں چلا گیا سول جج نے 12نومبر 2013ء کے فیصلہ میں محکمہ کو حکم دیا کہ متعلقہ صارف کی گیس بحال کی جائے ۔ عدالت کا یہ حکم جنرل منیجر لاہور کے دفتر میں باقاعدہ 13نومبر 2013ء کو وصول کرایا گیا مگر گیس بحال کرنیکی بجائے اب متعلقہ عملہ نے صارف کو مزید تنگ کرنا شروع کردیا اور وہ مطالبہ جو پہلے50ہزار تھا اب ایک لاکھ تک پہنچ گیا۔ جب صارف نے کہا کہ وہ عدالت کے علم میں یہ بات لائےگا کہ یہ وہ ہر کسی سے ماہانہ ہزاروں روپے لیکر قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس نے توہین عدالت کی درخواست دی تو باقی 20لوگوں کے میٹر بھی کاٹ دیئے گئے اب چار مہینے سے میٹر بھی کٹا ہوا ہے اور اس مہینے 3 لاکھ 25ہزار روپے کا بل ڈال دیا گیا ہے ۔ ایک شہری قانون کی پابندی کرتے ہوئے قومی خزانہ میں پیسے جمع کرانا چاہتا ہے اورمتعلقہ ادارےکے بدعنوان ملازمین اسے کرپشن کی ترغیب دیتے ہیں ۔کیا قومی خزانے کو لوٹنے والوںکو پکڑنے والاکوئی نہیں ؟
ڈاکخانہ شبقدر ضلع چار سدہ سے ایک (ر)سرکاری ملازم محمد علی نے لکھا ہے کہ میری بیوی بلڈ کینسر میں مبتلاتھی۔اپنی استطاعت کے مطابق اس کا علاج کرایا ایک لاکھ قرضہ بھی لیا جو بمعہ سود ڈیڑھ لاکھ ہو چکا ہے ۔ میری بیوی جان بر نہ ہو سکی ۔ مجھے اتنی پنشن ملتی ہے جس میں بمشکل بجلی کا بل اتار سکتا ہوں ۔ تین بیٹیاں ہیں جن کی شادی وسائل نہ ہونیکی بناء پر نہیں کر سکتا ۔ خدا ترس افراد سے گزارش ہے کہ میری بیٹیوں کی شادی میں مدد فرمائیں۔ ریٹائرڈپرنسپل گورنمنٹ اسکول سلطان شاہ نے پشاور سے لکھا ہے کہ میری کوئی نرینہ اولاد نہیں ۔بیٹی کی شادی کرنی ہے اللہ کیلئے مجھے 90ہزاروپے بطور قرض دے دیں میں ہر مہینے تین ہزار روپے کے حساب سے واپس کرتا رہوں گا ۔ مالا کنڈ سے عبدالقیوم نے لکھا ہے کہ میرے بیٹی کی ٹائیفائیڈ بخار کیوجہ سے بینائی چلی گئی ہے ۔ اسکی عمر 16سال ہے ۔ میرا کوئی ذریعہ معاش نہیں۔اسکی آنکھوں کا آپریشن کرانیکی دردمندوں سے اپیل ہے ۔شبقدر ضلع چار سدہ سے ایک طالبہ شازیہ نے لکھا ہے کہ میرے والد نےگھر بنانے کیلئے ہائوس بلڈنگ سے 4لاکھ 70ہزار روپے قرض لیا تھا اور اس میں سے ہم نے 2لاکھ 15ہزار روپے جمع بھی کرادیئے مگر والد محترم وفات پا گئے۔ ہم یتیموں پر زندگی کے ایام نہایت ہی کربناک ہوگئے ہیں۔ محکمہ نے اخبار میں اشتہار دیا ہے کہ اگر ہم نے یہ پیسے جمع نہ کرائے تو گھر نیلام کردیا جائیگا۔ دردمند ہماری مدد کر کے ہمارے سروں سے چھت چھننے سے بچائیں۔
حکمرانوں کو پوری طرح ادرا ک ہے کہ یہ عوام کے ہر روز کے مسائل ہیں اور حکمران تو انہیں حل بھی کرنا چاہتے ہیں مگر کیا کریںانہیںپاکستان کے سابق صدر جنرل ( ر) مشرف جو گزشتہ 9 ماہ سے پاکستان میں ہیں ، ان کی سیکورٹی پر ہر مہینے ایک سے سوا کروڑ روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ آخر وہ سابق صدر ہیں ان کی سیکورٹی کیلئے تین سے 4سو پولیس اہلکار تعینات ہیں۔حالانکہ یہ عملہ اسلام آباد کے 8تھانوں کے برابر ہے مگر مجبوری ہے وہ عدالت میں پیش ہوں یا نہ ہوں محکمہ داخلہ تو انتظامات کرتا ہے اور اس پر روزانہ سوالاکھ روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کو حالانکہ احساس ہے کہ گزشتہ مئی سے اب تک اسلام آباد میں سنگین جرائم میں 40فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے لیکن آخر وہ سابق صدر ہیں ان کی سیکورٹی 18کروڑ عوام سے زیادہ اہم ہے اور ان کی سیکورٹی پر پچھلے نو ماہ کے دوران 10کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں۔دراصل حکمران جوکچھ بھی کرتے ہیں وہ صرف عوام کی بھلائی کیلئے ہی کرتے ہیں جیسا کہ پنجاب حکومت نے اعلیٰ شخصیات کیلئے 6بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اب اس پر 8کروڑ 40لاکھ خرچ ہونگے اورانہیںبم پروف بنانے کیلئے 35کروڑ خرچہ آئے گا۔ بلوچستان اور کے پی کے کی حکومت نے سرکاری خزانے سے 82کروڑ روپے کی 70بلٹ پروف اور 8بم پروف گاڑیاں خریدی ہیں ۔ پچھلے دنوں قومی اسمبلی میں یہ رپورٹ پیش کی گئی ہے کہ حکومت نے وزیراعظم ہائوس کے بجٹ میں 30فیصد کمی کا عندیہ دیا تھا اب کیا کیا جائے کہ وزیراعظم ہائوس میں سارے کام ہی عوام کیلئے ہوتے ہیں اور اپنے 2013-14ء کے بجٹ میں جو 34کروڑ 9لاکھ 92ہزار روپے رکھا گیا تھا اس میں سے 5ماہ میں 22 کروڑ خرچ بھی ہوگئے ہیں ابھی تو انہیں فکر ہے کہ باقی 7مہینے 12کروڑمیں کیسے گزارہ ہوگا کیونکہ اب تک جو خرچ ہوئے ہیں وہ تو اوسطاً ماہانہ ساڑھے چارکروڑ بنتے ہیں ۔ اس حساب سے تو حکومت کو صرف وزیراعظم ہائوس کا خرچ چلانے کیلئے کم از کم مزید 25کروڑ کا انتظام کرنا ہوگا ایک واقف حال کا کہنا ہے کہ چونکہ پنجاب اور وفاق کی حکومت سارے کام سانجھے کر رہی ہے اور خیال تھا کہ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم ہائوس کے اخراجات بھی سانجھے ہوجائیں گے مگر وزیراعلیٰ نے گزشتہ بجٹ میں اپنے سیکرٹریٹ کیلئے 25کروڑ 98لاکھ رکھے اور خرچ41کروڑ ہوئے تھے اب انہوں نے اس سال کیلئے 30فیصدکم کر کے 19کروڑ 99لاکھ 40ہزار کی رقم رکھی ۔ مگر وہ کیا کریں اب تک 7ماہ میں 25کروڑ کے فنڈخرچ ہو چکے ہیں — حکمرانوں کے یہ سارے مسائل عوام کے سامنے ہیں اس لئے ہماری شبقدر کی طالبہ سے اپیل ہے کہ وہ ہائوس بلڈنگ کا قرض اتارنے کیلئے حکومت سے اپیل نہ کرے بلکہ اپنا گھر نیلام ہونے دے تاکہ ملک کے حکمرانوں کے اخراجات پورے ہو سکیں۔ (ر)پرنسپل سلطان شاہ اپنی بیٹی کی رخصتی کے خواب دیکھنے چھوڑ دیں کیونکہ ان کو حکومت نے جو 90ہزار روپے قرض دینے ہیں وہ مشرف کی سکیورٹی کیلئے ایجنسیوں کے ارکان پر خرچ ہونیوالے ایک دن کے خرچ کے طور پر کام آ سکیں گے۔ مالاکنڈ کے عبدالقیوم سے بھی اپیل ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی آنکھیں روشن کرنیکا مطالبہ نہ کریں کہ ایک بیٹی کی آنکھوں کی روشنی کی 18کروڑ عوام کے نمائندوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ؟اگر آپ عوام اتنی چھوٹی چھوٹی قربانیاں نہیں دینگے تو حکمرانوں کی سکیورٹی کو کیسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین