• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس سال بھی 5فروری یومِ یکجہتی کشمیر آکر گزر گیا۔عوام و خواص اور سیاست دانوں سمیت حکمرانوں نے جلسے جلوس ،ریلیاں نکالیں،آج20سال گزر چکے ہیں ہر سال ہی ایسا ہوتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے 5فروری کا دن منتخب کیا ۔کشمیر کمیٹی بھی بنائی۔نواب زادہ نصراللہ خان کو اس کا چیئرمین بنایا،بعد میں مولانا فضل الرحمٰن بھی چیئرمین بنے،ہر سال اس بے معنی کمیٹی پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے رہے اور ہورہے ہیں مگر کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں ہی ہے۔
آئیے آج ہم مسئلہ کشمیر پر ٹھنڈے دل سوچیں جو 6 دہائیوں سے دونوں ملکوں کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ دونوں ملکوں( پاکستان اور بھارت) نے اربوں کھربوں ڈالر پھونک ڈالے،پاکستان کا ہر سال کھربوں روپے کا بجٹ فوج اور اسلحہ کی نذر ہوتاہے جبکہ بھارت کا اس سے دگنا بجٹ فوج کے علاوہ کشمیریوں کو مراعات کی صورت میں برائے غلہ بجلی نان و نفقہ دینے پر خرچ ہوتا ہے۔پھر بھی جموں و کشمیر کے مسلمان آج تک سینہ سپر ہیں،ہزاروں جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے بھارت کے حکمران جب بھی کشمیر میں الیکشن کرواتے ہیں تو صرف ان کے پسندیدہ حکمران یعنی شیخ عبدا للہ اور ان کے بعد انکی اولادیں ہی ان میں حصہ لیتی ہیں اور کشمیر پر اپنا حق جتا کر حکومت کرتی ہیں،جبکہ دوسری سیاسی جماعتیں اور بڑے بڑے سیاست دان بائیکاٹ کردیتے ہیں۔اگر سب مل کر الیکشن کے لئے ڈٹ جاتے تو بھارتی حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑ جاتے مگر نا معلوم وجوہ کی بنا پر آج تک الیکشن کا بائیکاٹ جاری ہے۔ دوسری طرف پاکستان کےکشمیری حکمران بھی اپنے بھائیوں کے حق کے لئے کوئی جدوجہد نہیں کرتے ۔کسی بھی حکمران نے ہماری طرف کوئی سنجیدہ حل نہیں پیش کیا صرف یو این او کی قراردادیں یا پھر دو مرتبہ جنگ لڑ کر آدھا ملک گنوا دیا۔دوسری طرف بھارت نے روز اوّل سے دشمنی مول لی جوسالہا سال گزرنے کے ساتھ بڑھ کر نفرتوں میں بدل چکی ہے۔شروع سے بھارت مسئلہ کشمیر کو طاقت کے زور پر دباتا رہا۔ وقت گزارنے کے بہانے بناتا رہا۔ کئی نسلیں گزر گئیں دونوں طرف کےحکمرانوں نے انا کا مسئلہ بنا رکھا ہے۔ عوام کو اب اس میں دلچسپی نہیں رہی، نئی نسل اس مسئلے سے ہی نابلد ہے۔ اگر 67 سال کے غیر ضروری اخراجات کا حساب لگایا جائے تو اس سے دونوں ممالک اپنے اپنے عوام کو جہالت، غربت،نفرت سے چھٹکارا دلاسکتے تھے۔آج کے دور میں اگر جنگ سے مسائل حل ہو سکتے تو برطانیہ، فرانس، پرتگال، اپنی نوآبادیاں ہر گز نہیں چھوڑتے ان پر جبری حکمرانی کرتے رہتے آخر وہ کیوں لڑے بغیراپنی نوآبادیاں چھوڑ کر اپنے اپنے ملکوں تک محدود ہو گئے۔بھارت نے کشمیر کو ہتھیانے کی خاطر ہمارے ہی عوام کو آلہ کار بنا کر ہمارے ملک میں دہشت گردی کا راج نافذ کر وا دیا اور پوری دنیا کے سامنے ہم کو دوسرے اور تیسرے درجہ کی مخلوق بنا کر سب سے تنہا کر دیا۔ کہاں پاکستان جیسا ہرا بھرا پرامن ملک اورکہاں اب یہ حالت کہ دہشت گردی کے خوف سے آج خود اپنے پاکستانی نقل مکانی پر مجبور ہیں۔آج بلوچستان میں بھائی بھائی کا خون بہانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جا رہا ہے۔وہاں بھی بنگلہ دیش کی طرح آزاد بلوچستان کے نعرے بھارتی حکمرانوں کے مرہون منت ہیں۔سندھ میں بھی یہ لہر شروع ہو چکی ہے ۔صوبہ پختون خوا کے حالات سب کو معلوم ہیں۔ہماری بین الاقوامی پالیسیاں دوسروں کی مرہون منت ہیں۔ امریکہ سے بھی ہمارے تعلقات دھوپ اور چھائوں کی طرح بدلتے رہتے ہیں افغانستان جس کو ہم نے روس سے بچایا اس کے لاکھوں باشندوں کو اپنے ہاں پناہ دی جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا ملک اسلحہ اور منشیات کےکاروبار میں اپنی اصلیت ہی کھو بیٹھا مگر ہمارے حکمران آج بھی حقائق سے کنی کترا رہے ہیں۔ اگر ہم صرف بھارت سے دوستی چاہتے ہیں تو کیا آپ توقع کرتے ہیں کہ بھارت کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنے کے بعد آپکے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل پر آئے گا ہر گز نہیں۔ جناب وزیر اعظم صاحب بہتر ہے ہم صحیح فیصلہ کریں آپ UNOمیں جا کر اس مسئلہ کشمیر کو UNOکی گود میں ڈال دیں تاکہ وہ خود اپنی قرار دادوں پر عمل کروائےدونوں طرف کےکشمیریوں سے خود فیصلہ کروائیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں باہمی گفت و شنید کر کے فیصلہ کریں نہ پاکستان اور نہ بھارت کی بالا دستی ہو اس میں کسی کی سبکی نہیں بے شک ایک نیا ملک وجود میں آجائے گا بھارت سے دشمنی بھی ختم ہوگی جس کا نتیجہ دونوں پڑوسیوں کو ایک ساتھ مل بیٹھ کر ڈیڑھ پونے دو ارب باشندوں کو سکون میسر آجائے گا پھر آپس کی تجارت ثقافت پروان چڑھے گی دونوں طرف خوشحالی کا دو ر دورہ ہوگا اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہماری آنے والی نسلیں بھی ہمیں معاف نہیں کریں گی ۔
تازہ ترین