• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کے پہلے دور کے مذاکرات پر، جو جمعرات کو خیبرپختونخوا ہائوس اسلام آباد میں ہوئے، دونوں جانب سے اظہار اطمینان کے باوجود پوری طرح واضح نہیں ہو سکا کہ ان کی بات چیت آگے چل کر کیا رخ اختیار کرے گی کیونکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے دائرہ کار اور ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار دکھائی دیئے لیکن امید افزا بات یہ ہے کہ بعض انتہائی اہم بنیادی نکات پر ان میں اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ دونوں کمیٹیوں کے پہلے باضابطہ اجلاس کے بعد جو چار گھنٹے کے لگ بھگ جاری رہا ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی حدود کے دائرے کے اندر کئے جائیں گے اور ان کا اطلاق پورے ملک پر نہیں بلکہ صرف شورش زدہ یعنی قبائلی علاقوں پر ہو گا۔ اجلاس میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی بھرپور مذمت کی گئی اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ملکی امن و سلامتی کے منافی تمام پرتشدد کارروائیاں بند ہونی چاہئیں۔ حکومتی کمیٹی نے طالبان کی اعلیٰ قیادت سے جبکہ طالبان کمیٹی نے وزیراعظم، چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی سے ملاقات کرانے کا مطالبہ کیا۔ طالبان کمیٹی طالبان رہنمائوں سے ملنے اور انہیں حکومتی کمیٹی کے پیش کردہ نکات سے آگاہ کرنے کیلئے جلد وزیرستان جائے گی جس کے بعد دونوں کمیٹیوں کے مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے۔ پہلے اجلاس میں مذاکرات کے جس فریم ورک پر اتفاق ہوا ہے عمل بھی اس کی روح کے مطابق ہوا تو امید کی جا سکتی ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے تحفظات دور کر کے ایک پائدار سمجھوتے پر پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ حکومت اور طالبان میں اس سے قبل بھی علاقائی نوعیت کے کئی سمجھوتے ہوئے مگر منفی قوتوں کی دخل اندازی کے باعث ان پر عملدرآمد نہ ہوسکا ۔ اب جبکہ قیام امن کیلئے کمیٹیوں کی سطح پر ہمہ گیر مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے تو فریقین کو انہیں نتیجہ خیز بنانے کے لئے اپنے رویوں میں لچک کے ساتھ نہایت بردباری سے آگے بڑھنا ہوگا۔ حکومت پر بعض حلقوں کی جانب سے مسئلے کے فوجی حل کیلئے بہت دبائو ڈالا گیا اور اب بھی ڈالا جارہا ہے مگر ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے خون خرابے سے بچنے کیلئے سیاسی حل کا راستہ اختیار کیا اور وزیراعظم کے بقول گیند اب طالبان کے کورٹ میں ہے۔ امن کیلئے ان کی شرائط پوری طرح ابھی سامنے نہیں آئیں۔ جومطالبات اجلاس میں رکھے گئے ہیں وہ براہ راست طالبان کے نہیں بلکہ طالبان کمیٹی کے ہیں۔ طالبان نے انتہاپسندانہ رویہ اختیار کیا تو مذاکرات کی کامیابی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ طالبان کمیٹی کے ایک رکن نفاذشریعت پر زور دے رہے ہیں۔ اگر طالبان قیادت کا یہی سب سے بڑا مطالبہ ہے تو اس کا حل آئین میں موجود ہے۔ شاید اسی لئے مشترکہ اعلامیہ میںاسے مطالبے کی صورت میں شامل کرنے سے گریز کیا گیا ہے اور آئین کے دائرے میں رہنے کی بات کی گئی ہے۔ فریقین نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔ حکومتی ٹیم میں وزیراعظم کے معاون خصوصی شامل ہیں جو حکومت ہی کے نمائندہ ہیں مگر طالبان کمیٹی میں طالبان قیادت کا کوئی رکن غالباً سکیورٹی خدشات کے پیش نظر شامل نہیں۔ اس کی بجائے ان کی مذاکراتی کمیٹی کی مدد کیلئے ایک نورکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو پورے مذاکراتی عمل کی بھی نگرانی کریگی لیکن بہتر ہوتا کہ کمیٹیوں کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں طالبان کا کوئی حقیقی نمائندہ بھی شریک ہوتا یہ کمی اب بھی دور کی جاسکتی ہے تاکہ معاملات کی وضاحت مذاکرات کی میز پر زیادہ بہتر انداز میں ہوسکے۔ مشترکہ اعلامیہ میں بعض معاملات کا ذکر شاید اسلئے نہیں کیا گیا کہ وہ میڈیا کا موضوع نہ بن جائیں۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔میڈیاپر آنے سے مذاکرات مکالمے کی بجائے مناظرہ بن جاتے ہیںجس سے تلخیاں کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتی ہیں۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ فریقین نے مذاکراتی عمل کو جلد مکمل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس سے عوام میں موجود اضطراب کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ملک اور قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ بات چیت جلد مکمل ہو اور اس کے نتائج غیرضروری تاخیر کے بغیر عوام کے سامنے آجائیں۔

بلدیاتی انتخابات: تاخیر کا جواز ؟
منتخب بلدیاتی ادارے دنیا بھر میں بیشتر روز مرہ شہری مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ان کا قیام آئینی تقاضا اور اس بناء پر عوام کا ایک بنیادی حق ہے۔ لیکن جمہوری ادوار میں بلدیاتی انتخابات کے معاملے میں ہمارے ہاں برسراقتدار سیاسی جماعتوں کی جانب سے عام طور پر ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ ملک میں آخری بار بلدیاتی انتخابات 2005ء میں ہوئے تھے ۔ اس کے بعد 2009ء میں عوام کو بلدیاتی قیادت کے انتخاب کا موقع ملنا چاہئے تھا۔ وفاق اور صوبوں میں 2008ء سے منتخب جمہوری حکومتیں قائم ہیں لیکن اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے بار بار انتخابات کا حکم دیئے جانے کے باوجود ان سے بچنے کے لئے کوئی نہ کوئی عذر تراش لیا جاتا ہے۔ گزشتہ روز ایک بار پھر چیف جسٹس نے کنٹونمنٹ بورڈز میں 1998ءسے انتخابات نہ کرائے جانے پر واضح کیا ہے کہ ’’یہ آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ محض قانون سازی کا بہانہ بناکرآئینی تقاضے کو التواء میں نہیں ڈالا جاسکتا۔اگر حکومت ترمیم نہیں کرسکتی تو ہم پرانے اور موجودہ قوانین کے تحت انتخابات کا حکم دے دیں گے اور جب ترمیم ہوجائے گی تو ترمیم شدہ قانون کے تحت دوبارہ انتخابات کرادیں گے۔‘‘ چیف جسٹس کے یہ ریمارکس محض کنٹونمنٹ بورڈز پر نہیں پورے ملک کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے رویے پر منطبق ہوتے ہیں۔ پنجاب ، سندھ اور خیبر پختون خوا میں بھی کبھی قانون سازی، کبھی حلقہ بندی، کبھی جماعتی اور غیر جماعتی بنیاد، کبھی مقناطیسی اور عام سیاہی جیسے سوالات اٹھا کر مقامی حکومتوں کے الیکشن ملتوی کئے جاتے رہے ہیں۔ بلوچستان جیسے انتہائی شورش زدہ صوبے میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کے بعد تو باقی تینوں صوبوں کی حکومتوں کے لئے اب عوام کو ان کے اس آئینی حق سے مزید محروم رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہاہے لہٰذا انہیں ضروری قانون سازی اور حلقہ بندیوں کا کام تیزی سے مکمل کرکے بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرنا اور ان کے انعقاد کا بندوبست کرنا چاہئے۔

قانون سازی کی نزاکتیں ملحوظ رکھیں
جمعرات کے روز قومی اسمبلی میں انسداد دہشت گردی کا ترمیمی بل 2014کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا جبکہ پی پی پی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے اس بل کو عجلت میں منظور کئے جانے پر ایوان سے واک آئوٹ کیا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اس دوران مذکورہ بالا پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈر اور کئی دوسرے ارکان بھی ایوان میں موجود نہیں تھے تاہم سرکاری بنچوں کی طرف سے اس بات پر زور دیا جاتا رہاکہ اس بل کو بلا تاخیر منظور کر لیا جائے۔ اس ضمن میں یہ دلیل بھی دی گئی کہ اپوزیشن کی کچھ باتیں مان لی گئی ہیں جبکہ کچھ تسلیم نہیں کی گئیں اور یہی جمہوریت کا تقاضا ہے۔ یہ بات ایک حد تک یقیناً درست ہے مگر جمہوریت کا یہ بھی تقاضا ہے کہ حتی الامکان سب کو ساتھ لے کر چلا جائے اور اگر کسی قانون کا تعلق ملکی سلامتی اور بنیادی انسانی حقوق سے ہو تو پھر اس بارے میں غیر معمولی احتیاط کی جائے اور عجلت میں کوئی ایسا فیصلہ نہ کیا جائے جس سے کلیدی اہمیت کی ان دونوں چیزوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہو لیکن ہمارے ہاں اکثر یہ تعجب خیز مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ کچھ اہم مسائل کو طے کرنے میں تو بہت عجلت اور برق رفتاری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے لیکن ایسے ہی بعض دوسرے معاملات کو مسلسل تاخیر و التواء کی نذر کر دیا جاتا ہے چنانچہ کبھی عجلت میں بعض اہم پہلو نظر انداز ہوجاتے ہیں اور کبھی تاخیر کے باعث مطلوب فوائد پوری طرح حاصل نہیں ہوتے۔ انسداد دہشت گردی کا ترمیمی بل منظور کرنے کیلئے اپوزیشن اور بعض اتحادی جماعتوں کی ایک دن التوا کی تجویز کے باوجود جس عجلت کا مظاہرہ کیا گیا اس کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ملکی سلامتی، بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے تحفظ سے جڑا ہوا یہ معاملہ بے حد حساس ہے اور چونکہ ہمارے ہاں شہری آزادیوں کو سلب کرنے کی روایت پرانی ہے اس لئے اس حوالے سے احتیاط کے تقاضوں اور معاملے کی نزاکتوں کو ملحوظ رکھا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
تازہ ترین