• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں مجھے بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ایک امن کانفرنس میں شریک ہونے کا موقع ملا جس کا انعقاد سائوتھ ایشین فرٹینیٹی (SAF)نامی غیر سرکاری تنظیم نے کیا تھا۔ تنظیم کے بانی ستیہ پال جی پاک بھارت امن کے حوالے سےگزشتہ پچیس برسوں سے اس تنظیم کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کام کررہے ہیں۔ان کی اپنے مشن سے وابستگی کا یہ عالم ہے کہ کانفرنس سے دو روز پہلے ان کے چھوٹے بھائی کا انتقال ہوگیا،خودچوراسی سالہ ستیہ پال جی چند ماہ پہلے فالج کے جان لیوا حملے سے بال بال بچے لیکن اس صدمے اورخراب صحت کے باوجود انہوں نے ویل چیئر پر تین دن تک اس امن کانفرنس میں نوجوانوں کی طرح بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔اس کانفرنس میں بھارت کے علاوہ پاکستان، بنگلہ دیش ، سری لنکا اور افغانستان سے دانشوروں ، شاعروں اور سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات شرکت کی۔ کانفرنس کے صدر بھارت میں سری لنکا کے سفیر تھے۔ کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ تمام مندوبین نے اپنی اپنی حکومتوں کے سرکاری موقف کے حقائق کی بنیاد پر موجودہ صورتِ حال کا تجزیہ پیش کیا اور جنوب مغربی ایشیاء کے عوام کو لاحق مسائل پر تفصیلی گفتگو کی۔ مقبوضہ کشمیر کے جناب اشفاق پنڈت نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ صرف ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہی نہیں بلکہ کشمیری عوام اس کا سب سے اہم فریق ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہا بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی حکومتیں ابھی تک 1947کے زمانے میں قید ہیں کشمیریوں کا پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا سوال 1947کا ایجنڈا تھا۔ جب دونوں ممالک برطانوی تسلّط سے آزاد ہوئے تھے اور برّصغیر کی ریاستوں کو کسی ایک ملک میں شمولیت کا فیصلہ کرنا تھا۔ اب تقریباَ ستر سال گزر چکے ہیں اور کشمیری عوام نے دونوں ممالک کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھ لیا ہے۔ بھارت نے کشمیری عوام کو طاقت کے زور پر اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش میں ہزاروں بیگناہ کشمیریوں کا خون بہایا ہے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا ہے۔ وہیں پاکستان کی صورت ِ حال اس لحاظ سے بھارت سے بھی بدتر ہے کہ وہاں معاشی بدحالی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ پاکستان کی حکومتیں اپنے عوام کو بھی ان کے جائز آئینی اور جمہوری حقوق نہیں دے سکیں تو وہ کشمیریوں کو کیا دیں گی۔ اس صورتِ حال میں کشمیریوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ ’’خود مختار کشمیر‘‘ ان کا جائز حق ہے۔ خودمختار کشمیر دونوں ممالک کے درمیان ایکا ’’ بفر اسٹیٹ ‘‘کے طور پر ہوگا جس سے اس خطّے میں دونوں ممالک کے درمیان دیرپا اور پائیدار امن کے قیام میں مدد ملے گی۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے دانشوروں نے کہا کہ بھارتی حکمران ہمارے ساتھ ’’بگ باس‘‘ کا روّیہ رکھنے کی بجائے’’بڑے بھائی‘‘ کا سلوک کریں۔ تو خطّے میں پائیدار امن کو فروغ مل سکتا ہے۔ اس مو قف کی بھارتی دانشوروں نے بھی کھُل کر حمائت کی اور اس بات پر زور دیا کہ علاقے میں ایک بڑا ملک ہونے کی وجہ سے بھارت کو اپنے چھوٹے پڑوسی ممالک سے مراعات مانگنے کی بجائے انہیں مراعات دینی چاہئیں۔ یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ ہندوستان کے زیادہ تر ہمسایہ ممالک کو اس سے شکایات ہیں۔ یہ طرزِ عمل خود ہندوستان کے مفاد میں نہیں۔ اسی طرح کے خیالات کا اظہار افغانستان کے مندوب نے پاکستانی حکومت اور ایجنسیوں کےبارے میں کیا اور انہیں افغانستان میں مداخلت کا ذمہ دار قرار دیا ۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان نے افغانستان نے اپنے ہاں طالبان اور مذہبی انتہا پسندوں کی پرورش کی اور بعد میں وہاں حکومت قائم کرنے میں بھی ان کی مدد کی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد علاقے کی صورتِ حال مزید خراب ہونے کا امکان ہے ۔ جسے روکنے کے لئے سارک ممالک کو متحد ہوکر لائحہ عمل بنانا پڑے گا۔ ورنہ یہ آگ علاقے کے دوسرے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور اس خطّے میں بیرونی مداخلت کے مزید دروازے کھول دے گی۔ بنگلہ دیشی مندوب نے پاکستان کی قومی اسمبلی کی طرف سے ملا عبدالقادر کی پھانسی کے خلاف قرارداد کو بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں کھُلی مداخلت قرار دیکر مسترد کردیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان کی حکومت بنگلہ دیش میں سیاسی مداخلت سے باز نہ آئی تو بنگلہ دیش پاکستان کے 195فوجیوں پر 71کی جنگ میں جنگی جرائم کے تحت مقدمات چلانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے جہاں میں نے پاکستانی پارلیمنٹ کی قرار داد کو نامناسب قرار دیا وہاں بنگلہ دیشی حکومت سے یہ درخواست بھی کی کہ وہ چالیس سالہ پرانے گڑے مردے نہ اکھاڑے کیونکہ اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا بلکہ کشیدگی بڑھے گی کیونکہ دونوں ممالک کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ 71میں جو کچھ ہوا۔ اُن ملکوں کے عوام کا کوئی قصور نہیں تھا۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے فوراً بعد جب ذوالفقار علی بھٹو وہاں گئے تو عوام نے ان کا گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا۔ یہی نہیں بنگلہ دیش جانے والا ہر پاکستانی وہاں کے عوام کی خصوصی محبت اور خلوص سے متاثر ہوتا ہے۔ اس کانفرنس کے اعلامیے میں بھارت کے پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ دریائوں کے پانی کے مسئلے کو سیاست سے زیادہ انسانیت کی بنیاد پر حل کرنے پر زور دیا گیا۔ اور دونوں حکومتوں سے درخواست کی گئی کہ وہ ویزوں کے اجراء کی پالیسی میں نرمی اختیار کریں اور کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور کو بات چیت سے حل کیا جائے اور میڈیا کے ذریعے جنگی جنون پیدا کرنے سے احتزاز کیا جائے اس کے علاوہ ایک زبردست تجویز پیش کی گئی کہ واہگہ اور اٹاری پر پاک بھارت سرحد پر جھنڈا اتارنے کی رسم میں جس طرح دونوں طرف کے فوجیوں کی طرف سے دشمنی اور غصّے کا اظہار ختم کیا جائے۔ اس کی بجائے ایک بہت اچھی تجویز یہ پیش کی گئی کہ اس جگہ پر اس کی بجائے دونوں طرف کے عوام کو بغیر ویزے کے ایک دوسرے سے ملنے کا موقع دیا جائے۔ تاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کا اظہار کر سکیں ۔ دوسرے مرحلے میں بارڈر پر ایک ڈیوٹی فری زون قائم کیا جائے جہاں دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کی مصنوعات خرید سکیں اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ قائم کر سکیں۔ کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں اس امید کا بھی اظہار کیا گیا کہ اگر یورپ میں صدیوں تک ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار رہنے والے ممالک یورپی یونین کی شکل میں ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں تو اس خطے کے ممالک خصوصاً پاکستان اور بھارت ایسا کیوں نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ ان ممالک میں اندرونی طور پر تشدّد کو ختم کرنے کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ سرحدوں پر دشمنوں کی بجائے دوستوں کی پہرےداری ہو خدا کرے کہ اس خطے کے ممالک کی حکومتیں عوامی جذبات کا احترام کرتے ہوئے ان تجاویز پر ٹھنڈے دل سے غور کریں تاکہ امن اور محبت کو عمل کرنے کا حقیقی موقع فراہم کیا جاسکے۔
تازہ ترین