• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے
وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر ہو گئیں
ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ ویرانے گئے
آج پھر جنرل پرویز مشرف کی عدالت میں پیشی تھی اور آج ان کے وکلا کی طرف سے عدالت پر اعتراضات کی درخواست پیش ہوئی اور مشرف پیش نہیں ہوئے اس پر مجھے خاطر غزنوی کے مندرجہ بالا اشعار یاد آئے اسی غزل کا ایک شعر بہت مشہور ہے پیش خدمت ہے۔
گو ذرا سی بات پر برسوںکے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
جب کسی شخص پر جو کہ اعلیٰ عہدوں پر کام کر چکا ہو برا وقت آ جائے تو اس وقت اسے بہت جلد دوست اور دشمن کی پہچان ہو جاتی ہے۔ پرویز مشرف انتہائی ذہین آدمی ہیں اور ان حالات کا مقابلہ دل کی بیماری میں کررہے ہیں یقیناً انہیں بھی اب تک اچھے اور برے کی پہچان ہو گئی ہوگی۔ میری رائے میں مشرف صاحب کو آج عدالت میں پیش ہوجانا چاہئے تھا اور عدالت میں پیش ہونے کے بعد یہ اعتراضات اٹھانا تھا کہ ان کی تسلی موجودہ بینچ(Bench)سے نہیں ہے تو ایسی صورت میں جج صاحبان کے لئے بھی فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا اور میڈیا پر ہونے والی چہ مگوئیاں بھی تھم جاتیں بہرحال ان کا کیسں قابل اور ماہر وکلاء کے ہاتھوں میں ہے اس لئے ان کے وکلاء بہتر جانتے ہیں کہ کیا چیز ان کے لئے مفید ہے دوا سے فائدہ ہو گا یا ہو گا زہر قاتل سے ۔ مرض کی ہے دوا کیا کوئی بیمار جانے؟ اس کیس کے چلنے کا طریقہ بالکل وہی ہے جو کہ فوجداری کیس میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ265کے تحت ہوتا ہے پہلے دفعہ 265cکے تحت ملزم کو تمام شہادتوں کی جو کہ استغاثہ نے جمع کی ہوتی ہیں نقول فراہم کی جاتی ہیں۔ اسکے سات دن کے بعد دفعہ 265-Dضابطہ فوجداری کے تحت چارج فریم ہوتا ہے جسے فرد جرم کا عائد کرنا کہتے ہیں یہ ایک عام سی بات ہے اس کا مقصد ملزم کو ے یا اقرار کرے۔بہت سے وکلا اس اسٹیج پر درخواست 265-D کے تحت لگاتے ہیں کہ چارج بنتا ہی نہیں۔ اس درخواست کی سماعت ہوتی ہے اور آرڈر پاس ہوتا ہے۔ اگر چارج نہ بنتا ہو تو ملزم ڈسچارج ہو کر آزاد ہوجاتا ہے ورنہ اس پر فرد جرم عائد کردی جاتی ہے۔
پرویز مشرف اگر عدالت میں پیش ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طرح فضول میں ہونے والی نیگیٹو پبلسٹی رک جائے گی۔ جہاں تک مقدمے کا تعلق ہے تو وہ میرٹ پر چلے گا اور میرٹ پر مشرف کا کیس بہت اچھا ہے۔ ایمرجنسی لگانے کا فیصلہ حکومتیں خود کرتی ہیں اور یہ کسی سے پوچھ کر نہیں کرتیں۔ بھٹو صاحب نے 1973 میں آئین کے پاس ہونے کے فوراً بعد ایمرجنسی نافذ کردی تھی اور بنیادی حقوق جوکہ آئین میں دیئے ہوئے تھے ایک دن بعد ہی معطل ہوگئے تھے۔ ان پر تو کسی نے غداری کا مقدمہ نہیں چلایا۔ ضیاء الحق مرحوم نے 1977ء میں منتخب اسمبلیوں کو توڑا اور حکومت پر قبضہ کرکے 11سال تک اس ملک پر حکمرانی کی اور پھر اس ملک کو مرنے سے پہلے نئے حکمران بھی دے گئے جو آج تک ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور حکومت کررہے ہیں۔ اب وہ طالبان سے مذاکرات کی آڑ میں اس ملک میں شریعت کا وہی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں جس کا خواب وہ برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے دوست منظور وسان کے خواب تو پورے ہوجاتے ہیں مگر ان کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔ اس دفعہ مسئلہ گھمبیر ہے اور ڈر ہے کہ خواب پورے ہونے سے پہلے ہی آنکھ نہ کھل جائے یا سویرا ہوجائے۔ عوام آج کل بہت مایوسی کا شکار ہیں۔ کراچی میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ رینجرز کے ہاتھ میں ہے مگر عدالتیں دیوانی ہیں۔ اگر عدالتیں بھی فوجی ہوجائیں تو پھر رینجرز کام آسان ہوجائے۔ بہرحال میں نے تو کئی مرتبہ اپنے کالموں کے ذریعے اور ٹاک شو میں فوجی عدالتیں اور سمری کورٹ قائم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ابھی سننے میں آیا ہے کہ تقریباً 15ہزار لوگ گرفتار ہوئے مگر ان کے رکھنے کے لئے نہ تو کوئی خصوصی جیل ہے نہ ہی ان کو عدالتوں میں پیش کرنے کے لئے کوئی اضافی یا خصوصی ٹرانسپورٹ فراہم کی گئی ہے۔ وہ کیسے اور کہاں نظربند رہیں گے اور کب تک ان کو عدالتوں میں کب اور کیسے لایا جائے گا اور آپریشن میں گرفتار ہونے والوں کے مقدمات کے فیصلے کب ہوں گے اور ان کے لواحقین سے کب اور کیسے ملوایا جائے گا۔ یہ تمام سوالات غور طلب ہیں اور حکومت سے جواب مانگتے ہیں۔ آخر میں احمد ندیم قاسمی کا شعر پیش کرتا ہوں۔
چارہ گر، آج ستاروں کی قسم کھا کے بتا
کس نے انساں کو تبسم کے لئے ترسایا
تازہ ترین