• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں قیام امن کے لئے حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل تقریباً ایک عشرے سے جاری خوں ریزی کے بعد شروع ہوا ہے۔لہٰذاپوری قوم کی آرزو ہے کہ یہ عمل جلد کامیابی کی منزل تک پہنچے ، امن وامان پوری طرح اور پائیدار بنیادوں پر بحال ہو، قومی تعمیر و ترقی کے راستے کی رکاوٹیں دور ہوں اور یہ ملک جن اعلیٰ اقدار کی ترویج اور جن عظیم مقاصد کے لئے قائم کیا گیا تھا وہ عملی حقیقت کی شکل اختیار کرسکیں۔ باہمی اختلافات کو طاقت کے بجائے بات چیت سے حل کرنے کا فیصلہ گزشتہ ستمبر میں مسلم لیگ (ن) کی موجودہ وفاقی حکومت کی جانب سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میںملک کی پوری سیاسی اور عسکری قیادت نے متفقہ طور پر کیا تھا۔ اس سے پہلے پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں کی مخلوط حکومت میں بھی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے شمالی علاقوں میں فوجی کارروائی بند کرکے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی قرارداد مکمل اتفاق رائے سے منظور کی تھی ۔ لہٰذا اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ پوری قوم کا اجتماعی فیصلہ ہے اور اس کے خلاف سنائی دینے والی اکا دکا آوازوں کی حیثیت انفرادی رائے سے زیادہ نہیں۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ مذاکرات کے ذریعے اختلافات کے خاتمے اور امن کے قیام کی منزل کے حاصل ہوجانے میں سب کی بہتری ہے۔ اس کے مقابلے میں فوجی آپریشن کا راستہ سنگین خطرات سے بھرا ہوا ہے۔ اسی لئے پوری دنیا میں طاقت کے بجائے بات چیت سے اختلافات کو حل کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس لئے ملک میں قیام امن کے لئے شروع ہونے والے موجودہ مذکراتی عمل کو دونوں جانب سے حتمی کامیابی کی منزل تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے۔ جذباتی رویوں ، جلد بازی اور مشتعل مزاجی سے قطعی گریز کیا جانا چاہئے ۔یہ بات باعث اطمینان ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے مذاکرات کی سمت کو درست اور حکومتی کمیٹی کو پوری طرح بااختیار قرار دیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی حقیقت کے مطابق ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور فرقہ واریت سابقہ ادوار کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔ اس تناظر میں بات چیت کے لئے سازگار ماحول کی تشکیل کی فریقین اور پوری قوم کی جانب سے قدر کی جانی چاہئے اور کوئی بھی ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جس سے مذکرات میں رکاوٹ پیدا ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے اور کسی بھی جانب سے ناقابل عمل مطالبات نہ کیے جائیں۔ طالبان کی نمائندہ کمیٹی کے رکن مولانا عبدالعزیز کی جانب سے ملک کے آئین کو غیر اسلامی قرار دیا جانا اور اپنے موقف کے مطابق نفاذ شریعت پر اصرار، خود طالبان کا مطالبہ بھی نہیں تھا۔تاہم اس کے نتیجے میں بات چیت کے عمل میں ابتداء ہی میں رخنہ پڑگیا جسے سلجھانے کے لئے ثالثی کمیٹی کو وزیرستان جانا پڑا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ تمام دینی مکاتب فکر کی سیاسی جماعتیں اسی آئین کے تحت انتخابات میں حصہ لیتی اور پارلیمنٹ کا حصہ بنتی چلی آرہی ہیں۔ بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے آئین میں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن اس کا راستہ بھی آئین ہی میں موجود ہے۔ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی آئین کی رو سے ممنوع ہے جبکہ کوئی بھی شہری کسی بھی ایسے قانون کو جواس کی نظر میںاسلام کے منافی ہو ، شریعت عدالت میں چیلنج کرسکتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی جیسے جید اور تمام مکاتب فکر میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے والے عالم دین طویل مدت تک شرعی عدالت کے جج رہے ہیں اور حال ہی میں انہیں اسٹیٹ بینک کا ڈپٹی گورنر مقرر کیا گیا ہے تاکہ ملک کو سودی نظام سے پاک کرنے کے لئے پیش رفت تیز کی جاسکے۔یہ شواہد ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کی منزل مکمل نفاذ شریعت ہے جس کا طریق کار متفقہ آئین میں طے کردیا گیا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے چیلنج سے نکال کر ہی اس منزل کی جانب پیش قدمی تیز کی جاسکتی ہے۔ اس لئے قیام امن کے لئے جاری کوششوں کو کامیاب بنانے اور مذاکرات کی گاڑی کو منزل تک پہنچانے کی دونوں جانب سے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے اور ایسے ہر عمل، تبصرے اور اقدام سے مکمل اجتناب کرنا چاہئےجو مذاکرات پر منفی اثر ڈالنے کا سبب بن سکتا ہو۔

یہ کرکٹ نہیں ہے
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اپنے 10رکن ممالک میں سے 8کے وو ٹ حاصل کرنے کے بعد اپنے انتظامی ڈھانچے میں وسیع تر اہمیت کی تبدیلیاں کرنے کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد آسٹریلیا، انگلینڈ اور بھارت اس کے مستقل رکن ہو نگے اور آئی سی سی کے باقی سات ممبرز مل کر چوتھا رکن منتخب کریں گے اور یوں بگ تھری کو نہ صرف اس عالمی کھیل کے انتظامی امور و معاملات پر غیر معمولی کنٹرول حاصل ہو گا بلکہ اس سے ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ بھی انہی کو ہی ملے گا ۔سنگا پور میں ہونے والے اس اجلاس میںپاکستان اور سری لنکا اس منصوبے کی اصولی مخالفت پر ڈٹے رہے اور انہوں نے آئی سی سی کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں ہونے والی رائے شماری میں بھی حصہ نہیں لیا لیکن عین آخری لمحات میں جنوبی افریقہ کی جانب سے ان کا ساتھ چھوڑ کر بھارت سے مل جانے کے باعث بگ تھری کا منصوبہ نہایت آسانی کے ساتھ کامیابی کی منزل تک پہنچ گیا ۔اوائل میں بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ دونوں نے بگ تھری کے منصوبے کی مخالفت کا عندیہ دیا تھا لیکن پھر یکے بعد دیگرے انہوں نے بھی اصلاحاتی منصوبے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ پاکستان اور سری لنکا نے اگرچہ اس ڈرافٹ کا جائزہ لینے کے لئے جون تک کا وقت مانگ لیا ہے لیکن امکان غالب یہ ہے کہ چونکہ آئی سی سی کی گورننگ باڈی کے تجارتی معاہدات میں تینوں بڑے ممالک کا حصہ زیادہ ہو گا اس لئے لامحالہ وہ آمدنی کے بڑے حصہ کے حق داربھی ہونگے اور کرکٹ سیریز کا آئندہ جو بھی ماڈل تشکیل دیا جائے گا اس میں انہی کی مرضی سے یہ طے پائے گا کہ وہ کونسے ممالک کی ٹیموں کو کھیلنے کا موقع دیں گے۔اگرچہ پی سی بی کے چیئرمین اب بھی پرامید ہے کہ اس سے پاکستان کرکٹ پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا لیکن بگ تھری میں سیاست کا اس طرح در آنا اور بھارت کا آئی سی سی میںغیر معمولی اہمیت حاصل کرنا صرف پاکستان نہیں بلکہ کرکٹ کے حق میں بھی نہیں ہو گا کرکٹ تو شفافیت غیر جانبداری کا نام ہے لیکن بگ تھری کے فیصلے سےاس کھیل میں نہ صرف پیسہ بلکہ جانبداری کا تاثر ابھرا ہے اس طرح یہ عالمی کھیل سیاست کی نذر ہو جائے گا۔

پاک سعودی تعاون
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعلقات اور بڑھائیں گے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات دیرینہ اور مثالی ہیں۔جنگ ہو یا امن، زلزلہ سیلاب ہو یا کوئی قدرتی آفت سعودیہ نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ نبھایا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے عوام یک جان دوقالب ہیں اور دونوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔کسی بھی مشکل صورت حال میں سب سے پہلے سعودی عرب ہی پاکستان کی مدد کے لئے آیا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی سعودی عرب کے ساتھ بہترین تعلقات کے خواہاں ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز کے اعزاز میں ایک تقریب سے خطاب کر رہےتھے اس موقع پر شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعیز نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تاریخی تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام آئے وہ وقت دور نہیں جب پاکستان انشااللہ ایک عظیم ملک ہو گا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان انتہائی قریبی تعلقات ہیں اور سعودی عرب نے ہمیشہ کڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ ہی نہیں دیا بلکہ امداد و تعاون بھی کیا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعلقات بھی ہیں اور پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے گزشتہ دنوں سعودی عرب کے دورہ میں دفاعی معاہدوں کو حتمی شکل دی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں برادر ملکوں کے درمیان انتہائی قریبی روابط ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے ہر شعبہ میں تعاون کرتے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان کو تیل مہیا کرتا ہےاور اس کے علاوہ پاکستان میں توانائی ،زرعی اور صنعتی شعبوں میں بھی اشتراک عمل کو مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو بڑھانے کے لئے اعلیٰ حکام پر مشتمل ایک پاک سعودی کمیشن قائم کیا جائے جس میں صنعت و تجارت کے نمائندے بھی شامل ہوں تاکہ اقتصادی اور تجارتی تعاون کو اور مضبوط و مستحکم بنایا جاسکے۔
تازہ ترین