• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اس وقت عملاً مشکل اقتصادی حالات سے دو چار ہے لیکن سیاسی طور پر اسے ان حالات کا سامنا نہیں ہے جو سابق حکومت یعنی آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی کو دو چار تھے۔ اس وقت مسلم لیگ(ن) ،میڈیا ،عدلیہ، بیوروکریسی، حتیٰ کہ فوج اور حساس اداروں کے نزدیک اقتصادی بدانتظامی کا ذمہ دار اس حکومت کو قرار دیتے تھے اس میں کوئی شبہ والی گنجائش بھی نہیں تھی۔ بہرحال پاکستان میں سرمایہ کار یا بزنس مین درست آچکی ہے، جسے تقریباً انہی چیلنجوں کا سامنا ہے جس سے پاکستان پچھلے دس پندرہ سال سے دو چار چلا آرہا ہے، یعنی توانائی کا بحران، دہشت گردی، بے روزگاری ،معاشی سرگرمیوں میں سست روی اور سب سے بڑھ کر مہنگائی کا طوفان ۔ یہ سب مسائل چلے آرہے ہیں اور حکومت جتنے مرضی دعوے کرے یہ چلتے رہیں گے۔ اس لئے حالات کا تقاضا ہے کہ پہلی ترجیح توانائی کے بحران کے حل پر دی جائے جس کے تحت عوام اور کاروباری طبقہ کو سستی بجلی اور گیس بھی ملے اور اس کی قلت بھی نہ ہو، اس کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں کی بدانتظامی روکنے کیلئے موثر قوانین بنانے پر توجہ دی جائے۔ پاکستان الحمد للہ اربوں ڈالر کے وسائل سے مالا مال ملک ہے صرف انہیں قومی مفادات اور ضروریات کے تحت صحیح استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا ملک میں امن کے قیام اور سیکورٹی کے حالات میں بہتری ضروری ہے۔ خدا کرے اس سلسلہ میں حکومت اور طالبان کی کمیٹیاں کسی نتیجہ خیز مرحلہ پر پہنچ جائیں ورنہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معاملات دونوں کے ہاتھ سے نکل جائیں اور ملک خانہ جنگی کی صورتحال سے دو چار ہوجائے اور افغانستان کے حالات کا پاکستان پر بھی اثر پڑنا شروع ہوجائے ۔ایسی صورتحال میں سب سے زیادہ خوش بھارت ہوگا جس سے ہمارے حکمران بے چین ہوئے جارہے ہیں کہ کسی طرح اس سے معاملات دوستی آگے بڑھ جائیں۔ کاش! انہیں ہندو بنئے کی ذہینت کا اندازہ ہوجائے، وہاں اپریل کے بعد اگر مودی اینڈ کمپنی کی حکومت آگئی تو پاکستان کے خلاف ان کی طرف سے ایک نئی نفسیاتی جنگ شروع ہوسکتی ہے جس کے تحت ساری دنیا میں پاکستان کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے اور اندرون ملک امن و امان کے حوالے سے خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ایسے حالات کی نشاندہی مختلف بین الاقوامی ماہرین بھی کررہے ہیں تاہم اندرون ملک حکومت اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی کے لئے کچھ نہ کچھ تو کررہی ہے۔ اس حوالے سے توقع کی جاسکتی ہے کہ سال رواں کی آخری سہ ماہی میں اقتصادی حالات میں کچھ بہتری ہوسکتی ہے۔ وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق اس عرصہ میں ہماری جی ڈی پی گروتھ5 فیصد سے5. 5فیصد متوقع ہے جو کہ اس وقت 2.8فیصد سے3 فیصد ہے۔ آئی ایم ایف کے حکام پہلی بار پاکستان کو گروتھ بڑھانے کا لیکچر نہیں دے رہے بلکہ وہ معاشی استحکام پر زور دے رہے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے مگر سوچنا یہ ہے کہ یہ استحکام کیسے آئیگا۔ یہ ہمارے وزراء کی لمبی لمبی تقاریر سے نہیں، عملی طور پر صنعتی و کاروباری شعبہ کے مسائل حل کرنے سے آسکتا ہے۔ اس وقت تو حال یہ ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی وجہ سے نوجوانوں میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے رجحانات بڑھ رہے ہیں۔ معاشرے میں برداشت کی حد ختم ہوتی جارہی ہے۔ اقتصادی ترقی کے جو خواب عوام نے دیکھے تھے وہ فوری طور پر پورے ہوتے نظر بھی نہیں آرہے ۔حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ چند ماہ کے بعد ادائیگیوں کا توازن بہتر ہوجائیگا۔ زرمبادلہ کے ذخائر کی صورتحال بھی جولائی کے بعد بہتر ہوناشروع ہوجائے گی۔حکومت کو توقع ہے کہ مختلف قومی اداروں کی نج کاری سے800 ملین ڈالر اور3جی لائنوں کے اجراء سے1200 ملین ڈالر اور کولیشن سپورٹ فنڈ سے900 ملین ڈالر مل جائیں گے۔ خداکرے یہ سب کچھ ا یسے ہی ہوجائے، مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ یہ سب ہدف پورے کرنے یا ہونے آسان نہیں ہے، اگر یہ سب کچھ ’’مثبت‘‘ نہ ہوا تو پھر آئی ایم ایف کے پروگرام کے مطابق مالی اور اقتصادی مشکلات بڑھ سکتی ہیں جس سے افراط زر بڑھنے سے روپے کی قیمت کاکمی کی طرف رجحان بڑھ سکتا ہے۔ اس رجحان کو کب تک ہم مصنوعی طریقے سے روکے رکھیں گے۔ مالیاتی ادارے اور کاروباری دنیا جانتی ہے کہ ڈالر کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور مستقبل قریب میں کیا ہونے والا ہے۔
اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریOICCIکے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں کئی مشکلات اور مسائل کی وجہ سے ایف ڈی آئی کم ہورہی ہے جو کہ اب ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہے جبکہ یہاں8 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں۔ بھارت میں پچھلے سال غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم30 ارب ڈالر، چین100 ارب ڈالر سے زائد اور ویت نام میں23 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ سروے کے مطابق پاکستان میں سیکورٹی اور انرجی کے چیلنجوں کو حل کرنا از حد ضروری ہے ،اس سروے میں ایک دلچسپ بات پاک بھارت تجارتی تعلقات کے حوالے سے کہی گئی ہے کہ2011ء میں61 فیصد افراد(کاروباری لوگ) پاک بھارت تجارت کے حق میں تھے۔2013ء میں یہ43 فیصد رہ گئے ہیں۔2011ء میں ایم ایف این کے حق میں38 فیصد افراد تھے جو اب25 فیصد رہ گئے ہیں۔ بزنس کی سہولتوں کے حوالے سے بھارت کی نسبت پاکستان بہتر ملک ہے۔ بشرطیکہ یہاں امن ہوجائے اس کے لئے ہمارے قومی ادارے فوج، پارلیمنٹ اور عوام سب ایک ہیں۔ باقی سیاسی اور دینی جماعتوں میں اس کی کچھ چیزوں پر اختلاف ہے جو صحت مند رجحان کی علامت ہوتا ہے مگر گھوم پھر کے سب یہی چاہتے ہیں کہ امن ہوگا تو روشنی پھیلے گی ورنہ اندھیرے بڑھتے ہی چلے جائینگے۔ خداکرے اندھیرے نہیں، روشنی کی کرنیں بڑھتی جائیں۔
تازہ ترین