• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کہاوت مجھے پہلی دفعہ سمجھ میں آئی ‘ بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ!
ایڈورٹائزنگ یعنی تشہیر گیری اب آرٹ سے سائنس میں بدل چکی ہے۔ تشہیر گیری میرا ایجاد کردہ انگریزی لفظ ایڈورٹائزنگ کا اردو میں نعم البدل ہے، مقتدرہ قومی زبان والے نوٹ کرلیں اور مجھے کچھ نوٹ بھیج دیں۔ ایڈورٹائزر یعنی تشہیر کرنے والے،پبلسٹی کرنے والے اداروں کے پاس ایسی جادوگری ہے کہ وہ آپ کی گندی نالی کے پتھر کو ہیرے کے بھائو بکوا سکتے ہیں۔ وہ ایڈورٹائزنگ کے ذریعے نالائق کو لائق بنا کر آپ کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔ بونگے کو دانشور بنا سکتے ہیں۔ دیدہ وروں کی دنیا میں ایڈورٹائزر ایک نابینا کو دوررس نگاہ رکھنے والا ثابت کر سکتے ہیں ان کی تشہیر کے طلسم میں آکر آپ پچکی ہوئی ناشپاتی کو سیب سمجھ کر کھا جاتے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیںہے، کہتے تھے ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اب یہ بات پرانی ہو چکی ہے۔ اب ایجاد پہلے ہوتی ہے اور ایجاد کردہ چیز کیلئے Demand یعنی ضرورت مانگ بعد میں پیدا کی جاتی ہے۔
ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے بنگلور میں بناسپتی گھی کی فیکٹری لگی تھی یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ خالص گھی مکھن یا پھر سرسوں اور کھوپرے یعنی ناریل کے تیل میں کھانا پکاتے تھے۔ بناسپتی گھی کیلئے Demand ، مانگ، طلب پیدا کرنے کے لئے ایڈورٹائزرز نے برصغیر میں بھرپور مہم چلائی تھی۔ اس مہم کے ابتدائی مرحلوں میں اشتہاری ادارے بناسپتی گھی کا نام تک نہیں لیتے تھے، وہ اپنے اشتہاروں میں خالص گھی، مکھن اور سرسوں اور کھوپرے کے تیل کی مضر صحت خامیاں بھرپور طریقے سے اجاگر کرتے تھے۔ خالص گھی اور مکھن کھانے سے انسان دل کے امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے، اس کا ہارٹ فیل ہو سکتا ہے، وہ اپنا دماغی توازن کھو سکتا ہے،خالص گھی اور مکھن کھانے سے فالج ہو سکتا ہے، بینائی جاتی رہتی ہے، آپ اونچا سننے لگتے ہیں اور کچھ عرصے بعد آپ کچھ نہیں سنتے۔ اسی طرح سرسوں کا تیل اور کھوپرے کا تیل کھانے سے پھیپھڑوں کی بیماریاں انسان کو گھیر لیتی ہیں،اسے دمے کی بیماری لگ سکتی ہے، وہ آخر کار تپ دق میں مبتلا ہو کرکسی سینی ٹوریم کے بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ دیتا ہے۔ ایسی بھیانک باتیں اشتہاروں میں پڑھنے کے بعد لوگ خالص گھی، مکھن، سرسوں اور کھوپرے کے تیل سے گریز کرنے لگے۔ ان کا مسئلہ تھا کہ آخر کھانا پکائیں تو کس چکناہٹ سے پکائیں؟ کچھ عرصے تک لوگوں کو ذہنی جھنجھلاہٹ میں مبتلا کرنے کے بعد ایڈورٹائزرز نے بناسپتی گھی کی پبلسٹی شروع کردی۔ کیا آپ پریشان ہیں کہ کھانا کس چکناہٹ سے پکائیں؟ پریشان ہونا چھوڑ دیجئے، کھانا صحت کے ضامن بناسپتی گھی میں پکائیں جو کھانوں کا ذائقہ دوبالا کر دیتا ہے۔
اسی طرح کتابوں اور کتاب لکھنے والے یعنی ادیبوں کی پبلسٹی ہوتی ہے۔ پڑھنے والوں میں تجسس پیدا کیا جاتا ہے۔ ان کو کتاب کے شائع ہونے کے انتظار میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ ایڈورٹائزرز نے ڈکٹیٹر مشرف کو بحیثیت مصنف متعارف کرانے کے لئے زبردست اشتہاری مہم چلائی تھی۔ جنرل مشرف ایک معرکۃ آرا خود نوشت لکھ رہے ہیں۔ اس کتاب میں ایسے ایسے انکشافات ہوں گے کہ پڑھنے کے بعد آپ دنگ رہ جائیں گے۔ اس سے اعلیٰ آٹو بایو گرافی آپ نے کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔لاکھوں،کروڑوں اربوں کی سرمایہ کاری ہوتی ہے پلسٹی اور ایڈورٹائزنگ کے بزنس میں سلمان رشدی کے پبلشر نے خوب بڑھا چڑھا کر تشہیر کر دی کہ سلمان رشدی دور دراز کی تنہائیوں میں ایک ایسا ناول لکھ رہے ہیں جو شائع ہونے کے بعد دنیا کو ہلا کررکھ دے گا۔ ایک سال تک لگاتا پبلسٹی کا اثر سر چڑھ کر بولا۔ کتاب شائع ہونے سے پہلے لوگوں نے بھاری قیمت میں کتاب کی کاپی محفوظ کرالی۔چھپ کر پڑھنے والوں تک پہنچی تو پتہ چلا کہ ایک اچھے لکھنے والے نے معمولی نوعیت کی سنسنی خیز کتاب لکھی تھی جو رشدی کی اپنی کتاب مڈنائٹ چلڈرن کے مقابلے میں کمتر تھی مگر غیر معمولی پبلسٹی کی وجہ سے ایک معمولی نوعیت کی کتاب نے ریکارڈ توڑ بزنس کیا۔
صنعتی اداروں کے علاوہ فنکار یعنی ایکٹر اور سیاستدان بھی اپنے ایڈورٹائزر رکھتے ہیں جو ان کو ہمیشہ پبلسٹی یعنی تشہیر دیتے رہتے ہیں کچھ سیاستدان اپنے میڈیا ایڈورٹائزر رکھتے ہیں جو ان کو کیمرے کےسامنے بولنے،ہاتھ پیرہلانے یعنی Body Language کی تربیت دیتے ہیں۔ لباس سے لے کر ان کے ہیئر اسٹائل اور فیشل یعنی شکل صورت کے بنائو سنگار کا خیال رکھتے ہیں۔ آصف زرداری کا ولی عہد بلاول زرداری آج کل مہم جو ایڈورٹائزرز کے نرغے میں ہے جنہوں نے جنرل یحییٰ جیسے دبنگ کو چکراکر رکھ دیا تھا اور وہ پاگل ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔ اس کے میڈیا ایڈوائزرز کی ٹیم اب تک فیصلہ نہیں پائی کہ بلاول زرداری کو ذوالفقار علی بھٹو کا روپ دیا جائے یا بے نظیر بھٹو کا۔ غور سے دیکھیں تو بلاول اپنی شکل و صورت سے اپنے نانا حاکم علی زرداری جیسا لگتا ہے۔ قد وقامت میں، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے بات چیت میں بلاول اپنی ماں بے نظیر جیسا لگتا ہے۔ اپنے مہم جو میڈیا ایڈوائزرز کی ہدایات پر وہ جب منہ پھاڑکر جیسے بھٹو کا نعرہ لگاتا ہے تب اس کے دکھانے اور کھانے کے دانت واضح طور پر نظر آتے ہیں۔کھانے کے دانتوں سے مراد ہے داڑھیں۔ بلاول کی داڑھوں میں ابھی عقل داڑھ دکھائی نہیں دیتی۔سنا ہے کہ دو عدد عقل داڑھ اس کے منہ میں لگوانا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس کام کیلئے مہم جوایڈورٹائرز اسے چین لے جائیں۔ تب بلاول کو پتہ چلےگا کہ وہ زرداری ہے،زرداری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
مہم جو میڈیا ایڈوائزرز کی یہ بات سمجھ میں آگئی کہ انہوں نے صدر مملکت اور وزیراعظم جیسا حلیہ اور لباس دیکر بلاول کو اشتہاری ویڈیو میں بٹھا دیا تھا۔ بٹھانے والوں نے اس کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ وہ چاہے کام کا ہو نہ کاج کا، پھر بھی اسے ہر حال میں ملک کا صدر یا وزیراعظم بننا ہے۔ پاکستان کو سیاستدانوں کی موروثی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ مہم جو میڈیا ایڈوائزرز کی یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی کہ بیچارے بلاول کو انہوں نےثقافت میں کیسے دھکیل دیا جب کہ اس بیچارے کو پاکستان میں بولی جانے والی کوئی زبان ٹھیک سے بولنی نہیں آتی چاہے وہ اردو ہو، سندھی ہو،پنجابی ہو، پشتو ہو! ڈسکو دیوانوں کاکیا کام پاکستانی کلچر سے؟ ابھی ابھی بچو بھائی نے مجھے بتایا ہے کہ کلچر کے نام پر یہ بلاول کا ملک گیر اور بیرون ملک تعارف تھا، جس پر سندھ حکومت نے ایک سو ستر کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔
تازہ ترین