• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کیسی بے حسی اور سماجی لاتعلقی ہے کہ جب کوئی اہم شخص جدا ہوتا ہے تو اس پر دکھ کے دو بول بھی ادا نہیں کئے جاتے۔ مرنے والا تو چلا گیا کوئی تعزیت کرے نہ کرے، اس کی یاد میں غم و دکھ کا اظہار کرے نہ کرے اسے تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس بے حسی اور لاتعلقی سے ہمارے سماجی رویوں کا اظہار تو ہوتا ہے۔ جمعرات کو چوہدری فضل حق انتقال کر گئے ۔ وہ عام آدمی تو نہ تھے انسپکٹر جنرل پولیس، وفاقی سیکرٹری داخلہ اور بے نظیر بھٹو دور میں وزیراعظم کے مشیر رہے۔ وہ بڑے نام والے کالم نگار، بڑے پائے کے نعت گو اور شاعر تھے۔ ان کے کئی کلام شائع ہوئے اور ایک منظوم ناول ’’کنول‘‘ نے بڑی شہرت پائی۔ اردو ادب میں اس کا اپنا ایک مقام ہے لیکن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے ان کی وفات کی خبر تک نہیں دی۔ اسلام آباد /راولپنڈی کی حد تک ان کی وفات کی خبر چھپی جبکہ جمعہ کو لاہور کے اخبارات میں ایک سطری خبر بھی نہیں تھی۔ جبکہ روزنامہ جنگ میں طویل مدت تک ’’گاہے گاہے باز خواں‘‘ کے عنوان سے ان کے کالم شائع ہوتے رہے۔ ان کا ایک اپنا انداز تھا۔ ’’مرشد گیسو دراز‘‘ ان کا ایک کردار تھا جس کے منہ سے وہ حکمرانِ وقت پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے اس کی بڑی دھوم رہی۔ مجھے یاد ہے کہ پنجاب اسمبلی کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پنجاب اسمبلی کے اجلاس خاص سے خطاب کرتے ہوئے صدر جنرل ضیاء الحق نے ان کے کالم کا حوالہ دیتے ہوئے انتہائی برہمی کا اظہار کیا تھا۔ وہ بڑے نیک نام افسر تھے اور فرض کی ادائیگی میں کبھی کوئی سفارش یا حکومتی دبائو قبول نہیں کیا۔ بھٹو دور میں کراچی میں ڈی آئی جی تھے کہ حاکم علی زرداری کے سینما کے حوالے سے شکایات ملیں تو کڑی نگرانی کا حکم دیا۔ اس وقت ممتاز علی بھٹو بڑے طاقتور سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے اور حاکم علی زرداری وزیراعظم بھٹو کے قریبی دوست۔ وزیر اعلیٰ نے فضل حق مرحوم سے ’’ہاتھ ہولا‘‘ رکھنے کی سفارش کی۔ بات وزیر اعظم تک جا پہنچی جس پر جناب بھٹو کا کہنا تھا کہ چوہدری فضل حق پولیس افسر ہی نہیں ہمارے دوست ہیں، ان کے کام میں مداخلت نہ کی جائے۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہے درست ہی ہو گا۔ وہ اچھے شاعر بھی تھے۔ ان کی نعتوں کے کئی مجموعے شائع ہوئے جن میں ’’نم صحرا‘‘، ’’آہنگ ِ حجاز‘‘، ’’محرم عرب‘‘ خاصے مشہور ہیں۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مدح میں ’’مثنوی مولا علیؓ‘‘ لکھی جو اپنی طرز کی پہلی منظوم کتاب ہے۔ ان کے کالموں کا مجموعہ ’’گاہے گاہے بازخواں‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوا۔ مسلم لیگ اور قائد اعظم علیہ الرحمۃ کی حمایت و تائید کے حوالے سے حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کا واقعہ بھی چوہدری فضل حق سے ہی منسوب ہے۔ میری ان سے نیازمندی تھی، بڑی محبت و شفقت فرمایا کرتے تھے۔ ابھی چند روز قبل میری ان سے دوبار فون پر بات ہوئی۔ رات کو تو وہ خاصی دیر تک مجھ سے باتیں کرتے رہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اب واپسی کا سفر آخری منزل تک آ گیا ہے ، تو کہنے لگے کہ میری عمر 92سال ہے لیکن میں تو مکمل طور پر ٹھیک ٹھاک ہوں’’تم ایسی باتیں نہ کیا کرو، یہ ناشکری کے زمرے میں آتی ہے‘‘ گزشتہ چند سالوں سے انہوں نے کالم لکھنا بند کر دیا تھا اور اب دوبارہ متحرک ہونا چاہتے تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کالم لکھیں ہم متمنی اور منتظر ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے جناب سہیل وڑائچ سے بھی بات کی۔ شفیق مرزا صاحب کو کئی کالم ایڈوانس بھی بھیج دیئے جس میں سے ایک چند روز قبل شائع ہوا اور ایک دو کالم اب بھی موجود ہیں۔
جمعرات کو ان کی طبیعت خراب ہوئی، ہسپتال لے جایا گیا تو معلوم ہوا کہ دل کا شدید دورہ پڑا تھا اور حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔ جناب فضل حق نے بھرپور زندگی گزاری۔ خوش پوشاک تھے اور بڑے متحرک رہے۔ باقاعدگی سے زمینوں پر جا کر کھیتی باڑی کی رکھوالی کیا کرتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور بھٹو خاندان سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ محترمہ بی بی شہید ان کا بڑا احترام کرتی تھیں اور اہم امور پر ان سے مشاورت بھی کرتی تھیں۔ 1988ء میں وزیر اعظم بننے کے بعد انہیں داخلہ امور کا مشیر بھی مقرر کیا۔ وہ پولیس میں سیاسی مداخلت کے خلاف تھے اور اس حوالے سے کئی اہم اقدامات بھی کئے۔ میں انہیں ’’بابا جی‘‘ کہتا تو قہقہہ لگاتے اور کہتے کہ ’’بابا تم ہو گے میں تو جوان ہوں‘‘۔ یہ بات اپنی جگہ ہر صورت درست ہے کہ وہ ملک کی تاریخ کے نہ صرف معتبر بلکہ تاریخ ساز شخصیت بھی تھے کہ ان کی موت سے ہم اپنے ایک بزرگ سے محروم ہو گئے ہیں۔ رب تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دے۔
تازہ ترین