• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں یہ کالم امریکی ریاست ایریزونا کے شہر فونیکس سے تحریر کررہا ہوں جہاں میک اے وش فائونڈیشن انٹرنیشنل کی سالانہ ’’وش لیڈر کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لئے آیا ہوا ہوں۔ کانفرنس میں پاکستان سمیت دنیا کے 55 ممبر ممالک کے ایک ہزار سے زائد مندوبین شرکت کررہے ہیں۔ دبئی سے لاس اینجلس کی 16 گھنٹے کی نان اسٹاپ فلائٹ اور پھر لاس اینجلس سے فونیکس کے لئے امریکی ایئر لائن کی 2 گھنٹے کی فلائٹ کے بعد جب میں فونیکس کے اسکائی ہاربر انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے باہر آیا تو شام ڈھل چکی تھی اور موسم انتہائی سرد تھا جبکہ میک اے وش فائونڈیشن امریکہ کے ارکان میرے نام کی تختی لئے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ ایئرپورٹ سے کانفرنس کے مقام تک دوران سفر مجھے وہ شام یاد آگئی جب 7 سال قبل اس عالمی ادارے کے پاکستان میں قیام کے لئے میک اے وش فائونڈیشن انٹرنیشنل امریکہ کے عہدیداروں سے ملاقات کے لئے یہاں آیا تھا۔ واضح ہو کہ میک اے وش فائونڈیشن انٹرنیشنل کا صدر دفتر فونیکس میں واقع ہے۔ 1980ء میں یہاں اس عالمی ادارے کا قیام اُس وقت عمل میں لایا گیا جب اس شہر سے تعلق رکھنے والے خون کے سرطان میں مبتلا 11 سالہ بچے کرس (Chris) کی پولیس مین بننے کی آخری خواہش کو اس کے والدین اور رضاکاروں کی ایک ٹیم نے مقامی پولیس کے تعاون سے پورا کیا۔ کرس کی خواہش کی تکمیل کے لئے اسے پولیس یونیفارم پہنائی گئی جبکہ پولیس کمشنر نے کرس کو پولیس کا بیج لگایا جس کے بعد اسے پولیس کی گاڑی میں شہر کا دورہ کرایا گیا اور پولیس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے سرٹیفکیٹ عطا کیا گیا۔ کرس زیادہ عرصے زندہ نہ رہ سکا مگر موت سے قبل وہ خوش تھا کہ اس کے پولیس مین بننے کی دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔
کرس کی موت کے بعد میک اے وش فائونڈیشن کے قیام کے لئے اس کے شہر فونیکس کو منتخب کیا گیا۔ آج میک اے وش فائونڈیشن دنیا میں لاعلاج بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کا سب سے بڑا عالمی ادارہ بن چکا ہے جو امریکہ سمیت دنیا کے 55 ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ مجھے جب اس ادارے کی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہی ہوئی تو میں اس کے منفرد مقصد (Cause) سے بہت متاثر ہوا اور اسے پاکستان میں متعارف کرانے کا فیصلہ کیا۔ میں وہ وقت کبھی نہیں بھول سکتا جب میں نے اس سلسلے میں امریکہ میں اس ادارے سے رابطہ کیا جن کا مجھے یہ جواب موصول ہوا کہ "Pakistan is not on our map" (پاکستان ہمارے نقشے میں نہیں ہے) لیکن میں نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور ادارے کے سربراہ سے وقت لے کر اُن سے ملاقات کے لئے فونیکس پہنچا۔ وہ شام بھی بڑی سرد تھی جب میں فائونڈیشن کے صدر دفتر پہنچا۔ میں نے فائونڈیشن کے عہدیداران کو پریذنٹیشن دیتے ہوئے بتایا کہ ’’آپ کے ادارے کی سرگرمیاں دنیا کے بیشتر ایسے امیر ممالک میں ہیں جہاں کے والدین کے لئے اپنے بچوں کی خواہشات کی تکمیل کرنا کوئی مشکل کام نہیں لیکن میں جس ملک سے آیا ہوں وہاں غربت کے ستائے کچھ ایسے والدین بھی ہیں جو اپنے مرتے ہوئے بچے کی ایک اچھی گڑیا یا کھلونے کی خواہش کو بھی پورا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ میں نے عہدیداران پر واضح کیا کہ میں اُن سے کسی مالی تعاون کا خواہشمند نہیں بلکہ مجھے صرف اُن کے تجربات سے استفادہ کرنا ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ پاکستان میں انفرادی طور پر سب سے زیادہ عطیات دیئے جاتے ہیں جن کے تعاون سے انشاء اللہ یہ ادارہ بہت جلد ایک کامیاب ادارہ بن جائے گا‘‘۔ میری پریذنٹیشن سے میک اے وش فائونڈیشن انٹرنیشنل کے عہدیداران کافی متاثر ہوئے جس کے بعد انہوں نے مجھے پاکستان میں میک اے وش فائونڈیشن کے قیام کی اجازت دے دی۔ مجھے خوشی ہے کہ آج میک اے وش فائونڈیشن پاکستان لاعلاج مرض میں مبتلا ہزاروں بچوں کی خواہشات کی تکمیل کرکے نہ صرف کامیاب ادارہ بن چکا ہے بلکہ اسے گزشتہ سال برازیل میں منعقدہ ’’وش لیڈر کانفرنس‘‘ میں "Best Affiliat Member" کے ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔
دوران سفر میں اپنے خیالات کی دنیا سے اس وقت واپس لوٹا جب میری گاڑی اس ہوٹل کے سامنے آکر رکی جہاں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔گاڑی سے اترتے ہی ہوٹل کے باہر لگے پرچموں کے درمیان پاکستان کا سبز ہلالی پرچم دیکھ کر میری تمام تھکاوٹ دور ہوگئی۔ میک اے وش فائونڈیشن انٹرنیشنل ہر سال مختلف ممالک میں ’’عالمی وش لیڈر کانفرنس‘‘ کا انعقاد کرتی ہے۔ میں اس سے قبل میک اے وش انٹرنیشنل کے زیر اہتمام منعقدہ 7 عالمی وش لیڈرز کانفرنسز میں شرکت کرچکا ہوں جن میں 2 امریکہ کے شہر اورلینڈو، آئرلینڈ، تائیوان، پرتگال، یونان اور گزشتہ سال برازیل میں منعقد کی گئی تھیں۔ 4 روزہ اس کانفرنس میں شریک مندوبین کو نہ صرف ایک دوسرے سے ملاقات کا موقع ملتا ہے بلکہ انہیں ایک دوسرے کے خیالات و تجربات سے آگاہی بھی ملتی ہے۔کانفرنس میں مختلف فلاحی تنظیموں اور بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیات کو لیکچرز کے لئے مدعو کیا جاتا ہے تاکہ ان کے تجربات سے استفادہ کیا جاسکے۔ کانفرنس کے ایک سیشن میں ممبر ممالک میں سال بھر میں لاعلاج بچوں کی پوری کی گئی آخری خواہشات کی تکمیل میں سے ایک منفرد وش کو ’’وش آف دی ایئر‘‘ کے طور پر منتخب کیا جاتا ہے جس کی فوٹیج شرکاء کو دکھائی جاتی ہے۔ واضح ہو کہ میک اے وش فائونڈیشن پاکستان کمسن سپاہی عبدالباسط کی ایک دن کے فوجی بننے کی منفرد خواہش کی تکمیل کرنے پر یہ اعزاز حاصل کرچکا ہے۔
اس بار تائیوان سے تعلق رکھنے والی خون کے کینسر میں مبتلا ایک 14 سالہ بچی کی وش کو ’’وش آف دی ایئر‘‘ قرار دیا گیا۔ بچی کی خواہش تھی کہ تنزانیہ کے ایک علاقے جہاں کے مقامی لوگوں کو میلوں دور سے پانی لانا پڑتا تھا، میں پانی کا ایک کنواں کھدوایا جائے۔ بچی کی اس خواہش کی تکمیل کے لئے ادارے نے ایک کنواں کھدواکر اس کے نام سے منسوب کیا جس سے علاقے کے سیکڑوں افراد مستفید ہورہے ہیں، بچی اگر چاہتی تو اپنے لئے کچھ بھی مانگ سکتی تھی مگر مرنے سے قبل اُس نے دوسروں کی تکلیف کا احساس کیا۔ کانفرنس کے دوران مندوبین کو میک اے وش کے صدر دفتر کا دورہ بھی کرایا گیا جس کے استقبالئے کی دیوار پر کرس کی تصویر کے ساتھ وہ یونیفارم بھی آویزاں تھی جو اُسے وش کی تکمیل کے وقت پہنائی گئی تھی۔ اس موقع پر میری ملاقات میک اے وش انٹرنیشنل کے بانی پولیس آفیسر مسٹر فرینک شانکویز سے ہوئی جنہوں نے کرس کی وش کی تکمیل میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، دوران ملاقات میں نے اُنہیں پاکستان آنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبو ل کرلی۔
7 سال قبل جب میں نے پاکستان میں میک اے وش فائونڈیشن کی بنیاد رکھی تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن اس ادارے کا شمار پاکستان کے سرفہرست فلاحی اداروں میں ہونے لگے گا اور یہ ادارہ ہزاروں بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کرکے ان کے خواب پورے کرے گا۔ میک اے وش پاکستان آج تک جن بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کرچکا ہے، اُن میں سے کئی بچے ہم میں موجود نہیں لیکن مجھے خوشی ہے کہ وہ بچے کوئی خواب لئے اس دنیا سے رخصت نہ ہوئے، ہم اُن بچوں کی زندگیوں میں اضافہ تو نہیں کرسکے مگر اُن کی زندگی کے بقایا دنوں میں خوشیاں ضرور لاسکے۔ قارئین سے میری درخواست ہے کہ میں نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے، اس میں مجھے آپ کا تعاون بھی درکار ہے۔ ہم اگر ہمیشہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنا پڑے گا اور ایسے کام کرنے ہوں گے جیسے تائیوان کی بچی نے کیا۔ اگر آج مخیر پاکستانی کسی لاعلاج بچے کی ایک وش کو پورا کرنے کا بیڑا اٹھالیں تو پاکستان میں کوئی لاعلاج بچہ کوئی خواہش یا خواب لئے اس دنیا سے رخصت نہ ہوگا۔
تازہ ترین