• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ دل گداز سانحہ اگر یورپ یا کسی اور متمدن ملک میں منظر عام پر آتا تو لوگوں کے ہوش اڑ جاتے ، انسانی حقوق کی تنظیموں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہوتا ۔ اخبارات کے صفحات میں اس کی تفصیلات اور تصویروں کی بھر مار ہوتی ، الیکٹرانک میڈیا اسے بار بار دکھاتا اور اس کے تمام پہلوئوں کی ہر زاویے سے تشہیر کر کے اپنے سیاسی و سماجی نظام کے خاکے اڑا رہا ہوتا ۔ مگر چونکہ اس کا تعلق پاکستان جیسے بے حال ملک اور اس کے پسماندہ ترین صوبے بلوچستان سے ہے جہاں خاک وخون کے مناظر عام ہیں لاشیں گر رہی ہیں اور خوف و دہشت کی حکمرانی ہے اس لئے جس نے اسے دیکھا پڑھا یا سنا ایک سرسری نظر ڈال کر آگے بڑھ گیا ۔ زخم خوردہ بلوچستان کے زخموں میں اس گہرے گھائو کااضافہ گزشتہ ماہ اس وقت ہوا جب ضلع خضدارکے علاقے توتک میں پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک چروا ہے نے جووہاں بکریاں چرا رہا تھا ا یک دل دہلا دینے والے منظرکی نشاندہی کی ۔ اس نے مٹی کے ڈھیر سے باہر نکلتا ہوا ایک انسانی ہاتھ دیکھا تو ٹھٹھک کر رہ گیا ۔ تجسس کے عالم میں ادھر ادھر نظر دوڑائی تو چند اور جسمانی اعضا مٹی اور پتھروں سے پر گڑھوں سے جھانکتے ہوئے دکھائی دیئے جن پر کوے اور گدھ منڈلا رہے تھے اپنے خوف اور دہشت پر قابو پاتے ہوئے وہ دوڑا دوڑا ایف سی اہلکاروں کے پاس گیا انہیں یہ کہانی سنائی اور غالباََ انہی کے مشورے پر ڈپٹی کمشنر خضدار کو اس کی اطلاع دی ۔ اس ڈرے سہمے غریب چرواہے نے ان سے درخواست کی کہ صاحب ! میرا نام نہ پوچھیں ، نہ کسی کو بتائیں کہیں میرا بھی یہی حشر نہ ہو جائے لیکن کسی نہ کسی طرح میڈیا کو اس المیہ کا علم ہو گیا مقامی لوگوں کو بھی پتہ چل گیا جنہوں نے گڑھا نما قبروں کو کریدنا شروع کیا تو ایک ایک کر کے انسانوں کے گلے سڑے ڈھانچے برآمد ہوتے چلے گئے لاشوں پر چونا یا کوئی کیمیائی مواد چھڑکا گیا تھا جس سے وہ مکمل طور پر ناقابل شناخت ہو چکی ہیں۔ وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز نے شور مچایا تو آوازسپریم کورٹ تک پہنچ گئی اس نے ازخود نوٹس لے کر حکام سے تفصیلات طلب کیں تو حکومت اور اس کی ایجنسیاںبھی حرکت میں آگئیں ۔ ڈپٹی کمشنر خضدار نے عدالت میں ایسی تین اجتماعی قبریں دریافت ہونے کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ ان میں دبی ہوئی تیرہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں جب کہ علاقے کے لوگ ، مزاحمتی تنظمیں اور لاپتہ افراد کے لواحقین ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بتاتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ ابتدا میں خود حکام نے پچیس لاشیں ملنے کا اعتراف کیا تھا بعض اپنے مفروضوں کی بنیاد پر یہ تعداد سو سے ڈیڑھ سو تک بڑھاتے چلے جاتے ہیں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض تنظیموں نے ڈیرہ بگٹی کے آس پاس اجتماعی قبروں کی موجودگی کا بھی دعویٰ کیا ہے ۔ توتک کے علاقے سے ملنے والی تین لاشوں کی شناخت ہو گئی ہے ان کا تعلق ضلع آواران سے ہے یہ لاپتہ افراد ہیں ۔ باقی لاشوں کے بارے میں بھی یہی کہا جارہاہے کہ یہ لاپتہ افراد کی ہیں ۔ لاشوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرا لیا گیا ہے جن سے ان کی شناخت میں مدد مل سکتی ہے مگر مارنے والوں کا شاید کبھی سراغ نہ ملے ۔عام طور پر یہ الزام سرکاری ایجنسیوں پر لگایا جاتا ہے جو اس کی تردید کرتی ہیں صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ اس فعل میں ریاست کا کوئی ادارہ ملوث نہیں ۔ یہ کام ان چھ لشکروں کا ہے جس کی پشت پناہی بھارتی خفیہ ایجنسی را کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے علاوہ صوبائی حکومت نے بھی اجتماعی قبروں کے حوالے سے حقائق کا پتہ چلانے کے لئے عدالتی کمیشن قائم کر دیا ہے قومی اسمبلی میں بھی سب سے پہلے بی این پی مینگل کے ایم این اے عیسیٰ نوری نے یہ مسئلہ اٹھا یا مگر حکومتی بنچوں نے ان کی آواز نہ سنی۔ تاہم اس سے اگلے روز جمعیت علما اسلام ف کی عالیہ کامران کے توجہ دلانے پر وفاقی وزیر سرحدی امور لیفٹینٹ جنرل (ر) عبد القادر بلوچ نے اس سلسلے میں تحقیقات کی یقین دہانی کر ادی ۔ مگر اسمبلی میں اس سنگین معاملے پر کوئی بحث ہو ئی نہ اسے زیادہ سنجیدگی سے لیا گیا۔ خود بلوچستان سے تعلق رکھنے والوں نے بھی زیادہ تر خاموش رہنے میں ہی مصلحت سمجھی۔ حالانکہ لاپتہ افراد کی بازیابی اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کے بعد اجتماعی قبروں کا مسئلہ اپنے اثرات کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور بین الاقوامی سطح پر علیحدگی پسند بلوچ لیڈر بھر پور انداز میں اسے اجاگر کر رہے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان کی آزادی کے لئے امریکہ اور یورپی ملکوں میں اپنی لابی اتنی مضبوط بنا لی ہےکہ امریکی ایوان نمائندگان کے ارکان بھی ان کی حمایت میں سرگر م ہو چکے ہیں ۔لندن میں موجود خان آف قلات میر سلیمان دائود اور حیر بیار مری کی بلوچ لبریشن آرمی نے یہ مسئلہ عالمی عدالت انصاف میں اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے لئے مبینہ طور پر وکلاء کی فیس ادا کرنے کی غرض سے بھارت سے چوبیس لاکھ ڈالر کی درخواست کی تھی انہیں یہ رقم نہ مل سکی جس پر انہوں نے امریکی ایوان نمائندگان کے ارکان ڈانا روہرا بچر، لوئی گومرٹ اور سٹیوکنگ سے رابطہ کیا جنہوں نے کانگرس میں بلوچستان کی آزادی میں مدد دینے کے لئے ایک پرائیویٹ بل بھی پیش کر دیا۔ لیکن اسے پزیرائی نہ ملی تاہم بعض امریکی تھنک ٹینک اور این جی اوز آزاد بلوچستان کے ایجنڈے پر سرگرمی سے کام کر رہی ہیں اور بلوچستان میں علیحدگی کے جذبات کو ہوا دے رہی ہیں ۔ اقوام متحدہ میں بھی علیحدگی پسندبلوچ تحریک کا غیر سرکاری نمائندہ مقرر ہے جنیوا لندن اور ددوسرے یورپی دارالحکومتوں میں بھی سنجیدگی سے مہم جاریہے ۔ اس پس منظر میں اور خود بلوچستان کے اندر مزاحمتی تنظیموں کی کارروائیوں کے پیش نظر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو طالبان کی طرح علیحدگی پسند اور ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے لئے رابطے بڑھانے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے ۔ دنیا کے دوسرے ملکوں میں اس طرح کا کوئی مسئلہ ہو تو ان کی پارلیمانوں میں ایسے گروپ بن جاتے ہیںجو قومی مفاد میں اس کا حل تلاش کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی اس طرح کا باقاعدہ گروپ بن جائے تو یہ بلوچستان کے حوالے سے قومی سلامتی اور یکجہتی کے مفاد میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ ملکی حالات کے بارے میں بعض فکر مند لوگ کھلم کھلا کہنے لگے ہیں کہ بلوچستان ہاتھ سے نکلا جارہا ہے میں اپنے مطالعے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر کہ سکتا ہوں کہ بلوچستان کہیں نہیں جارہا لیکن حکمرانوں نے معاملے کی سنگینی کا احساس نہ کیا اور اجتماعی قبروں جیسے المیے سامنے آتے رہے تو بنگلہ دیش کی طرح کسی سانحے کے امکان کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔
تازہ ترین