• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ شیخ صاحبان ، جنھوں نے تعمیرات کے بزنس سے دھن دولت کمائی اور جو ریلوے کی زمین پر واقع ایک پوش کلب، رائل پام کا انتظام چلا رہے تھے، کو اُس وقت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑاجب اُنہیں رائل پام کلب سے نکال باہر کیا گیا۔ ایسا کسی عدالت نے نہیںبلکہ ریلوے پولیس نے کیاجس کا کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا۔ ریلوے پولیس موجود تو تھی لیکن اس نے برس ہا برس سے کبھی اپنی موجودگی کا احساس تک نہیں دلایا تھا۔ ریلوے کی زمین پر ملک بھر میں قبضہ کیا گیا، لیکن چشم ِفلک اس کی فعالیت کا نظارہ کرنے سے محروم رہی۔ اس کے ’’خالی ہال آف فیم ‘‘ میں سجنے والی واحد ٹرافی رائل پام کی فتح ہے ۔
ریلوے پولیس کے سینکڑوں اہل کاروں نے کلب پر دھاوا بولا اور اُن دنوں کی یاد تازہ کردی جب انتہائی موثر طریقے سے 111 بریگیڈ اسلام آباد میں سویلین حکومتوں کو چلتا کرتا تھا۔ ریلوے پولیس کا طرز ِعمل بھی اس سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ اس ’’شب خون ِ خورد‘‘ (coup-in-miniature)کے بعد شیخ صاحبان اور ریلوے حکام کے درمیان بھرپور علامتی جنگ چھڑ گئی۔ فریقین اپنے اپنے موقف کے گولے داغتے دکھائی دئیے ۔ ہر فریق اپنی سچائی پر اصرار کرتے ہوئے دوسرے کو جھوٹا قرار دیتا۔ خیر یہاں زیر ِ بحث معاملہ قدرے مختلف ہے۔ کیا کلب پر قبضہ کسی قانونی طریق ِ کار کے مطابق کیا گیا، یا پھر ریلوے حکام نے اپنی نیم جان پولیس فورس کی رگوں میں جان ڈالی اورقانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا؟اس ایشوکے دیگر تمام پہلو، چاہے وہ اہم ہوں یا ثانوی حیثیت رکھتے تھے، اس کے بعد ہی آتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ شیخ صاحبان نے ریلوے کے ساتھ معاہدہ کرنے میں ہر ضابطے کی خلاف ورزی کی ہو۔ بتاتا چلوں ان شیخ صاحبان نے بھی لارڈ میو کی جائیداد کے کچھ کونوں پر ہاتھ صاف کررکھا ہے ، اور جس زمین پر رائل پام واقع ہے ، اُس کا نام ابھی بھی میوگارڈنز ہے، لیکن یہ ایک اور کہانی ہے ۔ یہاں اصل بات اُنہیں یہاں سے بے دخل کرنے کے لئے اپنایاگیا طریق ِ کار ہے ۔کیا اُن سے قبضہ کسی قانونی طریقے سے لیا گیا ؟ اگر نہیں تو پھر لاٹھی کا راج تو ہر جگہ چلتا ہے ۔ ٹرپل الیون بریگیڈ اور دسویں کور کے پاس بھی اپنے تئیں سویلین حکومت کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کا کوئی نہ کوئی جواز موجود ہوتا تھا۔ رائل پام افیئر میں میرے دوست اورانتہائی متحرک وزیر ِ ریلوے، خواجہ سعد رفیق نے خود کو چیف جسٹس گردانتے ہوئے فیصلہ سنا دیا کہ کلب کی انتظامیہ ریلوے کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کررہی ہے ۔ چنانچہ دھاوا بول کر قبضہ کرلیا گیا۔ چنانچہ اس کیس میں سعدرفیق صاحب خود ہی مدعی، خود ہی منصف اور خود ہی سزا دینے والے ٹھہرے۔ ہمارے موجودہ نظام ِ انصاف میں اتنے برق رفتار جسٹس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔
قبضہ گروپ کس طرح کام کرتے ہیں؟ ان کا طریقہ ٔ واردات بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ بھی قانون کے ذریعے جائیداد کے تنازعات نمٹانے کی بجائے طاقت کا سہارا لیتے ہیں۔ اس حوالے سے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ماضی کی اسٹیبلشمنٹ سب سے بڑے قبضہ گروپ کا کردار ادا کرتی تھی۔ یہاں بھی منطق اور اصول وہی کہ سب سے طاقت ور بیانیہ بندوق کا ہوتا ہے ۔ رائل پام کیس میں ریلوے پولیس نے بھی اسی بیانیے کا اظہار کیا ۔ اب ریلوے حکام رائل پام انتظامیہ کے خلاف ایک طویل چارج شیٹ بناتے ہوئے قانون کی سنگین خلاف روزیوں کا الزام لگا رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ چارج شیٹ بھی سوفیصد درست ہو(اگرچہ اُن میں سے ایک الزام کا ذکر میرے دل کی دھڑکن تیز کردیتا ہے اور رائل پام انتظامیہ سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے کہ وہاں کائونٹر پر آپ کسی بھی مشروب سے لطف اندوز ہوسکتے تھے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ریلوے پولیس نے ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کیا )۔ ہوسکتاہے کہ یہ بات سن کر انتہا پسندوں کا ہاتھ اپنے اپنے پستول یا حسب ِتوفیق، ڈنڈے کی طرف اٹھ جائے کیونکہ اُنھوں نے ویسی ہی آفاقی اقدار کی بجاآوری خود پر مقدم کی ہوتی ہے جیسے سویلین حکومت کے خلاف ٹرپل ون بریگیڈ نے ۔
اس معاملے کے ٹیکنیکل پہلوئوں پر تو طرفین کے وکلا عرق ریزی کریں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت جب حکومت کے عدم استحکام کی خبریں گردش میں ہیں اور وزیر ِ اعظم صاحب بھی وطن سے باہر ہیں، وزیر ِ ریلوے کس قسم کی مثال قائم کررہے ہیں؟ کیا وہ کسی اور کو اشتعال تو نہیں دلا رہے کہ جو طرز عمل اُنھوں نے رائل پا م میں اختیار کیا، اُن کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا جائے ؟کیا وہ آسمانی انصاف کو فوری فعال ہونے کی دعوت دے رہے ہیں؟وزیر ِاعظم کی طویل غیر موجودگی میں پاکستان کے معاملات کو اسحاق ڈار نہیں چلا رہے ،کیونکہ اُن کے بہت سے کولیگ اُن کی بات نہیں مانتے، اور پھر وہ چوہدری نثارعلی خان کو تو ایک آنکھ نہیں بھاتے ، بلکہ یہ ذمہ داری وزیر ِاعظم کی باصلاحیت صاحبزادی، مریم نواز اورپاکستانی انتظامیہ کے مقامی سرجان فالسٹف، فواد کے سپرد ہے ۔ اگر وہ رائل پام کے معاملے کو ہاتھ میں لیتے تو نتائج اس سے بھی بدتر ہوتے ۔
یہ مثال صرف ٹرپل ون بریگیڈ ہی نہیں ، علامہ طاہرالقادری اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے حوالے سے بھی برمحل ہے ، کہ اگر وہ بھی ریلوے پولیس کی مثال کی پیروی کریںاور جوڈیشل کمیشن اور ٹرمز آف ریفرنس پر یقین رکھنے کی بجائے گلیوں میں اپنا زور ِ بازو آزماتے ہوئے احتجاج کرنے کا راستہ اپنا لیں تو اُن کے پاس بھی رائل پام کارروائی کی دلیل موجود ہوگی۔ پہلے کام کرلیں اور پھر اس کا جواز پیش کرتے رہیں، اور، جس کی لاٹھی ہے، وہ بھینس بھی لے جائے اور دیگر متاع بھی۔یہ بات تسلیم کہ پی ایم ایل (ن) براہ ِ راست ایکشن کی کامیاب تاریخ رکھتی ہے ۔ اس نے نہایت ’’کامیابی‘‘ سے سپریم کورٹ پر حملہ کیا اور صاف بچ نکلی۔ اگر یہ 1998 کی پرانی کہانی ہو تو ابھی دوسال پہلے ، پی ایم ایل (ن) کی پنجاب حکومت نے ’’معرکہ ماڈل ٹائون‘‘ کے دوران علامہ طاہر القادری کے گھر کے باہر لگی کچھ رکاوٹیں ہٹانے کے لئے جو کارروائی کی اُس میں پولیس کی براہ ِ راست فائرنگ سے چودہ کارکن ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ۔ اس کے بعد اس کیس کوقانون کے پردوں میں چھپا دیا گیا۔
چیف جسٹس سجاد علی شاہ، صدر فاروق لغاری اور آرمی چیف، جنرل جہانگیر کرامت کو نواز شریف نے اپنی دوسری مدت کے دوران چلتا کیا۔ اُس وقت وہ ’’مرد ِآہن‘‘ کا لقب اختیار کرچکے تھے ، لیکن پھر ایک براہ ِراست ایکشن الٹا پڑ گیا۔ یہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کی کوشش تھی۔ نثارعلی خان کے بھائی، جنرل افتخار، جو اُس وقت ڈیفنس سیکرٹری تھے، نے تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا، لیکن وزیر ِاعظم صاحب نے جنرل افتخار کی ٹانگ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا (اور یہ بات مجھے جنرل افتخار نے دوہلا میں بتائی تھی جب میں فاتحہ خوانی کے لئے وہاں گیا)کہ باتوں کا وقت جاچکا۔ باقی تاریخ ہے ۔
رائل پام کا معاملہ عدالتو ں کو بھی دعوت ِفکر دیتا ہے۔ اس پر سپریم کورٹ میں زیر ِا لتوا پٹیشن بھی موجود ہے ۔ یہ کتنے عرصے تک التوا میں رہے گی؟سعد رفیق کی قومی اسمبلی کی رکنیت بذات ِخود سپریم کورٹ سے حاصل کئے گئے حکم ِ امتناعی کی مرہون ِ منت ہے ۔ یہ معاملات ہمیشہ اسی طرح التوا میں رہیں گے؟میں بھی براہ ِ راست ایکشن چاہتا ہوں۔ یہ قانونی الجھنوں کے پیچ وخم سے پاک، صاف ستھرا طریقہ ہے۔ لیکن پھر اس کااطلاق پاناما لیکس پر بھی ہونا چاہئے ۔رائل پام پر تو پی ایم ایل(ن) براہ ِراست کارروائی کے حق میں ، اور پاناما لیکس پر قانونی موشگافیوں کا سہارا لے؟یہ دہرا معیار نہیں چلے گا۔
تازہ ترین