• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنوبی ایشیا کی تاریخ ایک نئی کروٹ لے رہی ہے جس سے عالم اسلام کا گہرا تعلق ہے اور دنیا پر اس کے اثرات واضح پڑتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان میں امن کے نام پر تقریباً تمام فوجی و سیاسی حضرات نے کوششیں کی ہیں مگر پتہ نہیں کیوں کامیاب نہیں ہوئیں یا اعتماد کی کمی تھی۔ ہم نے امن کے نام پر NO WAR PACTپڑوسیوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی اور بہت سے معاہدے اعلیٰ سطح پر بھی کیے ہیں ہم نے کسی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی نہیں کی البتہ اپنے دفاع کے لئے ہم ہمیشہ پا بہ رکاب رہے ہیں اسی لیے دنیا میں امن کے نام پر ہمارے ملک کی کوششوں کو سراہا جاتا رہا ہے۔ بین الاقوامی طور پر ہمارے دستے ہر اس جگہ کامیاب رہے ہیں جہاں خانہ جنگیاں اور افراتفری تھی اسے سراہا جاتا رہا ابھی تازہ تازہ تمام تر مشکلات کے باوجود ایک بڑا دستہ بیرون طور پر امن قائم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ مگر اس دفعہ موجودہ حکمران جن کی ساکھ عالمی طور پر بہت اچھی ہے اس خطے میں امن کے لیے بیڑا اٹھایا ہے مجھے یقین ہے کہ جنوبی ایشیا کے لوگ اور عالمی قوتیں ان مذاکرات کو جو طالبان سے ہو رہے ہیں اور جن کے لیے سلیقے اور شعور کے افراد پر مشتمل حکومت نے مذاکراتی ٹیم مقرر کر دی ہے۔ ہماری قوم کے مزاج میں بولنا اور تنقید کرنا بہت آسان سمجھا جاتا ہے اس لیے اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ بے مقصد بولنے والوں اور بغیر علم و شعور کے معلومات رکھنے والوں نے بولنا شروع کر دیا ہے جسے سن کر عوام میں ایک بیزاری سی ضرور پیدا ہو جاتی ہے اگر یہ لوگ شعور نہیں رکھتے تو بولنے اور تنقید سے ہی گریز کریں۔ میں ذاتی طور پر اس مذاکراتی ٹیم کے تمام ہی اراکین کو باشعور، صاحب الرائے اور اعلیٰ سوچ کا مظہر سمجھتا ہوں۔ میں ذاتی طور پر میجر عامر، عرفان صدیقی، مولانا سمیع الحق سے واقف ہوں، بار ہا ان لوگوں سے ملاقاتیں اور ملنا جلنا رہتا ہے میں اوّل الذکر دو آدمیوں کا ذاتی طور پر کلمہء حق کہنے پر مشکلات کا شکار دیکھتا رہا ہوں۔ مولانا سمیع الحق کے پاس افغانستان کی جنگ شروع ہونے پر خان عبدالقیوم خان کے ساتھ اکثر اکوڑہ خٹک گیا ہوں میں نے انہیں بھی ملت اور پاکستان کا درد رکھنے والا مذہبی اعلیٰ قدروں کا امین پایا ہے اس لیے میں نے عوامی حلقوں کا جائزہ لیا ہے لوگ اس سے بھرپور توقع رکھ رہے ہیں اس خوبصورت گلدستے کی تشکیل میں موجودہ وزیراعظم اور ان کے رفقاء کار کی محبت پاکستان سے جھلکتی ہے دنیا میں اب تک ویت نام سے لے کر الجزائر تک، کوریا سے لے کر عراق تک اور دیگر جنگ زدہ، آفت زدہ قوموں کی معاونت میں میں نے ان رہنمائوں کو دامے درمے سخنے محو پایا ہے بہت سی باتیں تو ہمارے سامنے موجود ہیں ہماری بدقسمتی کہ ہم ہر چیز میں کیڑے نکالنے کے ماسٹر ہیں ایک مصور نے تصویر بنا کر چوک میں رکھ دی کہ جس کو اعتراض ہو اس پر لکھ دے شام کو جب وہ آیا تو تصویر غائب تھی اعتراضات لکھے ہوئے تھے اگلے دن اس نے پھر تصویر لا کر چوک میں رکھ دی کہ جس کو اعتراض ہو اس کو ٹھیک کر دے مگر کسی نے ٹھیک کرنے کی زحمت گوارا نہ کی وزیراعظم اور ان کے رفقاء کار نے امن کے نام پر جو جرأت مندانہ قدم اٹھایا ہے وہ ایک بہت بڑا فیصلہ ہے مجھے یاد ہے جب ہندوستان میں تقسیم کے وقت خونریزی ہو رہی تھی اس وقت پاکستان کے سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی، مہاتما گاندھی، سیف الدین کچلو، بیرسٹر آصف علی نے امن کمیٹی قائم کی مگر چونکہ سامراجی قوتیں امن نہیں چاہتی تھیں اس لیے سہروردی صاحب کو ہندستان سے نکلنا پڑا اور برصغیر کی سیاست مدوجزر کا شکار ہو گئ۔ تفصیل نہیں لکھی جا سکتی اور بہت سی مثالیں بھی موجود ہیں اب ضرورت اس بات کی ہے پوری قوم امن کا پرچم دیانتداری اور خلوص سے لے کر کھڑی ہو جائے اور موجودہ قیادت کا ساتھ دے۔
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں۔ یاد رہے وہاں امن قائم نہیں ہو سکتا جہاں بالجبر لوگوں کے عقائد تبدیل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں انصاف اور امن مساوات محمدی کے الفاظ خوش کن بھی ہیں راحت دینے والے ہیں اور سکون پہنچانے والے بھی ہیں کسی بھی مسئلے کو مذاکرات سے کامیابی کی طرف لے جانا قومی وحدت، پروگریسو انقلاب کی تکمیل کے لیے بے حد ضروری ہے جو لوگ اسلامی فلاحی معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں انہیں ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے پوری قوت سے ہر سطح پر سرگرم ہو جانا چاہئے۔
تازہ ترین