• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں امن ایک دفعہ پھر دائو پر لگا نظر آرہا ہے۔ کراچی میں ابتری کوئی نئی نہیں۔ اس دفعہ نشانہ ستم دوایسے لوگ بنے جو عام حالات میں عوام میں وجہ تنازع بھی نہیں۔ سندھ کی بڑی عدالت کے منصف کے بیٹے کا اغوا بہت ہی سنجیدہ صورتحال ہے اور اس کے بعد ایک امن پسند شہری صوفی صفت پہچان کروانے والا امجد صابری دن کے مصروف وقت میں دہشت گردوں کا نشانہ بنا۔ ایک دفعہ پھر عوام میں بے بسی اورلاچاری عروج پر ہے۔ ملکی قانون اپنااحترام کروانے میں بھی بے بس نظر آتا ہے۔ پہلے تو یہ سوال ہے کہ کیا ملک میں کوئی قانون ہے؟ اور اگر قانون ہے تو اس پرعملدرآمد کروانے والے لوگ کہاں مصروف ہیں؟ عوام کی نمائندگی کرنے والا ادارہ قومی اسمبلی گزشتہ کئی روز سے قومی میزانیہ کی گتھی سلجھانے میں مصروف ہے۔ اتنے اہم معاملہ پر عوام کے نمائندوں کی توجہ فقط اپنے مفادات تک محدود نظرآ رہی ہے۔ اس سال کے میزانیہ میں اہم ترین معاملہ اسمبلی کے ممبران کی تنخواہوں کا تھا جس پروزارت ِ خزانہ کے لوگوں نے شب و روز بہت ہی محنت اور مشقت کی۔ ان کی اتنی مشقت پر وزیرخزانہ نے تین ماہ کی تنخواہ دینے کا اعلان پرمسرت کیا۔
اس دفعہ بجٹ اجلاس میں وزیر خزانہ کا ایک نیا روپ سامنے آیا۔ وہ روپ تھا جزوقتی وزیراعظم کا۔ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف تو دل کی وجہ سے صاحب ِ فراش ہیں۔ ان کی غیرموجودگی میں سرکاری طور پر تو ان کےامور کی نگرانی کے لئے کسی کا نام سامنے نہیں آیا۔ مگر جمہوری روایات کے مطابق پارٹی کا سب سے سنجیدہ اور نیک نام شخص ایسے حالات میں نمائندگی کرتا ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت نے اب تک خاصا رسوخ حاصل کرلیا ہے۔ ہمارے عوامی نمائندے جمہوریت کی اس مہربانی سے کافی خوش بھی نظر آتے ہیں۔ جمہوریت کی وجہ سے ان کے اختیارات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ان کی تنخواہوں کا معاملہ صرف اورصرف ’’جمہوری دور‘‘ میں پورا ہوسکتا تھا۔ ایک دوسرے کو کوسنے دینے میں وہ شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ مگر حیران کن بات ہے اور قابل رشک بھی کہ اپنی مراعات اور تنخواہوں پر ہمارے ان جمہوری نمائندوں میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ وہ سب ایک تھے اورایک ہیں۔ تاہم ہمارے ارباب ِ اختیار ملک میں دہشت گردی اورکرپشن پر ذرا بھی سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ سندھ میں سائیں سرکار کا فقط ایک کام ہے کہ کسی بھی طرح سے سابق صدر آصف علی زرداری کی دل آزاری نہ ہو۔ موصوف ایک عرصہ سے ملک سے باہر ہیں۔ ان کا پرآسائش قیام دبئی، لندن اور امریکہ میں ہوتا ہے۔ دبئی میں وہ سندھ سرکار کے لوگوں سے مشاورت کرتے ہیں۔ ان کی اپنے نور ِ نظر پر خاصی نگاہ رہتی ہے۔ اگرچہ ان کے نورِ نظر کی تربیت میں ادی فریال تالپور کا بڑا ہاتھ ہے اور اب مزید تربیت کےتناظر میں کہا جارہا ہے کہ ادی فریال تالپورکو سندھ میں کوئی اہم منصب دیا جارہا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری ملکی سیاست اور پاناما لیکس کے تنازع میں کافی مصروف نظرآتے ہیں۔ پہلے پہل تو وہ میاں نوازشریف کو حوصلہ دیتے نظرآئے مگر بعد میں ڈاکٹر عاصم کی ٹیپ کے بعد ان کے مزاج کی تلخی نمایاں ہوئی۔ وہ مسلم لیگ نواز کے جمہوری رویہ سے بدظن سے دکھائی دے رہے ہیں اور ان کی تلخی بلاول زرداری کے بیانوں میں زیادہ نظر آرہی ہے۔
پیپلزپارٹی کی سیاست کراچی کی صورتحال میں و اضح طور پر تقسیم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ملکی سطح پر پارٹی کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہے۔ اگرچہ بلاول زرداری بہت ہی زور لگا رہا ہے کہ پارٹی بس ایک دفعہ کھڑی ہو جائے اور اس کے جلسے اس پرآشوب دور میں بھرتے نظر نہیں آتے۔ وہ آزادکشمیر کے انتخابات سے بہت امید لگا رہے ہیں مگر معاملات سیاست ان کے حق میں نہیں لگتے وہ میاں نوزشریف پرتابڑتوڑ جملے بازی کرتے نظرآتے ہیں۔مگر ان کے بیانوں کی نفی حزب اختلاف کے لیڈر خورشید شاہ اورسنیٹر رحمٰن ملک کرتے نظر آتے ہیں۔
سندھ کی تازہ صورتحال میں ممکن ہے کہ مرکزی سرکار جزوی طور پر گورنر راج کا سوچ سکتی ہے۔ اس سے پہلے جب حکیم سعید کا قتل ہوا تھا تو بھی کچھ ایسی صورتحال تھی۔ مگر اس دفعہ وزیراعظم اپنی بیماری کی وجہ سے غیرفعال ہیں اور ایسا فیصلہ کرنے کا اختیار وزیراعظم اور قومی اسمبلی کو ہے۔ اگرچہ قومی اسمبلی کی سادہ اکثریت سے یہ سب کچھ ممکن ہے مگر وزیراعظم کی غیرموجودگی میں وزیرخزانہ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور دوسرے اسمبلی کے اندر مسلم لیگ نواز کا ایک ناراض گروہ بھی کمربستہ ہے ۔ وہ میاں نوازشریف سے مایوس نہیں مگر ان کو کابینہ کے وزیروں سے شکایات ہیں اور وزیراعظم کی غیرموجودگی میں وہ گروہ اپنے آپ کو زیادہ تنہا محسوس کر رہا ہے۔ اگرچہ ان کی دلجوئی کے لئے خادم اعلیٰ اور ان کے سپوت حمزہ شہباز شریف میدان میں آچکے ہیں۔
قومی سیاست اور جمہوریت کے درمیان اصل معرکہ تو عید کے بعد ہوگا۔اس وقت تک وزیراعظم پاکستان آچکے ہوں گے۔ ان کو سندھ اور کراچی کے حالات کی وجہ سے غیرمقبول فیصلے کرنا ہوں گے۔ پھر کرپشن کے حوالے سے ملکی اداروں میں غیرسنجیدگی کا بھی نوٹس لینا ہوگا۔ پاکستان کی عدلیہ ملکی نظام سے مایوس نظر آرہی ہے اور اس کو شکایت ہے کہ ملکی نوکرشاہی ان کے احکامات کو نظرانداز کرکے ملکی نظام کو مفلوج کر رہی ہے۔ نوکرشاہی کامعاملہ سب سے زیادہ پریشان کن ہے۔ اس کو ملک میں جمہوریت سے کوئی غرض نہیں پھران کی نوکری پکی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے بغیر ملک چل ہی نہیں سکتا۔ پھرگزشتہ کئی عشروں سے ہمارے بڑے بڑے سیاستدان نوکرشاہی پراعتمادکرتے نظر آتے ہیں۔ نوکرشاہی جی حضوری کرکے سیاستدانوں کو استعمال کرتی ہے۔ ان کو کرپشن پر حوصلہ اور دلاسہ دیتی ہے اور اسی وجہ سے جمہوری دور میں کرپشن پر قابو پانا مشکل نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس وقت بھی کئی سرکاری ادارے اور اہم لوگ قانون اور اصول کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ ان کی توجیح ہے کہ ملکی نظام کی وجہ سے ایسا ہو رہاہے۔ اب ملکی نظام کو کون بدلے گا؟ ملکی نظام میں تو دہشت گردی اور کرپشن پر قابو کرنے کا جذبہ ہی موجود نہیں۔ قانون سازی تو دور کی بات ہے ملک کے محتسب اداروں کا کردار اس نظام کی وجہ سے ایک سوال بن چکا ہے۔ نیب کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ دعوے اور حقیقت سب ہی خلط ملط سے ہوگئے ہیں۔ ایک نیا نقطہ اب یہ بھی بیان کیا جارہا ہے کہ الزام لگانے والا ثبوت بھی پیش کرے۔ اگر مدعی کے بیان کہ چوری ہوئی ہےاور وہ چور کا بتا بھی دے تو ثبوت کیسے دے گا؟ بیرون ملک ہمارے سیاستدانوں کے اثاثے سب کے سامنے ہیں۔ اب ان کا کہنا ہے کہ آپ ثبوت لے کر آئیں کہ یہ اثاثے ان کے ہیں اور ان کی دولت ناجائز تھی۔ ایسے میں کرپشن کو ختم کرنا ممکن نہیں اور نہ ہی ثبوتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ یہ صورتحال بہت ہی مایوس کن ہے۔ ایسے میں انقلاب اور تبدیلی جمہوری طریقہ سے آنے سے رہی۔ ہمارے عسکری ادارے اپنی سی کوشش کر رہے ہیں مگر ان کے وسائل دہشت گردی اور کرپشن کی وجہ سے محدود ہو رہے ہیں۔
تازہ ترین