• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کا موجودہ انتہائی گنجلک منظرنامہ واضح ہوتا دکھائی دے رہاہے۔ طالبان،حکومت مذاکرات میں قدرے اعتدال سے پیش رفت سے قوم کو مثبت اشارے ملے ہیں۔بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ دوطرفہ مذاکرات میں سنجیدگی اور شائستگی کے ساتھ معاملات کو یونہی آگے بڑھایا گیا تو کامیابی کے امکانات یقینی ہیں۔ اس نازک موڑ پر احتیاط کا دامن چھوڑا گیا تو سارا کیا کرایا غارت ہوسکتا ہے؟ طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل میں ’’لچکدار‘‘روئیے سے حالات درست سمت گامزن ہوسکتے ہیں۔ ملکی سطح پر امن و امان کی صورتحال میں دن بدن بہتری نظر آرہی ہے۔اس سارے مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچانے کیلئے کچھ بیرونی قوتیں سرگرم عمل ہیں جن کا ایجنڈا ہے کہ پاکستان کا امن کسی بھی صورت میں بحال نہ ہوسکے۔وزیر اعظم نوازشریف نے بھی حکومت،طالبان مذاکراتی عمل پر اطمینان کا اظہارکیا ہے۔قابل ذکربات یہ ہے کہ امریکہ مذاکراتی عمل کے کامیاب ہونے سے خائف ہے۔پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ کی وزیرستان میںطالبان کے اہم ذمہ داران سے ملاقاتوںکے دوران’’ڈرون ‘‘پروازیں نچلی سطح پر جاری رہیں۔ایسے میںحکومت اور طالبان دونوںکو بھی خلوص نیت اور سنجیدگی سے کام لے کر امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے امریکیوں کے تمام حیلوں اور حربوں کو ناکام بناناہوگا۔ قوم پر یہ حقیقت اب کھل گئی ہے کہ ہماری منزل اور راستہ کونساہے؟ہمیں اپنی اس منزل کے راستے کو دوبارہ’’دھندلا‘‘ہونے سے بچانا ہوگا۔مولانا سمیع الحق کا کہنا ہے کہ طالبان نے آئین کے تحت مذاکرات پر اتفاق کیا ہے۔پروفیسر ابراہیم نے میڈیاکوبتایا ہےکہ طالبان نے انتہائی مثبت اور حوصلہ افزاء جواب دیا ہے۔قوم کو جلد خوشخبری دیںگے۔اس مذاکراتی عمل کا اچھا پہلویہ ہے کہ دونوں فریقوںنے نرم رویہ اپنایا ہے اور اسلام آباد میں ہونے والی مذاکراتی کمیٹیوں کی حالیہ ملاقات کو امید افزاء قرار دیاجارہاہے۔طالبان کا دہشتگردی کےحالیہ واقعات سے اظہار لاتعلقی اور کھلے ذہن کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھانابھی خوش آئند امر ہے۔حکومتی کمیٹی نے وزیر اعظم نوازشریف کو آگاہ کیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مجموعی طور پر پیش رفت ہورہی ہے۔اس تناظر میں امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کا بیان توجہ کامتقاضی ہے کہ’’ طالبان کے مثبت روئیے کے بعد گیند حکومت کی کورٹ میں ہے۔امریکہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے‘‘۔مذاکرات کی کامیابی کیلئے’’روشن اشاروں‘‘کا ملنا یقیناً ملک وقوم کیلئے فائدہ مند ہوگا۔ملک کی سیاسی وعسکری قیادت کا اس حوالے سے ایک پیج پر ہونا نیک شگون ہے۔انشاء اللہ طالبان،حکومت مذاکرات’’ بتدریج‘‘ نتیجہ خیز ثابت ہونے کے قوی امکانات ہیں۔اس کیساتھ مذاکراتی عمل کے راستے میں کانٹے بچھانے والوں کے عزائم سے ہوشیار اور چوکنارہنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت مذاکراتی عمل کا پہلا مشکل مرحلہ سرکرلیاگیا ہےاس لئے توقع کی جانی چاہئے کہ باقی مراحل بھی بخیروخوبی مکمل ہوجائیں گے۔امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کی تازہ ترین خبر نے امریکی ایجنڈے کو بے نقاب کیاہے۔امریکی اخبار کے مطابق القاعدہ کے حامی امریکی شہری کو نشانہ بنانے کیلئے امریکہ پاکستان میں فوجی کارروائی کی تیاریاںجاری رکھے ہوئے ہے۔یہ بڑی تشویشناک خبر ہے۔اس سے قبل بھی وہ ایبٹ آباد میں کارروائی کرکے پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کو پامال کرچکاہے۔سلالہ پوسٹ پر حملہ کرکے امریکیوں نے پاکستان کے24فوجیوںکو شہید کیا۔اب وہ ایک اوربہانہ تراش کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری امن عمل کے بخیے ادھیڑنا چاہتا ہے۔وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان کا امریکہ کو واضح اور دوٹوک پیغام دے کر پاکستانی عوام کے موقف کی تائید کی ہے کہ امریکہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوںسے امن عمل کو خراب کرنے سے باز رہے۔یہ ایک جرأت مندانہ پیغام ہے۔حکومت پاکستان کو اس مسئلہ پر اب پس وپیش سے کام نہیں لینا چاہئے۔پاکستان اس وقت چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے اس لئےپوری قوم کو اتحادو یکجہتی کے ساتھ مذاکراتی عمل کی بھر پور حمایت کرنی چاہئے۔ہماری قیادت کو’’امریکی جنگ‘‘سے نکلنے کا دوٹوک فیصلہ کرنا چاہئے۔
نواز شریف حکومت کے پاس اب کچھ کردکھانے کاموقع ہے۔اب وہ اس اہم موقع کو کسی بھی صورت میں ضائع نہ ہونے دے۔نام نہاد دہشتگردی کے خلاف ’’بھونڈی‘ امریکی جنگ‘‘نے دنیا بھر میں امریکی اعتماد کو مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو بھی بدنام کیاہے۔قرضہ بحران اور امریکی معیشت کے دیوالیہ ہونے کے عمل نے ’’واشنگٹن‘‘کی عمارت ہلاکررکھ دی ہے۔عراق کے بعد اب افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا پس منظر بھی یہی ہے کہ اب امریکہ کو اپنی داخلی سلامتی کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔امریکہ کے مقابلے میں معاشی میدان میں چین کا اثرورسوخ دن بدن بڑھتاجارہا ہے۔امریکہ کو اب یہ غم ’’کھائے‘‘جارہا ہے کہ کس طرح معاشی سطح پر’’چین‘‘ پرقابو پانا ہے اور دوبارہ دنیا پر’’واشنگٹن‘‘کے غلبے کو قائم کرنا ہے۔وہ معاشی میدان میں پٹ چکا ہے۔اب ایک عالمی سپرپاور کا زوال روزروشن کی طرح عیاں ہے۔افغانستان میں امریکہ کے آنے کے مقاصد میںپاکستان کے نیوکلیئرپروگرام کاخاتمہ اور چین کو کنٹرول کرنا بھی تھا اسے ان مقاصد میں بھی ناکامی ہوئی ہے۔چین نے اسے اقتصادی طور پر ناکوںچنے چبوادیے ہیں۔چین کی معاشی نموتیزی سے جاری ہے اورامریکہ کو آج یہ اندازہ بھی ہورہا ہے کہ اس نے افغانستان اور عراق پر’’قبضے‘‘کا درست فیصلہ نہیں کیا تھا مگر’’گیاوقت ہاتھ نہیں آتا‘‘۔
پاکستان کا امن افغانستان کی داخلی صورتحال سے مشروط ہے۔افغانستان میں عدم استحکام پاکستان کیلئے نقصان دہ ہے۔2014ء میں اتحادی افواج کے نکلنے کے بعد افغانستان میں امن کاقیام بے حد ضروری ہے۔علاقائی امن کے قیام کیلئے یہ لازمی ہے کہ افغانستان میں امریکی اور بھارتی ریشہ دوانیوں کا خاتمہ کیاجائے۔اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد دوبارہ’’افراتفری‘‘کے پیداہونے سے افغانستان میں عالمی طاقتوں کے عزائم کوکامیابی ملے گی۔اپریل2014ء میں افغانستان میں صدارتی انتخاب ہوگا۔یہ انتخاب بڑااہم ہے۔امریکہ چاہے گا کہ اتحادی افواج کے چلے جانے کے بعد بھی اس کا’’ اقتدار‘‘ افغانستان پر قائم رہے اوروہاںایک ’’کٹھ پتلی‘‘حکومت بنے جو اس کے اشاروںپرچلتی رہے۔افغانستان میںاپریل کے انتخاب کے بعد اتحادی افواج کاانخلاء شروع ہوگا جوکہ2014ء کے اختتام تک جاری رہے گا۔اگرچہ دس ہزار کے قریب فوج امریکہ افغانستان میں پھر بھی رکھے گا مگر باقی ساری اتحادی افواج وہاں سے نکل جائیں گی۔امریکہ کی افغانستان میں ایک لاکھ فوج تھی جبکہ نیٹوکی کل فوج ایک لاکھ چالیس ہزار تھی مگرامریکہ اور اتحادی ممالک کی اتنی بڑی فوج جدیدترین ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی افغانوںکوزیر نہیں کرسکی ۔یوں تاریخ میں افغانوں کے ’’ناقابل شکست‘‘ ہونے کا ایک اور عظیم واقعہ رقم ہورہا ہے۔ماضی میں جوحشر’’نجیب اللہ‘‘کاہواتھا وہی انجام امریکہ کی افغانستان میں آئندہ کٹھ پتلی حکمرانوں کا بھی ہو سکتا ہے۔اب اگرامریکہ اور بھارت افغانستان میں مداخلت سے گریز کریں تووہا ں بہت جلد حقیقی نمائندہ افغان حکومت وجود میں آسکتی ہے۔حکومت پاکستان کو عالمی برادری پر زور ڈالنا چاہئے تاکہ افغانستان میں بیرونی قوتوں کا کھیل ختم ہو۔افغانستان پر امن اور محفوظ ہوگا تو پاکستان بھی مضبوط اور مستحکم ہوگا۔پوری دنیا کی نظریں اب افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء اور حکومت،طالبان مذاکرات پر ہیں۔پاکستانی قوم بھی یہ توقعات لگائے بیٹھی ہے کہ اب12سالوں کے بعد حالات امن کی طرف دوبارہ پلٹیں گے اور ملک ترقی وخوشحالی سے ہمکنار ہوگا۔نواز شریف حکومت کی ابھی تک تو’’اڑان‘‘ٹھیک لگ رہی ہےمگرنواز شریف حکومت کے پاس بھی یہ آخری موقع ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس مذاکراتی عمل میں سرخرو ہوتی ہے یا نہیں ۔
تازہ ترین