• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ دونوں مناظر سرائیکی وسیب کے ہیں ، جسے جنوبی پنجاب کا نام دیا جاتا ہے ۔ پہلا منظر ایک سیاست دان کے ڈیرے کا ہے ، جہاں علاقے کے لوگ سردار صاحب کو عید ملنے کے لیے آ رہے ہیں ۔ ایک طرف پرانی حویلی ہے ، جسے سردار صاحب کے بزرگ دربار لگا کر لوگوں کے فیصلے کرتے تھے ۔ اس حویلی کو خاندان کے جا ہ و جلال اور عظمت کی نشانی کے طور پر برقرار رکھا گیا ہو گا ۔ دوسری طرف ایک نئی عمارت ہے ، جس کے درجنوں کمرے مہمان داری کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ پرانی حویلی اور نئی عمارت کے درمیان صحن میںبڑی تعداد میں کرسیاں لگی ہوئی ہیں اور چارپائیاں بچھی ہوئی ہیں ، جن پر سردار صاحب کے کمدار آنے والے مہمانوں کو ان کے مرتبے اور حیثیت کے مطابق بٹھاتے ہیں ۔ اگر کوئی بڑے مرتبے والا آدمی آجائے اور بیٹھنے کی جگہ نہ ہو تو کم مرتبے والے آدمی کو کرسی یا چارپائی خالی کرنی پڑتی ہے ۔ آدھے گھنٹے میں ہم نے کئی لوگوں کو کرسیاں خالی کرتے ہوئے دیکھا ۔ سردار صاحب کے ایک صاحب زادے باہر لوگوں کو نمٹا رہے ہیں جبکہ خود سردار صاحب نئی عمارت کے ایک کمرے میں براجمان ہیں اور صرف خاص خاص لوگوں کو کان میں بتایا جاتا ہے کہ بڑے سردار صاحب اندر بیٹھے ہیں اور وہ ان سے جا کر مل سکتے ہیں ۔ عید ملنے کے لیے آنے والے زیادہ تر لوگ وہ ہیں ، جو عید منا ہی نہیں سکتے ۔ وہ مقامی پولیس کی زیادتیوں ، چھوٹے زمینداروں کے زور زبر سے ریلیف حاصل کرنے یا اپنے بچوں کی نوکریوں کے لیے آئے ہیں ۔ سردار صاحب کے صاحب زادے فوراً فون اٹھاتے ہیں اور متعلقہ پولیس اہلکار یا بااثر شخص سے بات کرتے ہیں لیکن ہر سائل بڑے ادب و احترام سے یہ بات کہہ دیتا ہے کہ سائیں پچھلی دفعہ بھی آپ نے فون کیا تھا لیکن کام نہیں ہوا ۔ اگرچہ سردار صاحب کے کارندے ہر آنے والے سے خوش اخلاقی کے ساتھ بات کرتے ہیں لیکن حیثیت کے مطابق پروٹوکول دینے کا وہاں جو نظام رائج ہے ، وہ ڈیرے سے واپس جانے والے ہر شخص کو اپنی ہی نظروں میں گرا رہا ہے ۔ ہر شخص مایوس لوٹ رہا ہے ۔ دوسرا منظر ایک بستی کا ہے ، جہاں ایک بوڑھے اور انتہائی غریب ہاری کے گھر کے باہر دیگیں پک رہی ہیں اور لوگ اس ہاری کو مبارکباد دینے کے لیے آ رہے ہیں کیونکہ اس کا بیٹا آٹھ سال کے بعد بھارت کی قید سے آزاد ہو کر آج گھر آ رہا ہے ۔ یہ نوجوان کشمیر میں ’’ جہاد ‘‘ کرتے ہوئے اگلے محاذوں پر بھارتی فوج کے ہتھے چڑھ گیا تھا ۔ آٹھ سال اس نے مختلف بھارتی جیلوں میں گذارے تھے ۔ اس کے واپس آنے کی خوشی میں جو جشن منایا جا رہا ہے ، اس کے سارے انتظامات نوجوان کے ’’ جہادی ساتھیوں ‘‘ نے کئے تھے ۔ مبارکباد کے لیے آنے والے قریبی رشتے دار یہ بتا رہے ہیں کہ جب تک یہ نوجوان بھارت کی قید میں رہا ، اس کے ساتھی اس کے بوڑھے ماں باپ کا ہر طرح سے خیال کرتے رہے ۔ جتنی خدمت ان ساتھیوں نے بوڑھے ماں باپ کی ، شاید ان کا اپنا بیٹا بھی نہ کر سکتا ۔ بستی میں نوجوان کے ساتھی بھی موجود ہیں اور وہ مبارکباد کے لیے آنے والے ہر شخص کو گلے لگا کر ملتے اور انہیں عزت سے بٹھاتے ہیں ۔ وہ خود میزبان بنے ہوئے ہیں اور حقیقی ’’ کامریڈ شپ ‘‘ کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ رشتے دار یہ بھی بتا رہے ہیں کہ یہ ساتھی ہر دکھ سکھ میں بھی شامل رہے ہیں اور کسی بھی معاملے میں اس جہادی نوجوان کے والدین ، بھائیوں اور دیگر قریبی رشتے داروں کو وڈیروں کے پاس نہیں جانا پڑا ۔ بالآخر بھارت کی قید سے آزاد ہونے والا نوجوان گاڑیوں کے قافلے میں بستی پہنچتا ہے اور اس کا بھرپور استقبال ہوتا ہے ۔ یہ ایسا استقبال ہے ، جو خان یا سردار کے لیے وزارت سے حلف اٹھانے کے بعد اپنے علاقے میں واپس آنے پر شاید ہی ہوتا ہے ۔ بوڑھا ہاری اس طرح فخر محسوس کر رہا ہے ، جس طرح مشہور چینی ناول ’’ ایہہ کیو کی کہانی ‘‘ کا ہیرو اپنی پھانسی کے وقت تختہ دار پر کھڑے ہو کر فخر محسوس کرتا ہے کہ اس جیسے غریب اور بے وقعت آدمی کی پھانسی کو دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ جمع ہیں ۔ ان دو حقیقی مناظر کو صرف سرائیکی وسیب ہی نہیں ، پورے پاکستان کے بڑے کینوس پر دیکھا جائے تو ایک تیسرا منظر ابھرتا ہے ، جسے تصوراتی نہیں بلکہ قرین از حقیقت قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اس منظر میں پاکستان کا حقیقی لینڈ اسکیپ غائب ہے جبکہ بڑی بڑی حویلیاں و محلات اور بڑے بڑے دینی مدارس طاقت کے مراکز کے طور پر اس طرح نمایاں نظر آ رہے ہیں ، جس طرح رات کی تاریکی میں لیزر اور فلڈ لائٹس میں صرف موئن جو دڑو نظر آرہا تھا اور لینڈ اسکیپ غائب تھا ۔ اس منظر میں قبرستان بھی نمایاں طور پر نظر آ تے ہیں ، جہاں شہید ، جاں بحق اور ہلاک ہونے والوں کے جنازے آ رہے ہیں ۔ اس وقت پاکستان کے حالات کو ان دو حقیقی مناظر اور ان سے ابھرتے ہوئے ہر لمحہ تغیر پذیر تیسرے منظر میں رکھ کر سمجھنا چاہئے ۔ اگر سندھ اسمبلی میں ایک طرف یہ بات ہو رہی ہے کہ شکار کھیلنا کوئی جرم یا گناہ نہیں ہے تو دوسری طرف اسی اسمبلی میں خبردار بھی کیا جارہا ہے کہ سندھ میں بھی مدارس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس امر کا اعتراف بھی کیا جارہا ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری کے عفریت کو نہ روکا گیا تو غربت کے مارے سب لوگ اپنے بچوں کو مدارس کے حوالے کر دیں گے ۔ اس انتباہ پر محلات اور حویلیوں میں رہنے والوں کی آنکھیں کھل جانا چاہئیں ۔ انہیں یہ تو پتہ ہوتا ہے کہ کس سیزن میں کس جانور کا شکار کیا جائے ، دنیا میں شاپنگ فیسٹیول کہاں اور کب منعقد ہو رہے ہیں ، گھوڑوں اور کتوں کی کن نسلوں کی کیا کیا خصوصیات ہیں اور فلاں سیٹھ ، سردار یا خان کے گھر میں جو کتا ہے ، اس کا باپ سوئٹزرلینڈ کے کس امیر شخص کے پاس ہے ، دنیا کے کن بڑے بڑے ہوٹلوں میں اسپیشل ڈشز کیا کیا بنتی ہیں اور ان کے ذائقے کیا ہیں ، سوٹ اور شوز دنیا کی کس کمپنی کے اعلیٰ ہوتے ہیں اور ان کی نئی کھیپ کب آنے والی ہے اور انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ سیاست سے پیسہ کمانے کے کیا طریقے ہیں لیکن انہیں شاید یہ پتہ نہیں ہے کہ سیاسی کارکنوں کا اپنی سیاسی جماعتوں سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے ۔ اپنی عزت نفس کا خیال رکھنے والے لوگ ان سے دور بھاگ رہے ہیں اور کرپشن اور شاہانہ طرز زندگی کی وجہ سے لوگ ان سے نفرت کررہے ہیں ۔ انہیں یہ علم بھی نہیں ہے کہ سیاست ’’ کارپوریٹ آئیڈیاز ‘‘ سے نہیں چلتی ہے ۔ سیاسی جلسے اور ثقافتی میلے ٹینڈرز دینے سے منعقد نہیں ہوتے ہیں ۔ ذلت کے مارے لوگ صرف اپنی عزت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے انتہا پسندوں کا ایندھن کیوں بن رہے ہیں۔ انہیں سابق صدر سردار فاروق احمد خان لغاری مرحوم کی یہ بات اس مرحلے پر یاد دلانا ضروری ہے ، جو انہوں نے سابق وزیر اعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کی کراچی کی رہائش گاہ پر ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی ۔ انہوں نے سیاسی طاقت اور دولت پر امراء کے تسلط کا حوالہ دیتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ میں آئندہ یہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ لوگ ہماری بڑی بڑی حویلیوں اور محلات پر حملے کریں گے اور ہمارا سب کچھ چھین لیں گے ۔ اس منظر سے بچنے کے لیے سیاست دانوں کو کرپشن کے خاتمے، گڈگورننس اور لوگوں کو روٹی اور عزت دینے کے لیے حکمت عملی بنانا ہو گی ۔ یہی تیسرا منظر ہے ، جو تیزی سے ابھر رہا ہے ۔
تازہ ترین