• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی موجودہ حکومت کا پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت سے اگر موازنہ کیا جائے تو اس میں جو بنیادی فرق نظر آئے گا وہ یہ ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے زیادہ سیاسی تدبر اور بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ہے۔ میاں محمد نواز شریف تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کی اصل حکمران اسٹیبلشمنٹ کے مزاج، عزائم اور منصوبوں کا اس طرح ادراک نہیں کر سکے ہیں جس طرح آصف علی زرداری نے کیا ہے۔ آصف علی زرداری نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی مفاہمتی پالیسی کا جس طرح پاکستان کی سیاست پر دانشمندانہ اطلاق کیا، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس پالیسی کے پاکستان کی سیاست پر انتہائی مثبت اور دوررس اثرات مرتب ہوئے ۔ اس پالیسی کی وجہ سے غیر جمہوری قوتوں کو جمہوریت پر شب خون مارنے کا جواز نہیں ملا۔ مگر اب جو حالات پیدا ہو رہے ہیں ان میں غیر جمہوری قوتیں اپنے عزائم کی تکمیل کا جواز ڈھونڈ سکتی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سابق صدر آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کی وجہ سے میاں محمد نواز شریف سمیت کسی بھی سیاست دان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی گئی۔ اگر حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر میاں محمد نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں تو آصف علی زرداری کی وجہ سے ہیں۔ طیارہ سازش کیس میں میاں محمد نواز شریف ، میاں محمد شہباز شریف اور ان کے دیگر ساتھیوں کو سزا ہو چکی تھی۔ جب انہوں نے پیپلز پارٹی کے دور میں یہ سزا ختم کرنے کے لئے عدالت سے اپیل کی تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس اپیل کی مخالفت نہیں کی۔ اگر حکومت مخالفت کرتی تو عدلیہ کی حمایت کے باوجود بھی اس مقدمے کا فیصلہ آسان نہ ہوتا اور اگر یہ سزا ختم نہ ہوتی تو شریف برادران کسی سرکاری عہدے کیلئے اہل نہ ہوتے۔ یہ آصف علی زرداری ہی تھے جن کا وژن یہ تھا کہ سیاسی اور جمہوری قوتوں کو مضبوط کیا جائے۔ سیاسی ٹکراؤ اور تصادم کی پالیسی کو ختم کیا جائے، جو غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کا جواز فراہم کرتی ہے۔ یہ آصف علی زرداری ہی تھے جن کی وجہ سے آئین میں اٹھارہویں ترمیم منظور ہوئی۔ خاص طور پرآئین کی وہ شق ختم کی گئی جس کے تحت کوئی شخص دو سے زیادہ مرتبہ وزیراعظم نہیں بن سکتا تھا۔ فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف نے آئین میں یہ شق محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے لئے شامل کی تھی تاکہ وہ تیسری مرتبہ وزیراعظم نہ بن سکیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو تو دہشت گردوں نے شہید کردیا،ان کے بعد صرف میاں محمد نواز شریف کے لئے یہ آئینی شق باقی رہ گئی تھی،کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں تھاجو تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کا امیدوار ہوتا۔ آصف علی زرداری اگر چاہتے تو یہ شق برقرار رکھتے اور میاں محمد نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم نہ بن سکتے لیکن انہوں نے آئین سے یہ شق بھی ختم کرائی ۔ آصف زرداری یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ اس بات کا فائدہ صرف اور صرف میاں محمد نواز شریف کو پہنچے گا۔ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں شریف برادران اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف کرپشن کے کئی مقدمات تھے، جو دوبارہ نہیں کھولے گئے۔ میاں محمد نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے ساتھ کچھ دن کام کرکے اس سے علیحدگی اختیار کرلی اور اس کے بعد حکومت کے خلاف کئی مہمات چلائیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر ججوں کی بحالی کی تحریک میں میاں محمد نواز شریف نے جس طرح آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو مشکل میں پھنسا دیا تھا، اس سے لوگوں کو محسوس ہوا تھا کہ میاں نواز شریف حکومت کو ختم کرنا چاہتے تھے ۔ آج یہ بات زیادہ واضح ہو گئی ہے کہ میاں نواز شریف نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک کا رخ حکومت کے خلاف موڑ کر بہت بڑا سیاسی بحران پیدا کردیا تھا جس میں غیر جمہوری قوتیں مداخلت کر سکتی تھیں۔ افتخار محمد چوہدری بحیثیت چیف جسٹس بحال ہوئے تو انہوں نے ایک دن بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا اور ایک وزیراعظم کی حکومت کا تختہ بھی الٹ دیا۔ ’’جوڈیشل ایکٹوزم‘‘ کی میاں محمد نواز شریف جس طرح حمایت کر رہے تھے اس سے بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کے لئے شدید مشکلات پیدا ہوئیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے بھی مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کی حکومت کی اس طرح حمایت نہیں کی جس طرح قومی اتفاق رائے کا تقاضا تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے بجلی کے بحران اور دیگر ایشوز پر حکومت کے خلاف لوگوں کو سڑکوں پر لانے کے لئے ہر طرح کی کوششیں کیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود پیپلزپارٹی کے پورے دور حکومت میں میاں نواز شریف کو کسی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا۔
یہ بات انتہائی غور طلب ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں ایک ملزم کی حیثیت سے احتساب عدالت میں پیش ہو گئے۔ اس واقعے نے آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کی سیاسی اپروچ میں فرق کو بہت نمایاں کر دیا ہے۔ 9 جنوری 2014ء کو آصف علی زرداری پولو گراؤنڈ ریفرنس اور کوٹیکنا ریفرنس میں احتساب کورٹ نمبر 1 اسلام آباد کے جج چوہدری بشیر احمد کے روبرو پیش ہو گئے۔ ان کے خلاف ایس جی ایس ریفرنس، اے آر وائی ریفرنس، روسی ٹریکٹر ریفرنس اور دیگر کیس بھی دوبارہ کھول دیئے گئے ہیں۔ یہ مقدمات 1997ء میں میاں محمد نواز شریف کی دوسری حکومت میں بنائے گئے تھے۔ میاں محمد نواز شریف کے قریبی ساتھی اور اس وقت کے نیب کے سربراہ سینیٹر سیف الرحمٰن نے بارہا یہ اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے یہ مقدمات سیاسی انتقام کی بنیاد پر قائم کئے تھے۔ ان مقدمات میں نہ صرف آصف علی زرداری بلکہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی ملوث کیا گیا تھا۔ میاں نواز شریف کی حکومت اور بعد ازاں پرویز مشرف کی حکومت بے پناہ ریاستی وسائل خرچ کرنے کے باوجود ان مقدمات کو ثابت نہیں کر سکی تھیں لیکن ان مقدمات کی وجہ سے آصف علی زرداری طویل عرصہ جیل میں رہے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں چکر لگاتی رہیں۔ ان مقدمات کی وجہ سے فوجی حکمران پرویز مشرف نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی پر مجبور کیا اور اس کا پاکستان میں جمہوری تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ پرویز مشرف طویل عرصے تک اقتدار میں رہا اور اس نے پاکستان کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا۔ آج پاکستان جس بحران میں ہے اس کا ایک بڑا سبب یہ مقدمات بھی ہیں۔ میاں نواز شریف کی حکومت نے یہ مقدمات دوبارہ کھول دیئے ہیں۔ اس سے نہ صرف آصف علی زرداری کو سیاسی دباؤ میں لایا جا سکتا ہے بلکہ 1999ء والی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے ۔ یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی قبر کا بھی ٹرائل ہے۔ پاکستان اس وقت دہشت گردی کے انتہائی سنگین مسئلے میں الجھا ہوا ہے۔ میاں محمد نواز شریف کو چاہئے کہ وہ ان حالات میں دوسرے سیاسی محاذ نہ کھولیں اور 1999ء والی صورت حال پیدا نہ کریں۔
تازہ ترین