• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اپنے حالیہ انٹرویو میں ہی ایک مرتبہ پھر ان مفروضوں کو دفن کر دیا کہ افغان اور پاکستانی طالبان علیحدہ علیحدہ ہیں۔ ایک غیر ملکی جریدے کو دئیے گئے انٹرویو میں انہوں نے ملاعمر کے لئے اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا ،جو تحریک طالبان پاکستان کے امیر مولوی فضل اللہ کے معاون خصوصی کمانڈر حمزہ مجھ سے کئی نشستوں میں کر چکے ہیں۔تحریک طالبان پاکستان کا کہنا ہے کہ ملاعمر تمام مسلمانوں کے امیر ہیں اور انہیں امیر المومنین کا درجہ حاصل ہے۔ بین الاقوامی جریدے میں چھپنے والے انٹرویو میں مولوی فضل اللہ کے حوالے سے خلیفہ کا لفظ استعمال کرنے کی تو تحریک طالبان نے واضح الفاظ میں تردید کی مگر ملاعمر کی زیر قیادت امارت اور تحریک طالبان پاکستان کی انہیں بطور امیر المومنین قبول کرنے کی کوئی وضاحت یا تردید سامنے نہیں آئی۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اپنے انٹرویو میں صحافی کے پوچھے گئے اس سوال پر کہ اگر کبھی شریعت نافذ ہوجاتی ہے تو امیر المومنین کون ہو گا؟جس کا شاہد اللہ شاہد نے جواب دیا کہ ملاعمر امیر المومنین ہوں گے جبکہ مولوی فضل اللہ پاکستان میں ہماری قیادت کریں گے۔جس پر شاہد اللہ شاہد نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مولوی فضل اللہ کے لئے خلیفہ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔یہاں سوال اٹھتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان نے اپنے انٹرویو میں جہاں ایک طرف افغان اور پاکستان طالبان کے حوالے سےمفروضے پر مبنی نظریات کو انجام تک پہنچاتے ہوئے ایک مرتبہ پھر واضح کردیا کہ افغان اور پاکستانی طالبان ایک ہی ہیں،مگر مولوی فضل اللہ کے حوالے سے تردید کی نوبت کیوں آئی؟ دراصل پاکستان سمیت دنیا بھر کے متعدد اشاعتی و نشریاتی اداروں میں مولوی فضل اللہ کے لئے لفظ ’’خلیفہ‘‘ کا استعمال کیا گیا تھااور افغان طالبان اور اسلامی شریعت کے مطابق خلیفہ وقت صرف ایک ہوسکتا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے تمام شدت پسندوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ ملاعمر ہیں۔ اسی لئے میری اطلاعات کے مطابق مولوی فضل اللہ کی سخت برہمی کے باعث مرکزی ترجمان تحریک طالبان کو اپنے انٹرویو کی تفصیلی وضاحت کرنی پڑی۔
شاہد اللہ شاہد کے حالیہ انٹرویو اور پھر اس کی وضاحت پر مجھے چند روز قبل ایک اہم مغربی ملک کے سفیر کے ساتھ ہونے والی نشست یاد آگئی۔ میرے بار بار دلائل دینے کے باوجود موصوف اس بات پر ڈٹے رہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کیا جانا چاہئے اور ایسا ہو گا۔ گفتگو کرتے ہوئے سفیر صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستانی طالبان حقیقت میں افغان طالبان کی اضافی قوت ہیں اور ایک دوسرے کے مالی معاملات کو دیکھتے ہیں۔ سفیر کی گفتگو سنتے ہوئے مجھے اسلام آباد میں قتل ہونے والے ملاعمر کے سرکاری ترجمان یاد آگئے۔مرحوم ذبیح اللہ مجاہد نہ صرف افغان طالبان کے مالی معاملات کے نگران تھے بلکہ تحریک طالبان پاکستان کی بھی بھاری مالی معاونت کرتے تھے۔ مغربی سفیر کہنے لگے کہ امریکہ اور اتحادی ممالک نے 2014ء کے آخر تک نہ صرف بھاری اسلحہ و مشینری افغانستان سے منتقل کرنی ہے بلکہ فوجوں کی بھی بڑی تعداد نے واپس لوٹنا ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ افغان اور پاکستانی طالبان مل کر ان کا وہی حشر کریں جو ماضی میں روس کا کیا گیا۔ اس لئے پاکستانی حکومت کے ارباب اختیار نے امریکہ سے وعدہ کیا ہے کہ دسمبر 2014ء تک وہ امریکہ اور نیٹو فورسز کو شمالی وزیرستان کلیئر کراکر دیں گے اور پاکستان طالبان کی کمر توڑ دیں گے تاکہ ٹی ٹی پی کسی بھی صورت میں سرحد کے اس پار جاکر افغان طالبان کے ساتھ مل کر ان فورسز کو نقصان نہ پہنچا سکے۔بالآخر سفیر صاحب کی عجیب و غریب گفتگو سن کر میں نے سوال داغ دیا کہ آپ کا مطلب کے کہ پاکستانی فوج آپریشن کرے گی۔مگر آپریشن کا تو امریکہ اور اتحادی فورسز کو مزید نقصان ہوگا ۔جس پر فوراً سے پہلے موصوف نے جواب دیا کہ آرام سے ،آرام سے۔
جب تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کا آغاز ہوگا تو نیٹوافواج پاک افغان بارڈر کو سیل کردیں گی۔جس سے نہ صرف تحریک طالبان پاکستان کے لوگ افغانستان نہیں جاسکیں گے بلکہ افغان طالبان بھی اپنے ذیلی گروپ کی مدد کو نہیں آسکیں گے۔جب کہ ایک سوال پر سفیر کے ساتھ نشست پر براجمان سرکاری بابو کہنے لگے کہ جی ہاں۔ اگر فوجی آپریشن کیا گیا تو اس کا جواب وزیرستان ،میران شاہ یا فاٹا میں نہیں بلکہ لاہور اور اسلام آباد میں دیا جائے گا تو اس لئے حکومت نے پہلے کی سول ریپڈ ری ایکشن فورس کی مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے بالخصوص پنجاب میں ریٹائرڈ فوجی بھی بھرتی کئے گئے ہیں اور یہی فارمولا پورے ملک میں آزمایا جائے گا۔ریپڈ ری ایکشن فورس کے اہلکاروں کو ترکی کی پی کے کے فورس سے ٹریننگ دلوائی جائے گی۔جو پہلے ہی کرد باغیوں سے نمٹنے کا تجربہ رکھتی ہے اور اس طرح دہشت گردوں کی کارروائیوں سے شہروں کو کافی حد تک محفوظ رکھنے کی حکمت عملی وضع کی گئی ہے جبکہ اسی دوران سفیر صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس فوجی آپریشن میں امریکہ کی جانب سے ممکنہ تعاون کی سطح پہلی بار دیکھنے کو ملے گی جو کہ جنرل (ر) مشرف کے دور اقتدار میں بھی نظر نہیں آیا۔ امریکہ نے پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ سی ایس ایف فنڈ سے لے کر دہشت گردی کی روک تھام کے نام پر فنڈر جاری رہیں گے۔ گفتگو کے اختتام پر ان کا کہنا تھا کہ حالیہ مذاکرات پاکستان میں آپریشن کے لئے رائے عامہ کو ایک نکتے پر جمع کرنے کی کوشش ہے۔
میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ اگر اس سفیر اور گریڈ 22کے افسر کی سنائی گئی معلومات درست ہے ،جو بظاہر لگ بھی رہی ہے مگر ان حالات میں وزیراعظم نے بےشک رائے عامہ کی اکثریت کو ساتھ ملانے کے لئے ہی سہی جن افراد کو یہ ذمہ داری تفویض کی انہوں نے بھی صرف میڈیا پبلسٹی کے علاوہ کوئی خاطر خواہ پیشرفت کی کوشش نہیں کی۔کمیٹی کے ایک رکن میجر (ر) عامر کے علاوہ تمام ارکان اب تک صرف ذاتی تشہیر، مفروضوں اور تسلیوں میں لگے رہے ہیں۔ حکومتی کمیٹی نے طالبان رابطہ کار کمیٹی کی وزیراعظم،آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے حوالے سے ملاقات کی پہلی ہی شرط کو فوری ماننے سے انکار کرتے ہوئے فی الحال ٹال دیا ہے۔دونوں کمیٹیاں دس دن سے زائد گزرنے کے باجود امن کی آخری کوشش کو ابھی تک کسی سمت میں نہیں لے جاسکیں۔ کمیٹیوں نے ان عناصر کی سوچ اور حکمت عملی کو مزید تقویت دی ہے۔ جو سارے معاملے کا پہلے ہی جائزہ لے کر اصل فیصلہ کرچکے ہیں۔شاید ایک خلیجی ملک کے شہزادے بھی اسی ممکنہ آپریشن کے آغاز سے قبل کسی فریق کی طرف سے بطور گارنٹر پیش ہونے کے لئے تشریف لائے ہیں۔آج جب پاکستان میں موت کی دو ہی واحد وجوہات خودکش یا ٹارگٹ کلنگ رہ گئی ہیں،صرف سندھ و خیبر پختونخوا میں سال نو کے آغاز سے آج تک بمشکل 50 دنوں میں 200سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ ایسے میں طالبان سے مذاکرات کرنے والی کمیٹیوں سے اصل فریقین ہی غائب ہیں۔ جس سے واضح پیغام جاتا ہے کہ حکومتی کمیٹی اور ارکان کا اعلان تو وزیر اعظم نے کیا مگر اس کا فیصلہ کہیں اور کیا گیا تھا۔ حکومتی عہدیداران سمیت تمام جماعتوں کے سربراہان تو واضح کہہ ہی چکے ہیں کہ اس انداز میں تو مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھ سکتا ۔مگر ان حالات میں امن مذاکرات اب مزید آگے بڑھیں گے یا فوجی آپریشن ہوگا۔اس کا فیصلہ وزیراعظم یا پارلیمنٹ نہیں بلکہ وہی ادارہ کرے گا ،جو ہمیشہ سے اس ملک کے اہم فیصلے کرتا آیا ہے۔وزیراعظم اور پارلیمنٹ تو صرف اس کے فیصلوں کی توثیق ہی کریں گے مگر کیا کبھی یہ روایت بدل پائے گی۔
تازہ ترین