ایک سچا واقعہ ہمارے بچپن کا سنئے اگرچہ معمولی سا تھا مگر اس واقعے کے اثرات ہماری پوری زندگی پر مرتب ہوئے ہم ان دنوں صبح صبح بزنس گارڈن کی سیر کو جاتے تھے ہمارے ساتھ ایک دو دوست بھی ہوتے تھے راستے میں ہم اکثر دیکھتے تھے کہ ایک آدمی تین تاش کے پتے والا کھیل ’’مانگ پتہ‘‘ کھیل رہا ہوتا تھا اور لوگ اس پر روپے لگا کر ہار جیت رہے ہوتے تھے، کئی دن تک ہم دوستوں نے بھی رک کر یہ تماشہ دیکھا، معلوم ہوا کہ ایک بادشاہ، ایک اِکا (یکہ) اور ایک کوئن کے پتے تھے آپ کو اس میں صرف اِکا بتانا ہوتا تھا اگر آپ نے صحیح اِکا بتا دیا تو لگائی گئی رقم کی دگنی رقم مل جاتی تھی ورنہ آپ کی رقم ہضم۔ ہم نے اکثر لوگوں کو ہارتے ہوئے دیکھا مگر ایک شخص ہمیشہ جیتتا تھا وہ دوسروں کو بھی مشورہ دیتا رہتا تھا ہم سے نہیں رہا گیا سوچا کل ہم تینوں دوست بھی قسمت آزمائیں گے اگلے روز ہم تینوں نے گھر سے 50پچاس روپے لئے آج سے تقریباً 40سال پہلے کا یہ واقعہ ہے 50روپے آج کے 5 ہزار کے برابر سمجھے جائیں چنانچہ ہم چہل قدمی کے بعد واپس اس جگہ آئے جہاں یہ سڑک کے کنارے ہوتا تھا یہ جگہ بزنس گارڈن سے ملحق تھی صبح کے وقت لوگ بھی برائے نام ہوتے تھے زیادہ تر تعداد صبح کے چہل قدمی کرنے والوں کی ہوتی تھی بہرحال ہم نے باری باری پتوں پر پیسے لگانا شروع کر دیئے ایک بات جو نوٹ کی کہ وہ شخص جو روز جیتتا تھا آج بھی جیت رہا ہے اس نے ایک بار ہم سے پوچھے بغیر ہماری طرف سے 10روپے لگا دئیے جب پتہ پلٹا تو واقعی اِکا تھا اس نے 10کے بدلے 20روپے لے لئے اور 10روپے ہم کو دے دیئے ہم نے تو پیسے لینے سے انکار کیا جب اس نے زیادہ اصرار کیا تو ہم نے بھی رکھ لئے۔ اب وہ ہمارے ساتھ مل کر کھیلنے لگا ہماری عمریں زیادہ نہیں تھیں اور نہ ہم نے کبھی زندگی میں جوا کھیلا تھا جب کہ وہ 40پینتالیس سال کا ہٹا کٹا شخص تھا اب وہ ہماری طرف سے آزادی سے کھیل رہا تھا کبھی جیتتا اور کبھی ہارتا وہ اپنی طرف سے لگاتا تو یقیناً جیتتا جس کی وجہ سے ہمارے منہ میں پانی آرہا تھا کہ کاش وہ ہماری طرف سے لگاتا توہم اس جیت کے مستحق ہوتے ۔آہستہ آہستہ کھیل ہوتا رہا اچانک اس نے ہماری طرف سے ایک دم 100روپے کی شرط لگا دی ہم سے پوچھا بھی نہیں مگر ہم تو اس کی جیت میں مگن تھے مگر جب پتہ کھلا تو ہم ہار چکے تھے اب ہمارے 50روپے بچے تھے اس نے پھر ہم سے پوچھے بغیر 100روپے کا پتہ مانگ لیا کیونکہ وہ کئی دفعہ ہم کو وہ 10دس روپے جتوا چکا تھا اور خود وہ تو کافی روپے جیتے ہوئے تھا اور ہم کو بھی اعتماد میں لے چکا تھا ہم خاموش رہے پتہ کھلا تو پھر ہم ہار گئے ہمارے پاس 50روپے باقی رہ گئے تھے اس نے کہا یارکوئی بات نہیں 50روپے میں تمہیں دیتا ہوں کیا ہوا اگلی بازی جیت جائیں گے اگلی بازی اس نے اپنی طرف سے 200روپے کی لگائی اور جیت گیا ہم کو اپنے 150اور 50روپے قرض والے یعنی 200روپے کے ہارنے کا افسوس ہو رہا تھا ہاں ایک بات میں بھول گیا اس نے یہ 200روپے والی بازی بھی پہلے ہماری طرف سے لگانے کی پیشکش کی تھی مگر ہم نے اس کو منع کر دیا تھا اس وجہ سے بھی افسوس ہو رہا تھا کہ کاش ہم نے اس کی بات مان لی ہوتی تو ہم 200روپے جیت گئے ہوتے۔ ہم دوستوں نے مشورہ کیا کہ اس کے ساتھ ایک بازی اور آزمائی جائے تاکہ کم از کم اپنے قرض کے پیسے اتار سکیں چنانچہ اس نے آپ کی 200روپے والی بازی ہماری طرف سے لگا دی پھر وہی ہوا کہ ہم ہار گئے اب ہم اس کے 250روپے کے مقروض ہو چکے تھے اور ہمارے 150روپے الگ سے جا چکے تھے پریشانی کا عالم تھا صرف آدھے گھنٹے میں ہم 150اپنے اور 250روپے اس شخص کے ہار چکے تھے ہمارے پاس مزید رقم بھی نہیں تھی جو ہم ادا کرتے جو رقم ہم لائے تھے وہ بھی اپنی بچت کی کل رقم تھی ہم کو اُس زمانے میں 10روپے جیب خرچ ملتے تھے اس کو ہم کہاں سے 250روپے ادا کریں؟ تینوں دوست پریشان تھے مگر وہ بڑے سکون سے کھیل کر اپنی طرف سے لگائی جانے والی بازی جیت رہا تھا اس نے پھر پیشکش کی کہ ہم چاہیں تووہ اب بھی ہماری طرف سے بازی لگا سکتا ہے مگر ہم تینوں نے فیصلہ کیا کہ مزید نہیں کھیلیں گے ہمارے انکار پر تو اس نے اچانک ہی طوطے کی طرح آنکھیں بدل لیں۔ کہاں تو خوشی خوشی ہماری طرف سے رقم لگانے کو تیار تھا کہاں ایک دم بے مروتی اوڑھ لی۔ نہایت سختی سے کہا میرے 250روپے نکالو۔ اب ہم ڈر گئے کہ اگر ہمارے والدین کو معلوم ہوا تو پٹائی الگ ہوگی ہم نے اس کی منت سماجت کی کہ ہم کل تمہارے پیسے لا دیں گے مگر وہ نہیں مانا۔ پتے لگانے والا شخص بھی اس کی حمایت میں پیش پیش تھا ہماری بات کوئی بھی نہیں مان رہا تھا بڑی مشکل سے انہوں نے ہماری گھڑیاں ایک دوست سے چشمہ اور تینوں کے جوتے ضمانت کے طور پر رکھ لئے۔ ہم ننگے پائوں بغیر گھڑیوں اور چشمے کے چھپتے چھپاتے گھر پہنچے تینوں نے اپنے والدین کو کچھ نہیں بتایا البتہ اپنے دوستوں سے اپنے اپنے حصے کی رقم یعنی 80روپے فی کس ادھار لے کر واپس آئے اور اپنی اپنی چیزیں واپس لیں پھر تمام زندگی جوا نہ کھیلنے کی قسم کھائی۔ چند روز بعد اتفاقاً ہم بزنس روڈ پر ایک ہوٹل پر چائے پینے گئے تو دیکھا کہ وہی افراد ہوٹل میں بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں اور گپ شپ بھی کر رہے ہیں ان میں وہ شخص بھی شامل تھا جو روز جیتتا تھا تب ہماری سمجھ میں آیا کہ یہ تینوں آپس میں ملے ہوئے تھے اور ہم جیسے سادہ اور معصوم لوگوں کو لوٹتے تھے۔ اب تو نئے نئے سائنٹیفک طریقے نکل آئے ہیں حال ہی میں ہم کو ایک خط نائیجیریا سے موصول ہوا اس میں لکھا تھا میں ایک ریٹائر سرکاری افسر ہوں اور میرے دوستوں کا ایک بہت بڑا حلقہ ہے مجھے لاکھوں ڈالر کی چیزیں پاکستان سے خریدنی ہیں۔ میں امریکی تیل کمپنی کا بہت بڑا افسر تھا اور میرے پاس 3ملین ڈالر کی چیزیں ہیں جو ملک نائیجیریا سے باہر نہیں لا سکتا اگر آپ کا فارن کرنسی بینک اکائونٹ ہو تو میں یہ رقم آپ کے اکائونٹ میں منتقل کروا کر پاکستان آسکتا ہوں پھر ہم مل کر بزنس کریں گے۔ معلومات کرنے کے لئے اس نے جو پتہ لکھا تھا اس پر مزید معلومات حاصل کی بڑا تسلی بخش جواب آیا مگر ہمارا دل نہیں مانا۔ ان دنوں مجھے دبئی جانے کا اتفاق ہوا میں نے اپنے ایک دوست سے اس کا ذکر کیا تو اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر اپنا واقعہ سنایا کہ اس کو بھی ایسا خط ملا تھا اس نے خوشی خوشی اپنا دبئی کا اکائونٹ نمبر دے دیا اور خوشی کی گھڑیاں گننے لگا کہ کب 3ملین ڈالر آتے ہیں ایک دن اس کے بینک سے فون آیا کہ کیا آپ نے 1لاکھ ڈالر نائیجیریا ٹرانسفر کرنے کا فیکس کیا ہے اس نے کہا میں نے تو کوئی فیکس نہیں کیا ۔اس نے کہا مگر دستخط تو آپ کے ہی ہیں اس نے کہا میں ابھی بینک آتا ہوں بینک جا کر دیکھا تو واقعی اس کے دستخط تھے اور لکھا تھا ارجنٹ 1لاکھ ڈالر فلاں شخص کو ٹرانسفر کر دو اور اکائونٹ نمبر بھی اسی کا تھا تب اس کی سمجھ میں یہ فراڈ آیا کہ چونکہ اس نے اپنا اکائونٹ نمبر لکھا تھا اور خط کے آخر میں دستخط کئے تھے تو اس نے دستخط کو دوسرے کاغذ پر منتقل کر کے اور اکائونٹ نمبر دے کر فیکس کر دیا وہ تو اس کی خوش قسمتی تھی کہ بینک نے بھیجنے سے پہلے تصدیق کر لی ورنہ عام طور پر بینک دستخط اور اکائونٹ نمبر ملا کر پیسے بھیج دیتے ہیں آج کل اس قسم کے خطوط کی بھر مار ہے ۔پچھلے دنوں مجھے ایک فون موصول ہوا کہ آپ کا 10لاکھ کا انعام نکلا ہے لہٰذا آپ اس نمبر پر جو ٹیکس کی امائونٹ ہے تقریبا ً 15000روپے اس نمبر پر بھیج دیں تاکہ ہم آپ کو چیک بھجوا سکیں میں نے فون کر کے چیک کیا تو پیچھے آواز بھی سیلولر کمپنی کی آرہی تھی بہرحال اسی موبائل فون کمپنی میں میرے ایک دوست تھے میں نے ان سے بات کی تو انہوں نے ایسا کرنے سے بالکل منع کر دیا اور کہا کہ یہ بالکل فراڈ ہے۔ نہ جانے کتنے معصوم اس میں پھنس چکے ہوں گے۔ اس سے سب کو ہوشیار رہنا چاہئے اس طرح آج کل یورپ میں لاٹریوں کی بھر مار ہے ہر کوئی کروڑوں ڈالر کا لالچ دے کر معصوم شہریوں سے رقمیں بٹورتا رہتا ہے لہٰذا ایسے فراڈیوں سے بچنا چاہئے اور اپنی جائز کمائی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔