• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیزنے جمعہ کے روز ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ تمام جنگجوئوں کے خلاف ایک ساتھ بڑی کارروائی اور تیز اقدامات سے پاکستان میں دہشت گردوں کے جوابی حملوں کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 60ہزار سے زائد شہریوں، 5ہزار فوجی جوانوں اور 110ارب روپے کے املاک کی تباہی کی جو قربانی دی ہے اس کو امریکہ سمیت دنیا بھر کے ممالک کے عمائدین نے تسلیم کیا ہے کیونکہ پاکستان کی محب وطن افواج نے دو سال کے قلیل عرصہ میں اپنے قبائلی علاقوں کو جنگجوئوں سے نجات دلانے میں جو کامیابی حاصل کی ہے اس کی کوئی نظیر معاصر تاریخ میں نظر نہیں آتی اس بات کا کسے علم نہیں کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ اور اس کے 24اتحادی ممالک کی افواج مسلسل پندرہ سال تک جدید ترین حربی مشینری استعمال کرنے کے باجود افغانستان میں حالات کو کنٹرول کرنے میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکیں، ان حالات میں دیکھا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے اپنے قبائلی علاقوں کو دہشت گرد جنگجوئوں سے پاک کرنے میں وہ کچھ کر دکھایا ہے جس کا عشر عشیر بھی کوئی دوسرانہیں کرسکا لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے کہ پاکستان کی ان قربانیوں کی تحسین کرنے کے باوجود امریکہ کی طرف سے پاکستان سے بار بار ڈومور کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے آپریشن ضرب عضب شروع کرنے سے لیکر اسے آخری مراحل تک پہنچانے کے عرصے میں بار بار اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں اور جنگجوئوں کے تمام دھڑوں کے خلاف یہ آپریشن کررہی ہے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں کی جارہی لیکن امریکہ کی سوئی بدستور اس بات پر اڑی ہوئی ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے۔ حالات اور وسائل جس حد تک جانے کی اجازت دیتے ہیں پاکستان اس سے کہیں زیادہ آگے بڑھ کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کررہا ہے لیکن اس کے سیکورٹی اور سلامتی کے اپنے بے شمار مسائل ہیں اور وہ ایک ہی وقت میں کئی محاذ کھول کر اپنے لئے نئی مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتا جبکہ امریکہ کے ارباب اختیار کا یہ عالم ہے کہ وہ پاکستان کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے جدید ترین ایف 16کے لئے زرتلافی دینے کے لئے تیار ہے نہ پاکستان سے بھاگ کر افغانستان جانے والے ملا فضل اللہ جیسے دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے پر آمادہ ہے ۔ امریکہ کی طرف سے کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت پاکستان کو جو امداد دی جاتی ہے اگرچہ وہ بھی سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم کے ذیل میں ہی آتی ہے مگر اسے بھی بار بار روک کر قسطوں کی صورت میں اس طرح دیا جاتا ہے جیسے پاکستان پر کوئی بہت بڑا احسان کیا جارہا ہے۔ مصر نے معاہدہ کیمپ ڈیوڈ کے بعد امریکہ سے جتنی امداد لی تھی اور جتنے قرضے معاف کروائے تھے اگر پاکستان کو اتنی نہ سہی اس سے آدھی سہولتیں بھی دے دی جاتیں تو وہ نہ صرف اپنے پائوں پر کھڑا ہو چکا ہوتا بلکہ وہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرنے میں بھی کامیاب ہو چکا ہوتا۔ اب امریکہ کی طرف سے سے کئے جانے ڈومور کے تازہ ترین مطالبات میں ایک پخ یہ لگائی گئی ہے کہ مدرسہ حقانیہ کی فنڈنگ پر خیبرپختوانخوا یا حکومت پاکستان سے سوال کیا جائے اصولی بات تو صرف اتنی ہے کہ یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے اس لئے اس بارے میں کسی بیرونی ملک کی جانب سے کوئی ڈکٹیشن نہیں دی جانی چاہئے لیکن ہماری حکومت کے لئے سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ وہ خود بھی اپنی مشکلات میں کوئی اضافہ نہ کرے کیونکہ اگر اس کی طرف سے کوئی غیر محتاط اقدام ہوگا تو اس کی طرف انگلیاں ضرور اٹھائی جائیں گی۔تمام جنگجو گروہوں کے خلاف بیک وقت سارے محاذ نہ کھولنے کے بارے میں حکومت پاکستان کا موقف بالکل درست ہے لیکن اسے اس ضمن میں محض ایک بیان دینے پراکتفا نہیں کرناچاہئے بلکہ بھرپور سفارت کاری کے ذریعے پوری عالمی برادری کو اس کی اہمیت و ضرورت کا قائل کیا جانا چاہئے ۔
تازہ ترین