• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے۔ کچھ ایسی ہی آج ہماری خارجہ پالیسی کی حالت ہے۔ پہلے افغان جہاد، پھر طالبان اور پھر امریکہ بہادر اور دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ پہلے جو پایا تو بہت بھگت چکے، آئندہ کیا پانا ہے تو جانے کیا کچھ ہے جو ہمارے گلے پڑنے کو ہے۔ جہادی مہمات واپس پلٹ کر ہمارے سر آن پڑیں اور ملک خون میں لت پت ہو کے رہ گیا۔ ابھی بھی مہمات جاری ہیں اور اُن کے ہم دس جواز پیدا کرنے میں کم مشاق نہیں۔ اور انتہا پسندوں کی حسِ جارحیت ہے کہ ٹھنڈا پڑنے کو نہیں۔ ہمارے منتخب وزیراعظم جنگ و جدل کے جھمیلوں میں پڑنے والے نہیں تھے اور اُن کا خطے کی معاشی چھلانگ کے ناطے بڑا ہی منفعت بخش تصور ہے، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کہیں کھو کے رہ گیا۔ اور ماضی کی چالو سلامتی کی تزویراتی پالیسیوں کی نذر ہو گیا۔ اب تنہائی ہے، دشنام طرازی اور پاکستان کو بیکار و تنہا کرنے کی سعی۔ ایسے میں چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے ایک نہایت اہم اعلان کیا ہے، جو محلِ نظر ہے۔ اُنہوں نے ببانگِ دُہل دعوت دی ہے کہ آئیں پراکسی جنگیں بند کریں۔ عندیہ اُن کا صاف ہے کہ نہ تم، نہ ہم اور نہ کوئی اور پراکسی جنگ کرے۔ اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خواہ ریاستی عناصر ہوں یا پھر غیرریاستی مہرے یا بے مہار فی سبیل اللہ فساد فی الارض والے، سب کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ غالباً یہی وہ موقف ہے جو وزیراعظم نواز شریف جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے سے پہلے سے لیتے رہے ہیں۔ اور دھرنے والوں نے اُن کے علاقائی معاشی ترقی کے وژن کا دھڑن تختہ کر کے رکھ دیا۔ اب وصالِ صنم مخدوش تر ہو گیا ہے کہ دُنیاوی خدا ناراض تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اِدھر یا اُدھر کے جہادیوں نے تو پلہ کیا پکڑانا تھا۔ بات اب یہ ہے کہ اِدھر اُدھر کی علاقائی اور عالمی طاقتوں سے نبھا رکھنے کے جتن کئے جائیں اور کیا پاپڑ پیلے جائیں کہ زندگی آسان ہو۔
عید کے بعد وزیراعظم نے پاکستان کے بیرونی سفرا کو اسلام آباد مشاورت کے لئے طلب کیا ہے کہ جانا جا سکے کہ ہم تنہا ہو کے کیوں رہ گئے ہیں اور تنہائی سے نکلنے کے کیا جتن کئے جائیں۔ ’’کہ پوچھتا ہوں ہر ایک راہ رُو سے میں‘‘ بھلا ہمارے نہایت سمجھدار سفرأ سے بہتر کون جانتا ہے کہ ہماری کہانی کوئی سنتا ہے نہ مانتا ہے اور وہ کیا پالیسی ہو جو ہماری قومی ضرورتوں اور عالمی تقاضوں کے مابین ایک قابلِ قبول توازن پیدا کر سکے اور سفارتی ابلاغ کو پورے سچ کی بنیاد پر مؤثر تر بنا سکے۔ نازک معاملات کا حل صبر آزما ہے اور جیسے کو تیسا کہنے اور کرنے کا نہیں۔ جیسے پاک افغان سرحد کے موثر انتظام و انصرام کا معاملہ فقط طور خم پر ایک جھڑپ سے طے ہونے والا نہیں، نہ ہی آپ ایک ہی ہلے میں دہائیوں سے یہاں پناہ گزین افغانوں کو بہ عافیت گھر بھیج پائیں گے۔ افغان مہاجرین جائیں اور بخیر جائیں تو ہمارے شکر اور شکرانے کے جذبات کے ساتھ اور بھائی چارے کے جذبات لئے۔ اِس پر کسی کو پختون قوم پرستی کی بے محل بین بجانے کی ضرورت قطعاً نہیں۔ پاک افغان تجارت کے ٹرک چلتے رہیں گے۔ اُن کی آمد و رفت کو یقینی بنانے کے لئے پختونستان کی رٹ لگانے کی ضرورت نہیں کہ پختونوں کا رُخ اب کابل نہیں کراچی کی طرف ہے۔ کرضئی کے ہتھے چڑھ کر پختون قوم پرستوں کو ملنے والا کچھ نہیں، ماسوا اس کے کہ اُنھیں طالبان کے امیر کے ہاتھ پہ بیعت کرنا پڑے۔
افغانستان سے اچھے ہمسائیگی کے تعلقات ہی ہر دو اطراف کے دور رس مفاد میں ہیں۔ افغانستان کو تو ہم سے کہیں زیادہ اندرونی امن اور نسلیاتی اتحاد کی ضرورت ہے۔ ایسے میں جب سب کچھ عالمی خیرات و اعانت سے چل رہا ہو تو قدیم افغانی رعونت کی بھبکیوں کے کیا معنی؟ ضرورت قدیم افغانی رعونت کی نہیں، روایتی معاملہ فہمی اور مصالحت کی ہے۔ چاہے آپ کیسی ہی خیالی پرواز کر لیں، بات کڑے زمینی حقائق سے ہی طے ہونی ہے۔ اور اس سے کس کو مفر ہے کہ خطے میں امن پاکستانیوں اور افغانستان کی باہم منحصر امن و سلامتی میں مضمر ہے۔ جنرل راحیل شریف کے بیان کا اطلاق ڈیورنڈ لائن کے آر پار ہوتا ہے۔ پھر کیا اعتراض باقی رہ جاتا ہے۔ اس بیان کا اطلاق پاک بھارت پراکسی جنگوں پہ کیا جائے تو نتائج اور بھی بہتر نکل سکتے ہیں۔
پراکسی جنگیں نئی بات نہیں ہے، خاص کر برصغیر پاک و ہند میں تو یہ روزِ اوّل سے جاری ہیں۔ بھارت کو ہندوستان کی تقسیم ہضم نہ ہوئی تو ہم نے بھی تقسیم کے غیرمکمل ایجنڈے کو مکمل کرنے کے لئے قبائلی جنگجو کشمیر بھیجے۔ ایوب خان نے آپریشن جبرالٹر کیا تو بھارت نے بھی مکتی باہنی کی تربیت کی اور بنگلہ دیش کی آزادی ممکن بنائی۔ لائن آف کنٹرول کے پار ہم نے اگر فدائین بھجوائے تو بھارت نے کونسی کمی چھوڑی کہیں بھی جلتی پہ تیل ڈالنے میں۔ اور اب جو محاذ کھڑا کیا جا رہا ہے وہ کہاں علاقائی امن کو برقرار رکھ پائے گا۔ جتنا آگ لگائیں گے، اُتنی ہی پھیلے گی۔ بہتر ہے اب سب یہ دھندہ چھوڑیں اور توبہ تائب ہو جائیں۔ ہمارے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے اور بھارت کے لئے بھی کہ بھارت کی بربادی تک یا پاکستان کی تباہی تک جنگ رہے گی کہ نعرے یا ارادے باہمی تباہی کا نسخہ ہیں اور یہ اور بھی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے جب دونوں ملک ایک دوسرے کی باہمی تباہی کے لئے ساماں کر چکے ہوں۔ دو ہمسایہ نیوکلیئر پاورز کے پاس جنگ کی راہ سلب ہو چکی، اب بات چیت اور باہمی سلامتی اور ترقی کے راستے کے سوا کوئی راہ باقی نہیں رہی، بھلے آپ کتنے ہی قوم پرستی کے دانت پیستے رہیں۔ نسلیاتی و مذہبی تفرقے بڑھانے سے سوائے تباہی کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔
اب بھارت ایشیا بحر الکاہل کی امریکہ کی معاون طاقت بننے کی جانب راغب ہے، جبکہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان پاکستان اور افغانستان مل کر ایک رابطے کا پل بن سکتے ہیں۔ دلی سے کابل اور کابل سے تہران کا قریب ترین راستہ بھی پاکستان سے گزر کر جاتا ہے۔ اور چا بہار سے بذریعہ گوادر رسل و رسائل کا اور کونسا بہتر راستہ ہو سکتا ہے۔ کابل میں دوپہر کا کھانا اور تہران میں رات کا کھانا، لاہور میں ناشتے کے بغیر آسان نہیں۔ یہ دلی والے بھی جانتے ہیں اور کابل والے بھی اور تہران والے بھی تو اس سے آشنا ہیں۔ چین پاکستان معاشی راہداری ایک سنگِ میل ہے۔ آخری نہیں۔ گوادر اور چا بہار کے مابین فقط 80 کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور گوادر پورے جنوبی ایشیا کے لئے توانائی کی فراہمی اور ایک علاقائی توانائی گرڈ (Energy Grid) کے قیام میں فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کو اپنے اپنے کور ایشوز میں سینگ پھنسانے کی بجائے عمومی تعلقات میں اعتماد اور بہتری لانے کی ضرورت ہے تاکہ تاریخی تنازعات اور حال کی الجھنوں سے نکلنے کی راہیں سوجھی جا سکیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھارت کو باہمی دفاع اور دوستی کے معاہدے کی پیش کش کی تھی، اسی قسم کی پیش کش جنرل ضیاء الحق نے بھارتی سیکرٹری خارجہ رسگوترا کے ذریعہ اندراگاندھی کو بھجوائی تھی۔ جنرل مشرف نے تو کمال پیش رفت کر کے کشمیر کے مسئلے کا قابلِ عمل حل بھی نکال لیا تھا کہ اُنھیں وکلاء برادری پڑ گئی۔ وزیراعظم نواز شریف کا علاقائی وژن تو اور بھی وسیع تر ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی قیادت، پارلیمنٹ، عسکری نمائندے اور سفارت کار سر جوڑ کر بیٹھیں اور خطے اور دُنیا کے لئے پاکستان کی نئی عملیت پسند حکمتِ عملی طے کریں۔ پاکستان کے لئے سلامتی کا ایک ہی نکتہ ہے، وہ ہے پاکستان کی سلامتی اور سالمیت، باقی دیگر مسئلے بعد میں آتے ہیں۔ سلامتی کی حد کیا ہو اور سلامتی کے کونسے دعوے ہیں جو قابلِ عمل نہیں۔ ایسے اہم وقت پہ سب کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن شومئی قسمت عید کے بعد اپوزیشن میدانِ کارزار میں اُترنے کو ہے۔ البتہ سوچنے کی یہ ضرورت ہے کہ پاکستان کو موجودہ عالمی تنہائی سے نکالنے کے لئے، جمہوری مکالمے کی ضرورت ہے اور جمہوری مکالمہ ہی کرپشن کے سوال پہ کوئی قابلِ عمل نظامِ اصلاح ترتیب دے سکتا ہے۔ ورنہ پھر یہ نہ کہیے:
نہ خدا ہی ملا، نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے
تازہ ترین