• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) جو ملکی ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم ہے، کا قیام 1950ء میں عمل میں لایا گیا جس کے ملک بھر کے 44 چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز، 8 وومین چیمبرز اور 102 ٹریڈ ایسوسی ایشنز ممبرز ہیں۔ اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد صنعت و تجارت اور ایکسپورٹ کا ملک و بیرون ملک فروغ اور بزنس کمیونٹی کے مسائل حکومتی سطح پر حل کرانا ہے۔ میں گزشتہ 20 سالوں سے FPCCI میں بزنس لیڈر طارق سعید کے برسراقتدار گروپ بزنس مین پینل سے وابستہ ہوں اور FPCCI کی بینکنگ، فنانس اور ایکسپورٹس کی اہم کمیٹیوں کے چیئرمین کی حیثیت سے بزنس کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے حکومت کو قومی معاشی پالیسیوں کے لئے سفارشات دے رہا ہوں۔ اس کے علاوہ یمن کا اعزازی قونصل جنرل ہونے کے ناتے پاک یمن اور پاک یو اے ای بزنس کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے گزشتہ 10 سالوں سے پاکستان، یمن اور یو اے ای کے درمیان تجارت و سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے حکومتی سطح پر خدمات انجام دے رہا ہوں۔ کسی بھی ملک کی اپیکس باڈی ملکی معاشی پالیسیوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انڈیا میں انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FICCI) کی مشاورت کے بغیر حکومتی سطح پر کوئی بھی معاشی پالیسی تشکیل نہیں دی جاتی۔ گزشتہ سال دورہ انڈیا کے موقع پر FICCI کے صدر اور دیگر عہدیداران سے ملاقات کے دوران یہ معلوم ہوا کہ حکومت کو تجاویز و سفارشات دینے اور اس سلسلے میں ریسرچ کے لئے انڈین فیڈریشن میں درجنوں پی ایچ ڈیز اور ممتاز معیشت دان خدمات انجام دے رہے ہیں جن کے پاس صنعت و تجارت کے ہر شعبے کا قومی، ریجنل اور انٹرنیشنل سطح پر جدید ڈیٹا موجود ہے جسے دیکھتے ہوئے حال ہی میں FPCCI نے بھی ریسرچ کے لئے ایک پی ایچ ڈی معیشت دان کی خدمات حاصل کی ہیں۔
گزشتہ دنوں ایکسپورٹ ایوارڈ کے سلسلے میں میرا لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ لاہور میں قیام کے دوران میں نے پاکستان فلم اینڈ ٹی وی جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے 8 رکنی وفد جس کی قیادت ایسوسی ایشن کے صدر اطہر جاوید صوفی کررہے تھے، کی ملاقات گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے کرائی جنہیں گورنر پنجاب نے میری رہائش گاہ پر عشایئے کے دوران پنجاب آنے کی دعوت دی تھی۔ میٹنگ کے دوران مقامی ٹی وی چینل کے لاہور میں بیورو چیف سلمان غنی اور دیگر صحافیوں نے کراچی میں امن و امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس موقع پر اطہر جاوید صوفی نے گورنر پنجاب کی میزبانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُنہیں آئندہ ماہ لاہور میں ’’پاکستان میں انڈین فلموں کی نمائش‘‘ پر منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی دعوت دی۔ دوران ملاقات گورنر پنجاب نے مجھے اور وفد کے ارکان کو شیلڈ اور دیگر تحائف پیش کئے۔ میٹنگ کے بعد گورنر پنجاب مجھے اپنے مہمان گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی کے ہمراہ الحمرا کے تاریخی ہال لے گئے جہاں ملک کے ممتاز فنکاروں کے ساتھ موسیقی کی خصوصی محفل کا انعقاد کیا گیا تھا۔ محفل میں بانسری اور وائلن کی خوبصورت دھنیں پیش کی گئیں جبکہ استاد حامد علی خان اور ممتاز گلوکارہ ثریا ملتانیگر کی بیٹی راحت بانو ملتانیگر نے ایک سماں باندھ دیا۔
لاہور میں قیام کے دوسرے روز میں نے FPCCI ایکسپورٹ ایوارڈ تقریب میں شرکت کی جس کا انعقاد FPCCI گزشتہ 37 سالوں سے کرتی آرہی ہے۔ ایوارڈ تقریب میں ملک بھر کے ممتاز ایکسپورٹرز کو اُن کے شعبوں میں بہترین ایکسپورٹ کارکردگی پر صدر یا وزیراعظم ایوارڈز سے نوازتے ہیں۔ اس بار 2013ء کی ایکسپورٹ ایوارڈ تقریب کے مہمان خصوصی وزیراعظم میاں نواز شریف تھے جبکہ تقریب میں گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی، وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مہدی شاہ، وزیر تجارت خرم دستگیر، فیڈریشن کے صدر زبیر احمد ملک، بزنس لیڈر طارق سعید کے علاوہ ملک بھر سے آئے ہوئے ممتاز صنعت کار اور ایکسپورٹرز بڑی تعداد میں شریک تھے۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور وزیراعلیٰ شہباز شریف، سعودی پرنس سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز اور اُن کے وفد کے اعزاز میں گورنر ہائوس پنجاب میں دی گئی ضیافت میں مصروفیت کے باعث ایکسپورٹ ایوارڈ کی اس تقریب میں شرکت نہ کرسکے۔ ایکسپورٹ ایوارڈ کی تقریب کا پنڈال مہمانوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ تقریب میں ملک بھر کے وہ تمام ممتاز ایکسپورٹرز بھی موجود تھے جنہوں نے توانائی کے شدید بحران اور امن و مان کی بگڑتی صورتحال کے باوجود ملک کو 24 بلین ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ کماکر دیا تھا۔ اس موقع پر ایوارڈ یافتہ ایکسپورٹرز کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے کیونکہ آج اُنہیں سال بھر کی محنت کا صلہ ملنے والا تھا۔ اس سال پاکستان بھر کے 61 ممتاز ایکسپورٹرز جن میں کچھ خاتون ایکسپورٹرز بھی تھیں، کو مختلف کیٹگریز میں ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہماری کمپنی پاک ڈینم لمیٹڈ مسلسل گزشتہ 15 سالوں سے ڈینم کی ایکسپورٹ پر ایوارڈ حاصل کررہی ہے۔ اس سال بھی ہماری کمپنی نے ایکسپورٹ ایوارڈ حاصل کیا جسے میں نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے وصول کیا جس پر میں اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر گزار ہوں۔ اس موقع پر مجھے اپنے بھائی اشتیاق بیگ کی کمی شدت سے محسوس ہوئی جو میک اے وش انٹرنیشنل کی ’’سالانہ وش لیڈر کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لئے امریکہ گئے ہوئے ہیں۔ ایکسپورٹ ایوارڈز میں کچھ ایسی کیٹگریز بھی شامل تھیں جو اُن اداروں یا شخصیات کے لئے مختص تھیں جنہوں نے کارپوریٹ سوشل رسپونسبیلٹی (CSR) کے تحت سماجی خدمات انجام دی ہوں۔ اس بار نیشنل بینک آف پاکستان کے نئے صدر سید اقبال اشرف کو CSR ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے علاوہ کاٹن یارن کی ایکسپورٹ میں عمدہ کارکردگی پر مسعود ٹیکسٹائل کے شاہد نذیر نے ایوارڈ حاصل کیا۔ یاد رہے کہ چین کی کمپنی روئی نے حال ہی میں مسعود ٹیکسٹائل میں اربوں روپے کی نئی سرمایہ کاری کے لئے جوائنٹ وینچر کیا ہے۔
ایوارڈز کی تقسیم کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف نے تمام ایوارڈز یافتگان کو مبارکباد دیتے ہوئے اُن سے فرداً فرداً مصافحہ کیا اور ایکسپورٹ میں اضافے پر تبادلہ خیال کیا۔ بعد ازاں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے وزیر تجارت کو ملکی ایکسپورٹ دگنا کرنے کا ہدف دے دیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کا کام ہوٹل یا فیکٹریاں چلانا نہیں بلکہ بزنس کے لئے پالیسیاں اور سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔اس موقع پر انہوں نے بزنس کمیونٹی کو یقین دلایا کہ وہ امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ گیس کی قلت سوا سال اور بجلی کا بحران 3 سال میں ختم کردیں گے۔ وزیراعظم نے ملک میں سرمایہ کاری اور ایکسپورٹ کے فروغ کے لئے ملک کے ممتاز صنعت کاروں، ایکسپورٹرز، بزنس مینوں اور اعلیٰ حکومتی عہدیداران پر مشتمل بزنس مین ایڈوائزری کونسل کے قیام کا بھی اعلان کیا جس کا مقصد بزنس میں حائل رکاوٹوں کو فوری طور پر دور کرنا اور تجارت و سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے تاکہ ملک میں ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کئے جاسکیں۔ وزیراعظم نے وعدہ کیا کہ وہ ہر 3 ماہ بعد اس ایڈوائزری کونسل کی صدارت خود کریں گے۔
ایکسپورٹ ایوارڈ ملنے سے جہاں ایک طرف ایکسپورٹرز میں یہ حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن کی خدمات کو قومی سطح پر سراہا گیا ہے، وہاں دوسری طرف اُن ایکسپورٹرز کے غیر ملکی خریداروں کو بھی یہ مثبت پیغام ملتا ہے کہ وہ جس کمپنی سے بزنس کررہے ہیں، وہ ایک معروف اور بااعتماد کمپنی ہے جس کا اعتراف حکومت نے بھی کیا ہے، اس طرح کمپنی پر اُن کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ کمپنی کے ملازمین کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ موجودہ حالات میں جب ملک توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے اور روز بروز امن و امان کی صورتحال بگڑتی جارہی ہے، ایکسپورٹ ہدف حاصل کرنا انتہائی خوش آئند بات ہے جس کا تمام تر سہرا ہمارے ایکسپورٹررز کو جاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ وزیراعظم کے حالیہ اقدامات سے بزنس مینوں، صنعت کاروں اور ایکسپورٹرز کے اعتماد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملکی ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوگا۔
تازہ ترین