• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل یا تو بات مذاکرات کی ہورہی ہے یا آپریشن کی اور وہ بھی فوجی آپریشن کی۔ طالبان ریاست کو اس طرح چیلنج کررہے ہیں جیسے وہ کوئی ماورائے ریاست قوت بن گئے ہیں اور ان کو اب پاکستان اور اس کا آئین اور وجود ایک حقیقت نظر نہیں آتا بلکہ دہشت پھیلا کر اور عام نہتے اور بے قصور انسانوں کا خون کرکے وہ سب کو مجبور کردیں گے کہ ان کی بات مان لی جائے۔ہماری سیاسی قیادت کیونکہ کمزور اور کرپٹ ہے وہ فیصلہ نہیں کرپا رہے کہ کونسا راستہ اپنایا جائے۔ چھ سال زرداری کی پی پی پی کی بلکہ اگر میں کہوں کہ زرداری کی شخصی حکومت تھی اور سوائے مال بنانے کے اور اپنی ذاتی دولت اور اثاثے بنانے کے کچھ نہیں کیا تو غلط نہیں ہوگا۔ اب جمعہ جمعہ آٹھ نہیں بلکہ چھ سات دن کی عمر کے بلاول صاحب سپرمین بنے اچھلتے کودتے فرماتے ہیں کہ ریاست ناکام ہورہی ہے کوئی ان سے پوچھے کہ وہ یہ سوال اپنے ابا جان سے کیوں نہیں پوچھتے۔ میاں برادران کو بھی جلدی ہے کہ ترکی، چین، بھارت، جاپان، امریکہ یا کہیں سے بھی اربوں کھربوں کے منصوبوں کے معاہدے کرلیں اور یہ دہشت گردی کسی طرح خود بخود غائب ہوجائے۔ ہماری فوج کا بھی موقف اب واضح ہے کہ وہ اس جنگ کو اس وقت تک نہیں جیت سکتی جب تک پوری قوم باقی کام چھوڑ کر فوج کے ساتھ کھڑی نہ ہو۔ طالبان اب کہتے ہیں کہ ایک تہائی کراچی پر قابض ہوچکے ہیں۔ پنجاب میں مسلح تنظیموں کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر لشکر اور جیش اور نہ معلوم کون کون سی پرائیویٹ فوجیں بجائے اپنے اپنے کیمپوں میں اسلحہ جمع کرنے اور تربیت حاصل کرنے کے ریاست سے لڑنے لگیں تو ہر شہر اور ہر کوچے میں قتل اور غارت گری ایسی پھیلے گی کہ نہ فوج اور نہ کوئی اور سنبھال سکے گا۔ فرقہ واریت، مافیا گردی اور لاقانونیت اب بھی قابو سے باہر ہے اور مزید ایسے بھڑکے گی کہ دنیا پاکستان کو ناکام ریاست قرار دے کر اچھوت قرار دے دے گی اور تماشہ دیکھے گی کہ کس طرح ہم اپنی بقا اور اپنے وجود کو برباد کرتے ہیں۔ تو ان بڑے گمبھیر حالات میں کیا کوئی باقی ہے جو سر پکڑ کر سوچے کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ طالبان کو تو خون لگ گیا ہے اور ہماری سیاسی قیادت اور مذہبی قیادت کی کمزوری کی وجہ سے وہ اب اپنے آپ کو نئی ریاست سمجھنے لگے ہیں۔ جہاں جہاں ان کا قبضہ ہوگیا ہے وہاں پاکستانی قوانین اور پولیس کا دخل نہیں رہا۔ کراچی میں یہی ہورہا ہے اور لوگ اب اپنے فیصلے طالبان کی عدالتوں میں کروارہے ہیں۔جو قوت کراچی میں طالبان کو روک سکتی تھی وہ خود اپنے ہی جال میں پھنس کر حکومت اور ریاست کے ساتھ دست و گریبان ہے یعنی متحدہ قومی موومنٹ۔ الطاف بھائی لندن میں پھنس گئے ہیں حالانکہ انہوں نے سب سے پہلے طالبان کی بڑھتی ہوئی نفری اور طاقت کی خبر سنائی تھی مگر متحدہ بھی تو اس طرح وجود میں آئی تھی اور اب بھی الطاف بھائی اپنے پرانے طریقوں سے ہی اسے چلارہے ہیں اور اسمبلیوں اور پارلیمان میں تو پہنچ گئی مگر اصلی قوت انہی لوگوں کے پاس ہے اور وہی طریقے استعمال ہوتے ہیں جیسے مہاجر 80 اور 90 کی دہائیوں میں کرتے تھے۔ کوئی متبادل قیادت سامنے نہیں اور اب تو الطاف بھائی نے خود کہہ دیا ہے کہ اگر وہ سامنے سے ہٹ گئے تو کراچی کی گلی گلی میں متحدہ کے لوگ آپس میں جنگیں کررہے ہوں گے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ متحدہ جیسی قوت باقی سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کو روکنے میں صف اول میں ہوتی اور کراچی پر طالبان یا کوئی اور غیرجمہوری قوت نہ نظر اٹھا سکتی نہ قبضہ کرسکتی۔ یہ عفریت اگر کراچی میں پھیلا ہے تو اس کی ذمہ داری متحدہ کی قیادت کو ماننی پڑے گی۔ پختونخوا کا بھی یہی حال ہے۔ اسفند یار صاحب، زرداری کے ایسے چکر میں آئے کہ بیرون ملک بزنس بڑھنے لگا اور جس پارٹی کا یہ دعویٰ تھا کہ اس نے صوبے کا نام بدل دیا ہے وہ صوبے کی حکومت سے غائب ہوگئی اور اب والدہ صاحبہ علم بغاوت اٹھاکر سب کا تیاپانچہ کرنے کو تیار ہیں۔ سندھ میں وہی وڈیرہ شاہی ہے اور اتنی خرابی ہوچکی ہے کہ لوگ طالبان کو ہی بہتر متبادل سمجھنے لگیں گے۔ رہ گیا پنجاب تو کیا صرف یہی پاکستان رہ جائیگا باقی سب اسلامی امارات طالبان بن جائےگا۔ پنجاب کی ڈھکی چھپی ہوئی افواج باقی پاکستان کی طرح گوشہ نشین نہیں رہیں گی تو یہ موجودہ سیاسی نظام کہیں باقی نہیں رہے گا۔ بلوچستان کو تو ہم تقریباً خدا حافظ کہہ چکے اور جب وزیراعلیٰ اغوا کرنے والوں سے اپیلیں کرتے ہیں تو لگتا ہے بے چارے پھنس گئے ہیں ورنہ دبئی میں کہیں مزے کررہے ہوتے۔
تو اب کیا کیا جائے۔ فوج موجود ہے اور لڑنے کو ہر وقت تیار مگر کیا وہ یہ جنگ جیت سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے سوات اور 17 میں سے 16 ایجنسیاں کنٹرول میں ہیں۔ اگر صرف ایک شمالی وزیرستان کا مسئلہ ہے تو فوج کشی تو ہوسکتی ہے مگر اس کے بعد؟ جو لوگ جانتے ہیں وہ کہتے ہیں طالبان کو ایک Safe Passage یعنی باعزت راستہ چاہئے۔ مگر یہ بات اتنی آسان نہیں۔ ہمارا نظام ناکام ہوا ہے اور سب سے بڑی ناکامی ان اداروں کی ہے جن کا کام تھا کہ وہ حالات پر نظر رکھتے اور فوج کو باخبر رکھتے۔ جب خطرے بڑھ رہے تھے ان کو کسی نے نہ روکا۔ نہ کسی نے سیاسی قیادت کو ٹوکا زرداری صاحب نے تو سب کام چھوڑ کر ساری ذمہ داری فوجیوں کے حوالے کردی اور کیانی صاحب اس سسٹم کو بچانے میں لگے رہے جو وہ مشرف کے ساتھ مل کر لائے تھے۔ تو اب کیا کیا جائے۔ فوری ضرورت ہے کہ میاں برادران کو سمجھایا جائے کہ ہر جگہ اپنے بندے لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ملک میں ایماندار اور فرض شناس لوگوں کی کوئی کمی نہیں۔ اپنی پسند ناپسند کو چھوڑیں اداروں کو خود چلنے دیں اور آپ ملک کی عوام کو اور سیاسی پارٹیوں کو اکٹھا کریں۔ لوٹ مار اور لُٹو اور پُھٹو بہت ہوچکا۔ بجائے اربوں اور کھربوں کو صرف اس لئے ضائع کریں کہ انکی بیٹی ایک لیڈر بن جائے وہ انہی اربوں کو ملک کی جاسوسی کے اداروں میں لگائیں۔ ہزاروں لوگ بھرتی کریں کہ وہ ہر گوشے کی خبر لائیں۔ جہاں گڑبڑ ہو وہاں طاقت کا استعمال کیا جائے مگر پہلے اس چوری چکاری کے کلچر سے نکلیں۔ عمران خان ایک امید کی کرن بن کر آئے تھے مگر وہ اتنے الجھے ہوئے لگتے ہیں کہ ان کو Big Picture یعنی چھپا ہوا کمرے کا ہاتھی نظر ہی نہیں آتا۔ یہ لوگ اگر اسی طرح الیکشن کمیشن کی دھاندلیوں اور نادرا اور پیمرا کے چکروں میں پھنسے رہے تو کشتی ڈوب جائے گی یا طالبان جیسے دہشت گرد ان سب کو کشتی سے باہر دریا میں پھینک دیں گے۔ یہ جنگ لمبی ہے اور سب کو مل کر لڑنی ہے۔ یہی تیسرا آپشن ہے۔ جو طالبان بات کرنا چاہیں ان سے مذاکرات ضرور کریں مگر باقیوں کو طاقت سے ٹھیک کریں۔ اپنی اپنی ایک اینٹ کی مسجدیں اور پارٹیاں کسی کو نہیں بچاسکیں گی۔ قوم کا اعتماد حاصل کریں اور فوج کو حکم دیں مگر اس طرح نہیں کہ فوج جنگ شروع کرے اور جب دشمن جواب دے تو آپ بھاگ لیں۔ سب کو مل کر لڑنے کو تیار رہنا ہوگا مگر پہلے اپنا گھر ٹھیک کرلیں۔ وقت کم ہے اور حالات تیزی سے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔ عقل کے ناخن مہنگے بھی ملیں تو خرید لیں۔
تازہ ترین