• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت نے چند ہفتے قبل اپنے انتخابی منشور کی روشنی میں پی آئی اے،ا سٹیل مل سمیت مختلف اداروں کی نجکاری کا بڑے زور و شور سے اعلان کیا اور اس کے لئے بورڈ آف انویسٹیمنٹ میں اطمینان سے بیٹھے کام کرتے ہوئے چیئرمین محمد زبیر کو اپ گریڈ کرکے نجکاری کمیشن کا چیئرمین بنادیا جنہوں نے فرمانبرداری سے وزیر اعظم نواز شریف کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کیا اور پوری سپرٹ سے نجکاری کمیشن کو دوبارہ فعال بنانے کے لئے کام شروع کردیا۔ ان کی نگرانی میں ہنگامی بنیادوں پر ایگزیکٹوز بورڈ بنایا گیا اور اس کے پہلے اجلاس میں دو مرحلوں میں 20 سے زائد اداروں کی نجکاری کا جامع پلان بنالیا گیا۔ اس دوران ریلوے کے وفاقی وزیر سعد رفیق سمجھدار نکلے، انہوں نے کمیشن کے قیام سے قبل ہی ریلوے کو نجکاری سے بچانے اور خود اپنی صلاحیتوں سے اسے چلانے کا اعلان کرکے پارٹی کے اندر اور باہر سب کو حیران کردیا اور دوسری طرف ریلوے کے اربوں روپے کے اثاثے ہضم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والے حکومت کے اندر اور باہر کے طاقتور لوگوں کو پریشان کردیا جن کا خیال تھا کہ وزیر ریلوے جذباتی آدمی ہیں وہ پارٹی کے کئی سینئر ساتھی حتیٰ کہ ا سپیکر قومی اسمبلی یا کسی اور اعلیٰ شخصیت کے چہیتے کو ریلوے کی زمین،ٹریک یا دیگر اثاثے غیر ملکی خریدار کمپنی کے نام پر دینے پر رضامند ہوجائیں گے۔
انہوں نے ایک سے زائد بار اس سوچ اور ایجنڈے کے برعکس اعلان کردیا کہ ریلوے کی نجکاری نہیں ہوگی، نہ ایسا کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد قدرے نوجوان وزیر کے طور پر انہوں نے ریلوےکو بچانے اور چلانے کا کام شروع کردیا۔
پچھلے180۔200 دنوں میں اسی ریلوے نے جو سالانہ اوسطً 30 ارب روپے کے خسارے تک پہنچ چکا تھا اس میں بہتر انتظامی گورننس کے ذریعے ساڑھے تین ارب روپے اضافی کمالئے، گڈ ز ٹرینوں کی تعداد بھی 25 کردی جو پہلے صرف8 رہ گئی تھی، اب50 فیصد سے زائد گاڑیاں وقت پر چل رہی ہیں اور وقت پر ہی منزل پر پہنچ رہی ہیں۔ ریلوے تیل ،ڈیزل کے ذخائر کو12 دنوں تک لے گئے،غرض وہ ریلوے کی نجکاری رکوانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ اچھا قدم تھا جس کا احساس اب شاید وفاقی حکومت کو بھی ہونے لگا ہے۔ اسلئے کہ کراچی ،لاہور سمیت مختلف مقامات پر کئی قومی اداروں کی نجکاری کے خلاف احتجاج کا سلسلہ آنے والے دنوں میں بڑھ سکتا ہے۔ اس پس منظر میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں یہ ہدایات جاری کردی ہیں کہ سالانہ 500 ارب روپے ہضم کرنے والے مختلف اداروں کی فروخت کو’’پرائیوٹائزیشن‘‘ نہیں کیا جائیگا بلکہ یہ کیا جائیگا کہ ان اداروں کے26 فیصد حصص فروخت کئے جائیں گے۔ اس سے ان کے خیال میں پرائیوٹائزیشن کے خلاف مختلف حلقوں کے ردعمل کو ٹھنڈا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی و اقتصادی حلقوں میں یہ رائے دی گئی ہے کہ شاید حکومت نے اپنے نجکاری پروگرام پر عملدرآمد میں کوئی یوٹرن لے لیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات ٹھیک ہو کیونکہ وفاقی کابینہ اور حکومتی سطح پر سو فیصد لوگ ان اداروں کی نجکاری کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کے مطابق ان اداروں میںانتظامی اصلاحات کرکے سالانہ 500 ارب روپے یا زائد کی کرپشن، بدعنوانی، نقصانات وغیرہ کو روکا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے حکومت کو چاہئے کہ ان اداروں کے بورڈ میں صرف’’YES‘‘ کہنے والے نہیں بلکہ اقتصادی اثرات کے ساتھ ساتھ اپنے فیصلوں کے سماجی اثرات کے ماہرین کو بھی شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،جن میں ان اداروں میں یونینوں کے نمائندوں یا ان کے ریٹائرڈ سینئر افراد کیInput لینے میں کوئی عار نہیں سمجھنی چاہئے۔ عقل صرف اسلام آباد کا نظام چلانے والوں کے پاس نہیں ہوتی، اچھے مشورے اور تجاویز کسی کے ذہن میں بھی ہوسکتی ہے۔ وزیر خزانہ نجکاری کمیشن کی ٹیم کے ہمرا ہ مختلف شعبوں کے ماہرین سے مشاورت کرلیں اور انہیں اپنی باتیں سنانے کی بجائے ان کی سنیں ،ہم سب مانتے ہیں کہ ان اداروں میں لوٹ مار یا مالی و انتظامی بے قاعدگیوں کی داستان بڑی لمبی ہے۔ اس حمام میں پچھلے پندرہ بیس سال کے سب حکمران برابر ہی نظر آتے ہیں۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ قومی سطح پر سپریم کورٹ کے کسی غیر متنازعہ سابق جج کی سربراہی میں پہلے ان اداروں کے حالات کا جائزہ لیاجائے اور پھر ان کے26 فیصد حصص فروخت کرنے کی طرف قدم بڑھائے جائیں۔ یہ امر اس لئے ضروری ہے کہ اس وقت مقامی سطح پر اور عالمی سطح پر اقتصادی حالات ایسے نہیں ہیں کہ ہمیں کھربوں روپے کے ان اداروں کو’’اونے پونے‘‘ ریٹ پر فروخت کردیا جائے یا ان کی نجکاری کردی جائے۔ ایسا کرنے سے حکومت کچھ کرے یا نہ کرے ان پر مختلف اداروں کو بندر بانٹ کا الزام لگ جائیگا، پھر ان کا فرینڈلی میڈیا بھی اپنی نرمی ختم کرکے پیشہ وارانہ تقاضے پورے کرتے ہوئے’’گرمی‘‘ دکھا سکتا ہے۔ اس لئے حالات کا احساس کرتے ہوئے اقتصادی نقطہ نظر سے وہ فیصلے کئے جائیں جس کے دور رس نتائج برآمد ہوں اور اس سے ملک و قوم کو بڑھتی ہوئی اقتصادی مشکلات سے نجات مل سکے۔ ویسے قومی اداروں کی نجکاری کو26 فیصد حصص کی فروخت کہنا یا شیئرینگ پارٹیر شپ کہنا کان کو ٹیڑھے طریقے سے پکڑنے کی باتیں ہیں۔
تازہ ترین