• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی طرح کی عملی مشکلات کے باوجود حکومت اور طالبان کے درمیان کمیٹیوں کی سطح پر مذاکراتی عمل آگے بڑھ رہا تھا اور توقع یہی تھی کہ فریقین ایک دوسرے کے مطالبات کے حوالے سے جلد ہی کسی مثبت نتیجے پر پہنچ جائیں گے مگر طالبان کے ایک گروپ کے ہاتھوںایف سی کے 23 مغوی اہلکاروں کے قتل سے صورت حال میں یک لخت ایک نیاموڑ سامنے آ گیا ہے۔کالعدم تحریک طالبان مہمند ایجنسی نے مبینہ طور پر ایک خط اور ویڈیو پیغام کے ذریعے جون 2010ء میں شونگڑی پوسٹ سے اغواء کئے جانے والے ایف سی اہلکاروں کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ انہیں کراچی میں طالبان کے دو دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا بدلہ لینے کے لئے مارا گیا ہے اس نئی صورت حال کے پیش نظر حکومتی کمیٹی نے پیر کو طالبان کمیٹی سے طے ہونے والی ملاقات ملتوی کر دی اور طالبان سے وضاحت طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس المناک واقعے کے منظر عام پر آنے سے ایک ہی روز قبل طالبان شوریٰ کی طرف سے یہ اطلاع ملی تھی کہ اس نے سیز فائر کے اعلان سے اتفاق کر لیا ہے لیکن ساتھ ہی مطالبہ کیا ہے کہ بوڑھوں، بچوں اور خواتین سمیت غیر جنگجو طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا جائے اور جنوبی وزیرستان سے فوج واپس بلائی جائے حکومتی کمیٹی نے بھی طالبان کی تحویل میں موجود بے گناہ مغویوں کی رہائی اور کم سے کم ایک ماہ کے لئے فائر بندی کا مطالبہ کیا تھا اس معاملے پر پیر کو مذاکراتی کمیٹیوں کی ملاقات میں غور ہونا تھا مگر ایف سی اہلکاروں کی شہادت آڑے آ گئی اس پر طالبان کمیٹی کے ارکان اور کوآرڈی نیٹر نے بھی تشویش اور اضطراب کا اظہار کیا ہے کمیٹی کے فوری طور پر بلائے گئے اجلاس کے بعد جو وضاحتی بیان جاری کیا گیا اس میں 23اہلکاروں کے قتل کی مذمت کی گئی اور زور دیا گیا ہےکہ دونوں کمیٹیاں مل کر طالبان سے اس کی وضاحت طلب کریں اور امن مذاکرات جاری رکھنے کوششیں کی جائیں جبکہ حکومتی کمیٹی کا بھی باہمی مشاورت کے لئے اجلاس متوقع ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ قتل کا فیصلہ طالبان شوریٰ نے کیا یا یہ صرف ایک گروپ کی کارروائی ہے مہمند ایجنسی کے طالبان گروپ کے سربراہ طالبان شوریٰ میں بھی شامل ہیں اس لئے حتمی طور پہ نہیں کہا جا سکتا کہ طالبان قیادت کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں اگر واقعی وہ اس سے بے خبر ہے تو اسے اس گروپ کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ اس امر پر اتفاق ہوجانےکے بعد بھی کہ بات چیت کے دوران دونوں فریق ایسی کارروائیوں سے اجتناب کریں گے جن سے مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہو طالبان کی جانب سے پہلے کراچی میں پولیس بس پر حملہ اور اب ایف سی کے مغوی اہلکاروں کا قتل ناقابل فہم ہے۔ایسے حالات میں جبکہ دونوں طرف سے لاتعداد لوگ دہشت گردی کی جنگ کا نشانہ بنے بدلہ لینے کی روایت کو درست مان لیا گیا تو پھر یہ سلسلہ کبھی رکنے والا نہیں اور امن کا خواب محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا طالبان اسلام کی بات کرتے ہیں جو امن و سلامتی کادین ہے اس میں بے گناہ لوگوں کے قتل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ قیدیوں کی حفاظت پر تو خاص طور پر زور دیا گیا ہے بہتر ہو گا کہ جن احکامات پر علماء امت کا اجماع ہے طالبان ان کی سختی سے پاسداری کریں ریاست سے ان کا اختلاف امریکہ کی حمایت کے مسئلہ پر شروع ہوا اب جبکہ امریکہ افغانستان سے جانے والا ہے تو انہیں ریاست اور اس کے بے گناہ عوام کے خلاف جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لینی چاہئے اور اپنے مطالبات کے حوالے سے حکومت سے جاری مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہئے وزیراعظم نواز شریف نے حکومتی کمیٹی کے رابطہ کار سے بات چیت کے دوران درست کہا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی سب کی ذمہ داری ہے طالبان قیادت کو بھی خلوص نیت سے یہ ذمہ داری نبھانی چاہئے اور ایسے گروپوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے جو مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں امن اس وقت قوم کی سب سے بڑی ضرورت ہے جو ہتھیاروں کے استعمال سے نہیں مذاکرات کی میز پر افہام و تفہیم سے ہی حاصل ہو سکتا ہے حکومت اور طالبان دونوں کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن کی جانب پیش قدمی جاری رکھنی چاہئے۔

ریلوے تخریب کاری!
پیر کے روز جیکب آباد کے قریب باہو کھوسہ تھانے کی حدود میں ریلوے ٹریک پر ریموٹ کنٹرولڈ دھماکہ سے خوشحال ایکسپریس کی تین بوگیاں تباہ ہوگئیں۔ اس حادثہ میں 7 افراد جاں بحق اور 60 زخمی ہوئے ہیں۔ خبر کے مطابق ایک اور بم بھی نصب کیا گیا تھا جسے ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔ خوشحال ایکسپریس کو گزشتہ ایک ماہ میں دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا یہ دوسرا واقعہ ہے اور دھماکہ میں ریل کی چین ٹوٹ گئی جس کے باعث تین بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔ اگر چین نہ ٹوٹتی تو پوری ٹرین الٹ جاتی جس سے بڑی تباہی ہونی تھی۔وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ مسافر ٹرینوں اور ریلوے ٹریک کی حفاظت کے لئے موثر سیکورٹی پلان تیار کیا جارہا ہے۔ریلوے ٹریک پر خصوصاً بلوچستان کے علاقے میں بم دھماکے کئے جارہے ہیں جس سے ریل کا سفر غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے۔ پہلے ہی ریلوے شدید خسارے سے دوچار ہے اور انجنوں کی کمی، انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے ریلوے ٹائم ٹیبل متاثر ہوا ہے۔ پہلے تو گاڑیاں کئی کئی گھنٹے لیٹ ہوتی رہی ہیں جس سے مسافروں کو دشواریوں کا سامنا تھا اور خسارہ بڑھتا جارہا ہے اور ریلوے کی نجکاری کرنے پر غور کیا جارہا تھا۔ تاہم ریلوے کے موجودہ وزیر ریلوے لائنوں ، گاڑیوں اور سگنلنگ سمیت محکمے کے نظام میں کسی حد تک بہتری لانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ٹرینوں کا شیڈول بھی بہتر ہوا ہے تو بم دھماکوں کی وجہ سے ایک بار پھر ریلوے کی کارکردگی متاثر ہوسکتی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل انگریزوں کے دور میں ریل گاڑیاں چلانے کا سلسلہ شروع کیا گیا تو وقت بھی ریلوے ٹریک کی حفاظت کو اولین ترجیح قرار دیا گیا تھا اور ریل کی پٹڑی کی سکیورٹی کا موثر نظام موجود تھا۔ اس وقت جب دہشت گردوں نے ریلوے ٹریک کو نشانہ بنایا ہوا ہے اور صرف ایک ٹرین خوشحال ایکسپریس پر ایک ماہ میں دو بار بم دھماکے کئے گئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ریلوےلائنوں کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر ریلوے نے قوم کو یقین دلایا ہے کہ جلد ریل کے سفر اورٹریک کو محفوظ بنادیا جائے گا۔ اب اس یقین دہانی پر عمل درآمد کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

پاکستان اور بھارت کے نرخوں میں فرق کیوں؟
پاکستان میں قدرتی گیس کی موجودہ قلت کا فوری حل قطر سے مائع قدرتی گیس کی درآمد کی شکل میں تلاش کیا گیا ہے۔دستیاب معلومات کے مطابق حکومت قطر سے پندرہ سال کے لیے ایل این جی کی درآمد کا معاہدہ کیا جانے والا ہے جس میں پانچ سال کی توسیع کی گنجائش بھی رکھی جائے گی۔ گیس کے بحران کا یہ بلاشبہ ایک اچھا حل ہے لیکن معتبر ذرائع کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی یہ خبر کہ بھارت قطر سے جو گیس دس سے بارہ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو درآمد کررہا ہے پاکستان کے لیے اسی گیس کے نرخ17 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہوں گے ، انتہائی قابل غور ہے۔ سوئی سدرن گیس کے بورڈ آف ڈائرکٹرز اور سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ قطر سے درآمد کی جانے والی ایل این جی کے یہ نرخ موجودہ بین الاقوامی قیمت کی بناء پر ہوں گے جس میں دیگر چارجز کی شمولیت کے بعد ایک ڈالر کا اضافہ ہوجائے گا جبکہ ماہرین کے مطابق مختلف محاصل اور اخراجات کے شامل ہونے کے نتیجے میں صارفین کو یہ گیس بیس ڈالر فی یونٹ پر دستیاب ہوسکے گی۔ پاکستان اور بھارت کے لیے نرخوں میں اتنا ہرگز فرق قابل فہم نہیں ہے اور اس کے مضمرات پاکستان کے لیے بہت نقصان دہ ہوں گے۔سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین نے اس صورت حال کی جانب توجہ دلائے جانے پر کہا ہے کہ قطر سے معاہدہ کئے جانے سے قبل بھارت اور قطر کے معاہدے کا جائزہ بھی لیا جائے گا اور حکومت پاکستان بہتر معاہدہ کرے گی ۔اس یقین دہانی کو عملی حقیقت بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔قطر کی جانب سے معاہدے کی جو پیش کش کی گئی ہے بتایا گیا ہے کہ اس میں نرخوں میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔ یعنی اگر ایک بار زیادہ نرخ طے پاگئے تو پھر پندرہ بیس سال کے لیے پاکستان کوا ن کی پابندی کرنا ہوگی۔ ظاہر ہے کہ ایسا معاہدہ گھاٹے کا سودا ہوگا لہٰذا معاہدے کی شرائط کوبہتر اور قومی مفاد کے مطابق بنانا ضروری ہے۔
تازہ ترین