• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عام تاثر ہے کہ دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جو سوچتے ہیں ، لگاتار سوچتے ہیں اور سوچتے ہی رہتے ہیں، دوسرے وہ جو سوچتے نہیں، کبھی نہیں سوچتے۔ جو لوگ سوچتے رہتے ہیں وہ جوڑوں کے درد میں مبتلا رہتے ہیں، ان کے گھٹنے چلنے پھرنے سے جواب دے جاتے ہیں۔ ان کی بینائی کم ہو جاتی ہے۔ ایسے میں خوبصورت پڑوسن کو اپنی بیوی اور اپنی بیوی کو پڑوسن سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ غلطی سے میں نے کسی افسانے میں ذیابیطس کو ضیابیتس لکھ دیا تھا۔ پروف ریڈر املا کے معاملے میں مجھ سے بھی گئے گزرے تھے۔ انہوں نے بھی ذیابیطس کو ضیابیتس ہی رہنے دیا۔ افسانہ شائع ہو گیا۔ پھر کیا تھا، جیسے شامت اعمال کا دروازہ کھل گیا۔ وہ زمانہ تھا مرد مومن جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کا۔ اٹھانے والے مجھے اٹھا کر لےگئے۔ مجھے مختلف نوعیت کے عذاب دینے اور اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کے بعد انہوں نے یقین کر لیا کہ میرے سر میں بھیجے کے بجائے کسی چڑیا کا ویران گھونسلا پڑا ہوا تھا۔ انہوں نے ضیابیتس کو املا کی غلطی سمجھ کر مجھے گھر جانے دیا مگر میں آج تک بھٹکتا پھر رہا ہوں کہ میرا گھر کہاں ہے؟
عام تاثر ہے کہ جو لوگ سوچتےنہیں وہ خوش رہتے ہیں۔ وہ بات بات پر قہقہے لگاتے ہیں۔ بم دھماکے میں بیس افراد کے مرنے کی خبر سن کر وہ زوردار قہقہہ لگاتے ہیں ہاہا ہاہا۔ خواہ مخواہ مسکراتے رہتے ہیں۔ میت کے ہمراہ قبرستان جاتے ہوئے مسکراتے رہتے ہیں اور گنگناتے رہتے ہیں جو مر گیا وہ کھپ گیا اور تدفین کے بعد قبرستان سے گاتے ہوئے واپس آتے ہیں۔ ’’یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے، کوئی ہو نہ ہو، لیکن ہم ضرور ہوں گے‘‘ حتیٰ کہ ایسے اشخاص بیوی کی المناک موت کے باوجود مسکراتے رہتے ہیں اور جب بیوی کی میت کو دفن ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تب بے ساختہ ان کے منہ سے ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔
یہ تاثر کہ کچھ لوگ سوچتے رہتے ہیں اور کچھ لوگ سوچ نہیں سکتے نہ تو مکمل طور پر درست ہے اور نہ ہی مکمل طور پر غلط ہے۔ جب سوچنے والے نہیں سوچتے تب سوچنے کی صلاحیت سے محروم مجھ جیسے لوگ سوچنے لگتے ہیں۔ سننے والے جب سننا چھوڑ دیتے ہیں تب مجھ جیسے بہرے سننے لگتے ہیں۔ جب دیدہ ور دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں تب مجھ جیسے اندھے دیکھنے لگتے ہیں۔ جب بولنے والے بولنا چھوڑ دیتے ہیں تب مجھ جیسے گونگے بولنے لگتے ہیں۔ موجودہ حالات میں جب سوچ سمجھ رکھنے والوں نے سوچنا چھوڑ دیا تب مجھ جیسے ناسمجھ لوگوں نے سوچنا شروع کردیا ہے۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک سوچنے والے نہیں سوچیں گے۔ جس روز منجمد سوچ رکھنے والے پھر سے سوچنے لگیں گے اس روز سے ہم بونگے سوچنا چھوڑ دیں گے۔
مزاروں پر حاضری دینا، حاضری نہ دینا کسی کا بھی بنیادی حق ہے اس حق سے کسی کو روکنا غیر جمہوری عمل ہے اگر انسان کا یہ فعل ثواب اور گناہ کے زمرے میں آتا ہے تو یہ انسان اور رب کے بیچ کا معاملہ ہے۔ جس میں کسی کو دخل دینے کا اختیار نہیں ہے۔ پچھلے سال طالبان نے پشاور میں صوفی شاعر رحمٰن بابا کے مقبرے پر بموں سے حملہ کیا تھا۔ پچھلے دنوں کوئٹہ کے قریب انہوں نے بلوچی صوفی شاعر مست توکلی کے مقبرے پر بموں سے حملہ کیا۔ کچھ بعید نہیں کہ کل کلاں وہ سلطان باہو اور بلھے شاہ کے مقبروں پر راکٹ برسائیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ سچل سرمست اور شاہ لطیف کے مقبرے تباہ کر دیں۔ ہم جو نہیں سوچ سکتے حکومت سے پوچھتے ہیں کہ طالبان سے کامیاب مذاکرات کے بعد ملک سے صوفی بزرگوں کا نام و نشان مٹا دیں گے؟ ان کے اشعار کو آگ لگا دیں گے؟ صوفی بزرگوں کے عقیدت مندوں کو کافر قرار دیکر قتل کر دیں گے؟ یہ صوفیوں کا بنیادی سوال ہے۔ برصغیر کا یہ حصہ جس پر پاکستان بنا ہوا ہے، صدیوں سے صوفیوں اور اللہ لوک بزرگوں کا مسکن رہا ہے۔ حکومت ہمیں بتائے کہ طالبان سے کامیاب مذاکرات کے بعد ہم صوفیوں کا پاکستان میں کیا حشر ہوگا؟ کیا ہمیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جائے گا یاہم سے جزیہ لیکر ہمیں زندہ رہنے دیا جائے گا؟ اس بات کی وضاحت ضروری ہے، لازمی ہے۔ پاکستان کے آئین میں ترمیم کے بعد ہم صوفیوں کو کافر قرار دیا جائے گا کچھ بتائیے کبھی نہ مسکرانے والے چوہدری نثار علی خان اور طالبان سے مذاکرات کرنے والی سرکاری ٹیم کے معزز ارکان! کچھ تو فرمائیے کچھ تو ہم فقیروں کو آگاہی دیجئے۔ طالبان سے پوچھا جائے کہ وہ پاکستان کو کس قسم کا اسلامی ملک دیکھنا اور بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں ترکی جیسا؟ مصر جیسا؟ اردن جیسا؟ دبئی، ابوظبی اور شارجہ جیسا؟ ملائیشیا جیسا؟ عمان جیسا؟ برونائی دارالسلام جیسا؟ شام جیسا؟ عراق جیسا؟ ایران جیسا؟ قطر جیسا؟ سعودی عرب جیسا؟ مالدیپ جیسا؟ لبنان جیسا؟ یا پھر افغانستان جیسا؟ آخر طالبان کچھ تو فرمائیں کہ وہ پاکستان کو کس اسلامی ملک کے جیسا ایک اسلامی ملک بنانا چاہتے ہیں؟ اس بات کا فیصلہ مذاکرات کے دوران ہونا چاہئے۔
طالبان کے زیر اثر آجانے کے بعد پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کا تعین کیسے کیا جائے گا؟ امریکہ اور یورپ والے اہل کتاب ہیں ملحد کی تشریح صرف اور صرف کمیونسٹ چین سے لگتی ہے۔ وہ پاکستان کے بڑے دوست ہیں۔ طالبان کے زیر اثر پاکستان چین کے خلاف جنگ کا اعلان کردےگا؟ ان کی طرف سے ملک گیر سطح پر چلنے والے پروجیکٹ جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیئے جائیں گے؟ حالات کتنے ہی خراب اور سنگین کیوں نہ ہوں ہمیں ملحدوں سے رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس بات کا بھی فیصلہ مذاکرات میں ہو جانا چاہئے۔ پاکستان کی آبادی میں آدھے سے زیادہ خواتین ہیں۔ طالبان کے زیراثر آجانے کے بعد ہم اپنی آدھے سے زیادہ آبادی کو گھروں میں بند کر دیں گے اور ان سے صرف بچے پیدا کرنے کا کام لیں گے؟ خواتین کا علاج کرنے کے لئے لیڈی ڈاکٹر کہاں سے آئیں گی؟
اور پھر بین الاقوامی تجارت میں لین دین کا کاروبار کس نوعیت کا ہوگا؟ کیا طالبان بین الاقوامی تجارت میں لین دین کے مروجہ سسٹم میں ترمیم کے لئے دنیا بھر کے ممالک پر زور ڈالیں گے ان کو ڈرائیں گے، دھمکائیں گے؟ اور ہمیں یہ بھی بتایا جائے کہ طالبان میں پاکستانی کتنے ہیں اور غیر ملکی یعنی افغانی، سینٹرل ایشیائی، چیچن، ازبک اور افریکی ممالک کے لڑاکو کتنے ہیں؟
ہم سرکار جواب کے متمنی ہیں
تازہ ترین