• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کے بہت سارے ممالک خصوصاً ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں نظام کو بہتر بنانے کیلئے نئے نئے تجربے کئے جاتے ہیں لیکن جب بھی کوئی تجربہ کیا جاتا ہے تو اس کے پیچھے بہت لمبی چوڑی ریسرچ اور نتائج تک کو سامنے رکھا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں بیوروکریسی نے پچھلے 67 برسوں میں ایسے ایسے تجربے کر ڈالے، اگر ان پر تھیسز لکھا جائے تو دنیا حیران رہ جائے گی اور ہر تجربے کے بعد حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوگئے۔ 1972ء کی بات ہے کہ اس وقت کے صدر پاکستان اور پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر (بعد میں وزیراعظم پاکستان) ذوالفقارعلی بھٹو نے پتہ نہیں کس ماہر تعلیم یا کس بیوروکریٹ کے کہنے پر یا خود سے یہ فیصلہ کردیا کہ تمام وہ اسکول اور کالج جو قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بھی مشن، کسی انجمن، کسی ادارے یا این جی اوز کے زیراہتمام چل رہے تھے انہیں بغیر سوچے سمجھے اور اس پر کوئی کام کئے بغیر قومی ملکیت میں لے لئے گئے۔ یہ تمام تعلیمی ادارے جن میں 1382 اسکول اور 60 کالج شامل تھے انہیں 1972ء میں مارشل لا کے حکم 118 کے تحت قومی ملکیت میں لے لیا گیا تھا۔ اس دوران مختلف سابق مالکان کی جانب سے عدالتوں میں کیس بھی چلتے رہے۔ جنرل مشرف جب صدر بنے تو اس وقت ایف سی کالج کے مشن کے لوگوں نے اپنا ادارہ واپس لینے کیلئے جنرل مشرف سے ملاقاتیں بھی کیں۔ جنرل مشرف ایف سی کالج کے کانووکیشن میں بھی آئے اور ہوسٹل میں اپنا وہ کمرہ بھی دیکھا مع اہل و عیال کے جہاں پر وہ بطور طالب علم بھی رہا کرتے تھے اور سننے میں یہ بھی آیا کہ بریگیڈیئر بننے تک وہ اپنے کمرے میں رہائش پذیر ہر طالب علم کو شاپنگ بھی کراتے تھے اور کالج میں آیا کرتے تھے۔ بہرحال قصہ مختصر کہ مشرف نے وہ کالج واپس کرنے کے اقدامات شروع کر دیئے اور ایف سی کالج مشن کو واپس مل گیا۔ پھر کینیئرڈ کالج اور کئی دیگر تعلیمی ادارے بھی اپنے مالکان کو مل گئے۔ اس دوران اساتذہ اور طلباء نے بہت احتجاج بھی کیا مگر کچھ نہ ہوا۔ حالانکہ اس وقت ایف سی کالج کے اولڈ اسٹوڈنٹس چوہدری پرویزالٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے اور چوہدری شجاعت بھی کئی مرتبہ وزیر رہ چکے تھے مگر دونوں صاحبان نے ایف سی کالج کی واپسی اور اساتذہ کے احتجاج پر چپ سادھ لی اور کوئی بیان تک نہ دیا۔ پہلے 1972ء میں ایک غلط فیصلہ ہوا پھر اس کے بعد 2002ء میں ایک اور غلط فیصلہ ہوا اور ادارے واپس کردیئے گئے۔ ان تمام وعدوں جو بھٹو نے تعلیم سستی کرنے اور مفت کرنے کے لئے کئے تھے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ قارئین کو یہ سن کر یقیناً حیرت ہوگی اور شاید یقین بھی نہ آئے کہ ایف سی کالج کی سالانہ فیسں صرف 600 روپے تھی اس سے بھی کم فیس گورنمنٹ کالج اور لاہور کالج کی بھی تھی۔ کئی غریب کے بچوں نے تعلیم حاصل کی اور نامور لوگ بنے۔ آج اس وقت جتنے بابے بیوروکریٹس ہیں وہ سب کے سب صرف چند آنے اور چند روپے فیس دے کر پڑھے ہیں مگر افسوس صد افسوس انہی بیوروکریٹس نے جب تعلیم اور صحت کے شعبے سنبھالے تو ایسے ایسے فیصلے کر ڈالے جس سے تعلیم مہنگی ہوگئی۔ انہی بیوروکریٹس کی پالیسیوں کی مہربانی سے ملک میں پرائیویٹ تعلیمی اداورں کی بھرمار ہوئی۔ انہی ظالموں نے کبھی اپنے قدیم اداروں کی ترقی، بہتری اور معیار کو مزید بہتر بنانے کے لئے کچھ نہ کیا۔ آج گورنمنٹ سنٹرل ماڈل ہائی اسکول لوئر مال بھی تباہی پر کھڑا ہے، خزانہ گیٹ ہائی اسکول، لدھیانہ ہائی اسکول، مسلم ماڈل ہائی اسکول، سلیم ماڈل ہائی اسکول اور لاتعداد اسکول اپنا معیار کھو چکے ہیں اور باقاعدہ ایک سازش اور سوچے سمجھے پروگرام کے تحت پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو آگے لایا گیا۔ بعض پرائیویٹ کالجوں اور اسکولوں کے بورڈ اور یونیورسٹی کے رزلٹ میں ہمیشہ مخصوص پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے بچے ہی فرسٹ آنے لگے اور جس کی بھرپور پبلسٹی کی گئی۔ ایک مافیا نے بورڈ اور یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کرپشن کی جس کے اسکینڈل بھی منظرعام پر آئے۔ دو دو سو برانچیں رکھنے والے تعلیمی اداروں نے اس ملک کے غریب اسٹوڈنٹس کے لئے کیا کیا؟ اس پر دفتر کے دفتر لکھے جاسکتے ہیں۔ بہرحال ایک لمبی کہانی ہے، حکومت نے 18 ویں ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت کا شعبہ صوبوں کے حوالے کردیا ہے۔ چنانچہ وفاق کے زیرانتظام چلنے والے کئی ادارے اب صوبوں کے پاس ہیں۔ کچھ ادارے ابھی بھی وفاق کے پاس ہیں، وہ بہت بہتر بلکہ بہترین کارکردگی دکھا رہے ہیں کیونکہ ان اداروں میں مداخلت بہت ہی کم ہے۔ اب سننے میں آیا ہے کہ حکومت برصغیر کے قدیم ترین فنون لطیفہ کی تعلیم کے ادارے نیشنل کالج آف آرٹس (میو اسکول آف آرٹ) کو بھی وفاق سے پنجاب حکومت کے سپرد کررہی ہے، وہ تاریخی ادارہ جس نے 1872ء سے آج تک ہر سطح پر بہترین خدمات اور بہترین فنکار، آرٹسٹ، ماہرین تعلیم، عالمی سطح کے لوگ پیدا کئے ہیں۔ اب اس ادارے کو پنجاب کے محکمہ تعلیم کے سپرد کیا جارہا ہے۔ این سی اے کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین وزیراعظم میاں نوازشریف ہیں جنہوں نے این سی اے کو ایک خودمختار یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا تھا مگر تاحال وہ ادارہ یونیورسٹی نہیں بن سکا۔ اب بجائے اس کو یونیورسٹی بنایا جائے اس کو وفاق سے پنجاب حکومت کے سپرد کیا جارہا ہے۔ماضی میں اس ادارے کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین وفاقی وزیر تعلیم ہوا کرتے تھے۔ جب احسن اقبال وفاقی وزیر اور اس کے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین تھے تو ہم نے ان سے اس بارے میں بات کی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ ’’یہ ادارہ وفاق کے زیرانتظام بہترین خدمات سرانجام دے رہا ہے۔‘‘این سی اے واحد تعلیمی ادارہ ہے جہاں پر چاروں صوبوں، گلگت بلتستان، فاٹا، آزاد کشمیر بلکہ مقبوضہ کشمیر کی بھی سیٹیں ہیں۔ اس ادارے میں 50 فیصد سیٹیں پنجاب کی ہیں جبکہ باقی تمام دیگر صوبوں اور علاقوں کی ہیں۔ یعنی یہ واحد ادارہ ہے جس کی چھت تلے پورا پاکستان اور مقبوضہ کشمیر تک کے سٹوڈنٹس زیرتعلیم ہیں۔ برصغیر میں جے جے اسکول آف آرٹ ممبئی کے بعد یہ دوسرا قدیم ترین ادارہ ہے۔ اس وقت یہاں کنزرویشن سائنس، فائن آرٹس، آرکیٹیکچر، ڈیزائن، فلم اینڈ ٹی وی، میوزک، انٹیریئر ڈیزائن، ملٹی میڈیا، ٹیکسٹائل، مجسمہ سازی، سرامکس، منی ایچر، فرسیکو اور خطاطی تک کی تعلیم و تربیت دی جارہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میاں نوازشریف اپنا وعدہ پورا کریں اور اس ادارے کو فنون لطیفہ کی ملک کی پہلی یونیورسٹی بنانے کا اعلان کریں۔ ایک چلتے پھرتے اور معیاری تعلیمی ادارے پر کوئی تجربہ مت کریں اور اسے وفاق کے زیرانتظام ہی رہنے دیا جائے۔ اس ادارے نے نیئرعلی ادادا، شاکر علی، استاد اللہ بخش، سعید اختر، ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری، اعجاز انور، اقبال حسن، سلیمہ ہاشمی جیسے نامور لوگ پیدا کئے ہیں۔ کیا ہم این سی اے کا تشخص اور عالمی سطح پر جو اس کا امیج ہے اس کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ ابھی فیصلہ ہوا نہیں تو ایک صوبائی بیوروکریٹ نے اس میں مداخلت شروع کردی ہے، افسوس کا مقام ہے۔ فنکار تو پوری دنیا میں سفیر کا کردار ادا کرتے ہیں۔ صادقین (سید صادقین احمد نقوی) نے پوری دنیا میں مصوری اور خطاطی میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ کہتے ہیں جب وہ بھارت اپنے آبائی شہر امروہہ گئے تو بھارتی حکومت انہیں ہاتھی پر بٹھا کر ان کے آبائی گھر لے گئی اور اندرا گاندھی (اس وقت کی وزیراعظم) نے انہیں ان کے آبائی گھر کی چابیاں تحفتاً دی تھیں جو انہوں نے واپس کردی تھیں اور ہمارے ملک میں آرٹ کے اس عظیم ادارے کے ساتھ ہم تجربے کرنے لگے ہوئے ہیں۔ عظیم درس گاہوں کو ان کے اصل نام اور تشخص کے ساتھ زندہ رکھا جاتا ہے۔
تازہ ترین