• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں لیکن اس طرح کہ خودکش حملے اور دہشت گردی کے واقعات اور بڑھ گئے ہیں ان مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلے گااس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں لیکن اس دوران طالبان نے اپنا بنیادی مطالبہ وضاحت کے ساتھ پیش کردیا ہے کہ وہ یہ جنگ و جدل اسلامی شرعی نظام کے نفاذ کے لئے کر رہے ہیں کیونکہ پاکستان کی بنیاد مذہب پر رکھی گئی تھی نیز پاکستان کا آئین بھی اسلامی آئین ہے (حالانکہ وہ اس آئین کو بھی نہیں مانتے)لیکن اس لحاظ سے وہ اپنے مطالبے میں حق بجانب ہیں کہ جس ملک کی بنیاد مذہب کے نام پر رکھی گئی ہو وہاں مذہبی نظام کا مطالبہ ان کا جائز حق ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا مذہب جو امن و آشتی کا مذہب ہے اور ایک قتلِ ناحق کو پوری انسانیت کا قتل سمجھتا ہے۔ اس کے نفاذ کے لئے بے گناہوں کا خون بہانا بذاتِ خود ایک غیر اسلامی عمل ہے۔ صرف یہی نہیں طالبان کے نظام ِ اسلام سے دیگر اکثر مذہبی جماعتیں بھی متفق نہیں لیکن اس کے باوجود ان کے مطالبے کو ’’ناجائز‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ہم نے اپنے آئین میں اس بات کی اجازت دے رکھی ہے ۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ انقلابِ فرانس سے پہلے پوری عیسائی دنیا بھی اسی قسم کی صورتِ حال سے دوچار تھی۔ مذہب اور سیاست کے اس ملاپ نے ملکی سطح پر فرقہ بندی کو اس قدر عروج دے دیا تھا کہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے آئے روز کے تصادم میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گئے اور عیسائی دنیا معاشی اور سائنسی لحاظ سے پسماندہ تھی۔ ’’(Story of ManKind) نوعِ انسان کی کہانی کا مولف مشہور تاریخ دان ہنڈرک وان لون لکھتا ہے کہ سیاست میں چھائے ہوئے مذہبی افراد نے آج سے ایک ہزار سال پہلے عیسائیوں کو اتنا جاہل اور توہم پرست بنا دیا تھا کہ اگر کسی کی داڑھ میں درد ہوتا تو منتر پڑھ کر اس پر پھونکتے اور طبیب کو اور اس کی حکمت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے کیونکہ علم اور حکمت مسلمانوں اور بے دینوں کے ہاں سے آئی تھی‘‘۔
وہاں بھی ہر مذہبی گروہ اپنے اپنے وضع کردہ مسیحی شرعی نظام کے لئے گتھم گتھا رہتا تھا اور وہ جب چاہتے غیر مسیحیوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا آغاز کر دیتے تھے لیکن انقلابِ فرانس اور برطانیہ کے صنعتی انقلاب نے صورتِ حال کو یکسر تبدیل کردیا۔ مذہب اور سیاست کی علیحدگی نے نہ صرف ان کے اندر فرقہ وارانہ کشیدگی ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ پھر عیسائی دنیا نے ترقی کی دوڑ میں پیچھے مڑکر نہیں دیکھا اور وہ جلد ہی ساری دنیا پر چھا گئے۔ یہی حال دیگر تمام مذاہب کا تھا کیونکہ بدقسمتی سے تمام مذاہب میں مختلف فرقے ہیں۔ جو اپنے اپنے انداز سے مذہب کی تشریح کرتے ہیں اور اجماع(Consenses)کی عدم موجودگی میں ان کا کسی ایک نقطہ نظر پر متفق ہونا ناممکن ہوتا ہے اور جب تک اجماع (Consenses)نہ ہو قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ جس کی وجہ سے مذہبی اور سیاسی لحاظ سے مسائل کے پنڈورا بکس کھلتے رہتے ہیں جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔
کیا مذہب کو سیاست سے الگ کرنا ایک الحاد پرستی پر مبنی عمل ہے؟ ایک سچا مذہبی شخص وہ ہے جو مذہب کے تقدّس کو سب سے زیادہ اہمیّت دیتا ہے اور اس کی وجہ مذہب کے وہ عالمگیر اصول ہیں جنہوں نے تمام انسانی معاشروں میں زبردست مثبت اثرات چھوڑے ہیں۔ سچ بولنے سے لیکر معاشی مساوات کے تمام اصول جنہیں آفاقی سچائیاں کہا جاتا ہے۔ اسلام سمیت تمام مذاہب ِ عالم کی دین ہیں جن سے کوئی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کو مذہبی انتہا پسندی اور قتل و غارت گری سے نکالنے اور مذہب کے تقدس کو جو سیاست کے ملاپ کی وجہ سے پامال ہورہا تھا بحال کرنے کے لئے دنیا کے عظیم دانشوروں اور سیاستدانوں نے مذہب کو سیاست سے اس طرح الگ کردیا کہ تمام متفقہ مذہبی اصولوں کو مذہب کا نام لئے بغیر نافذ کردیا۔ چنانچہ مذہبی اصول بھی عملاً نافذ ہوگئے اور اس پر مخالفت برائے مخالفت بھی ختم ہوگئی۔ اگر اس وقت چند ایک کو چھوڑ کر دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں مذہب کو ریاست کا حصہ نہیں بنایا گیا تو محض تاریخ کے اس تلخ تجربے کی وجہ سے کہ جب معاشرے مذہبی گروہ بندی کی وجہ سے صدیوں تک آپس میں دست و گریباں رہتے تھے، وقت نے ان عظیم لوگوں کو صرف اپنے معاشروں کا ہی نہیں بلکہ اپنے اپنے مذاہب کا بھی عظیم محسن قرار دے دیا ہے۔ جن کی وجہ سے اُن مذاہب کے نام لیوا آج بھی موجود ہیں۔ جہاں ایسا نہیں ہوا وہاں کئی جگہ لوگ مذہب ہی سے متنفر ہو گئے۔ اگر اجتہاد اور حقائق کی نظر سے دیکھا جائے تو اسلامی شرعی نظام بھی تمام تر آفاقی سچائیوں پر مبنی ہے۔ اگر دنیا کی کسی بھی فلاحی ریاست کے اصولوں کو دیکھیں تو وہ بھی آفاقی سچائیوں پر استوار ہیں۔ باقی جہاں تک عبادات اور ذاتی عقائد کا تعلق ہے تو اس پر ریاست بندش نہیں لگا سکتی اور نہ ہی کسی دوسرے فرقے کو اس میں مداخلت کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
اس لئے پاکستان کو درپیش مذہبی انتہا پسندی کے مسئلے سے مستقلاً نپٹنے کے لئے پہلے بنیادی قدم کے طور پر یہ ضروری ہے کہ مذہب اور سیاست کو علیحدہ کر دیا جائے۔ بلاشبہ یہ ایک نہایت مشکل اقدام اور کڑوی گولی ہے لیکن ہمارا مرض جس سطح پر پہنچ چکا ہے ہمیں جلد یا بدیر یہ گولی نگلنی ہی ہو گی۔ دوسری بنیادی تبدیلی ہمارے انتخابی نظام کو بے عیب اور شفاف بنانا ہے۔ ہمارے ملک میں ہونے والا ہر الیکشن شفافیت کے حوالے سے کئی سوال چھوڑ جاتا ہے... ایک ایسا انتخابی عمل جہاں ووٹ کسی اور امیدوار کو ڈالے جائیں اور نکلیں کسی دوسرے امیدوار کے حق میں...معاشرے میں سوائے انتشار اور تباہی کے اور کچھ نہیں دے سکتا... ایسے انتخابات سے جمہوریت اور عوامی حاکمیت مضبوط نہیں کمزور ہوجاتے ہیں جو سوسائٹی کے چھوٹے چھوٹے لسانی، صوبائی اور فرقہ وارانہ گروہوں کو تقویت دیکر طالع آزمائوں کے حوصلے بلند کرتے ہیں اور وہ اپنی آمریت قائم کر کے معاشرے کو صدیوں پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ ہم سے زیادہ آمرانہ نظاموں کے صدمے اور کس نے سہے ہیں لیکن اگر ہم آمریت کے مخالف اور جمہوریت کے حامی ہیں تو ہمیں حقیقی جمہوریت قائم کرنا ہوگی ورنہ جس طرح ہم اسلام کو بدنام کرنے کا جرم کر رہے ہیں اسی طرح جمہوریت کے نام پر بدترین فسطائیت کو رائج کرکے ہم جمہوریت کی بدنامی کا باعث بھی بنتے رہیں گے جن کے نتائج ملک و قوم کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
تازہ ترین