• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لال مسجد کے مولانا صاحب نے پاکستانی آئین کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے اسے ایک جاہل مولوی کا بیان قرار دے کر مسترد نہیں کیا جا سکتا مولانا صاحب کے بیان میں ایک نوع کی لاجک موجود ہے لال مسجد کے مولوی صاحبان اتنے پیدل نہیں ہیں جتنے پیدل ہمارے سیکولر حضرات انہیں خیال کرتے ہیں ان کی پشت پر عسکریت پسند طالبان اور لشکر جھنگوی جیسے بہت سے مضبوط مسلح جہادی گروہ ہی نہیں ہیں بلکہ انتہائی موثر دیو بندی مکتبِ فکر کی مساجد اور دینی مدارس کی ایک طویل زنجیر Chainہے جو قریباً ایسا ہی خالص مومنانہ جہادی نقطہ نظر رکھتے ہیں ان سب کی نظروں میں جو مقام قرآن اور سنت کا ہے وہ آئین کا نہیں ہے۔ وہ بلا خوف و خطر پاکستان کے عدالتی نظام اور انگریزی قوانین کو کافرانہ قرار دیتے ہوئے ان کی جگہ قاضی کورٹس اور نظام شریعت قائم کرنے کا داعیہ رکھتے ہیں وہ جمہوریت کو کفر قرار دیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اس کا خاتمہ چاہتے ہیں بلکہ اس کی جگہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں نظام خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ شاعر مشرق کی وساطت سے دلیل لاتے ہیں کہ جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے جس میں گنا کرتے ہیں بندوں کو تولا نہیں کرتے یعنی حضرت مولانا تقی عثمانی کے بالمقابل نتھو خیرے کی رائے کو بھی اتنا ہی وزن حاصل ہے، کیوں؟ معروف اسلامی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم برملا استدلال کیا کرتے تھے کہ جمہوریت میں اقتدارِ اعلیٰ عوام کو حاصل ہے جبکہ اسلام میں اقتدارِ اعلیٰ کی حامل ہستی صرف پروردگار عالم کی ہے اس لئے جمہوریت کفر ہی نہیں شرک بھی ہے جس میں قوانین سازی کا اختیار بندوں کے پاس ہے جبکہ اسلام میں تمام قوانین مکمل ضابطہ حیات کی صورت 14سو سال پہلے سے بن چکے ہیں جن میں کوئی ردوبدل یا ترمیم کا کوئی حق کسی بڑی سے بڑی پارلیمنٹ کو بھی حاصل نہیں ہے۔ ڈاکٹر اسرار ہی نہیں دیگر بڑے بڑے دینی علماء اور اسلامی سکالرز بشمول مولانا مودودی اور یوسف القرناوی اس نوع کی اپروچ کے حاملین ہیں۔ ہمارے سیکولر بھائی بہت زیادہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ حضرت مولانا مفتی محمود، مولانا مودودی، پروفیسر غفور اور مولانا شاہ احمد نورانی جیسی دینی شخصیات نے پاکستان کے موجودہ آئین کو قبول فرمایا تھا لہٰذا ان کے پیرو کاران بھی اسے تسلیم کریں اور متنازعہ نہ بنائیں۔ جبکہ مولانا عبدالعزیز جیسے علماء بجا طور پر یہ دلیل رکھتے ہیں کہ وہ مجبوری کا سودا تھا 73ء کے آئین کو ماننا ان بڑے علماء کے نزدیک بھی کوئی آئیڈیل فیصلہ نہ تھا۔ مقصد یہ تھا کہ ما بعد جدوجہد کے ذریعے اسے تبدیل کرواتے ہوئے کامل اسلامی قالب میں ڈھالا جائے گا لہٰذا طالبان جیسے راسخ العقیدہ گروہوں کی جدوجہد خالص اور کامل اسلامی آئین کے لئے ہے جو ظاہر ہے قرآن اور سنہ کے علاوہ کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ اضطراری فیصلے کو مثالی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ متذکرہ بالا نقطہ نظر کے بالمقابل وطن عزیز میں اچھا خاصا سیکولر طبقہ بھی موجود ہے جو سیاست اور مذہب کے ملاپ کو غیر فطری عمل قرار دیتے ہوئے ریاست کو قطعی غیر جانبدار دیکھنا چاہتا ہے قرار داد مقاصد کو وہ فکر قائد کے برعکس قرار دیتے ہوئے اس کی جگہ پہلی آئین ساز اسمبلی کے اولین اجلاس میں بانی پاکستان کے کلیدی خطاب کو بطور دلیل پیش کرتا ہے۔ جس میں کہا گیا تھا کہ ریاست پاکستان میں کوئی مذہبی امتیاز نہیں ہو گا۔ آپ کا جو بھی مذہبی عقیدہ ہے وہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے ریاست کا اس کے ساتھ کوئی واسطہ یا سروکار نہیں ہو گا لہٰذا پاکستان کا آئین یا دستور اسی بنیادی اصول پر استوار ہونا چاہئے تھا جو اول تا آخر سیکولر ہوتا۔ ہماری نظر میں وطن عزیز کے تمام سیکولر طبقات کا آخری مطمح نظر یہی ہے کہ نہ صرف ملکی آئین میں موجود تمام مذہبی شقوں کا خاتمہ کر دیا جائے بلکہ ایسے تمام تر امتیازات کا بھی خاتم ہونا چاہئے جن سے مملکت کے شہریوں کا مذہبی بنیادوں پر بٹوارہ یا استحصال ہوتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ 73ء کا آئین بنانے والوں نے وطن عزیز کی دونوں قوتوں یعنی دینی نظریات کے حامل گروہوں اور سیکولر اپروچ کے حاملین کو بیک وقت مطمئن کرنے کی کاوش کی اگرچہ الحقیقت دونوں ہی غیر مطمئن ہیں اور ما بعد جس کا زور چلا اس نے اپنی مطابقت میں رنگ آمیزی کی کاوشیں کیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس عدم اطمینان کو اطمینان میں بدلنے کے لئے کونسی راہ عمل اختیار کی جائے؟ ایک راستہ تو یہ ہے کہ جو مل گیا ہے اسی پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی اپنی تشریحات کے ذریعے اطمینان حاصل کیا جائے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ پُر امن ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عوام کو اپنا ہمنوا بنایا جائے یوں جمہوری و قانونی طریقے سے سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں اتنی میجارٹی حاصل کریں کہ آئین کو زیادہ سے زیادہ اپنی مطابقت میں ڈھال سکیں۔ یہاں یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو سیاسی جدوجہد سے تبدیل کیا جا سکتا ہے یا نہیں مضبوط آراء ہر دو اطراف موجود ہیں ہم علی وجہ بصیرت اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سابقہ نسلوں کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ نئی نسلوں پر حکمرانی کریں (اس پر بحث ہم علیحدہ آرٹیکل میں پیش کریں گے) تیسرا راستہ یہ ہے کہ جمہوری و سیاسی جدوجہد کو خیر باد کہتے ہوئے انقلاب کا راستہ اختیار کیا جائے جو پُر امن کبھی نہیں رہ سکے گا انجام بالآخر خون خرابے کی طرف ہی پہنچے گا۔عہد حاضر میں تمام اسلامی شدت پسند بشمول القاعدہ و طالبان اسی تیسری راہ کو اختیار کر چکے ہیں یوں دکھائی دیتا ہے کہ دھیرے دھیرے دوسری راہ پر چلنے والی اسلامی تحریکیں ہمیں عالم مایوسی میں تیسری راہ اختیار کرنے والوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ معاونت کرتی دکھائی دیں گی۔ دکھائی چاہے نہ بھی دیں اندرون خانہ یا در پردہ وہ ٹسوے انہی کے لئے بہاتی ہیں حال ہی میں پاکستان کی اسلامی جماعت کے امیر نے جس پیرائے میں عہد حاضر کے سب سے بڑے دہشت گرد کی مدح سرائی کی ہے وہ اس کی تابندہ مثال ہے اور یہ انتہائی خوفناک اپروچ ہے جو بالآخر انہیں ایمن الظواہری کے ساتھ لے جا بٹھاتی ہے۔ ہم اپنے ان تمام اسلامی بھائیوں کی خدمت میں گزارش کرتے ہیں کہ جس طرح سیکولر خواتین و حضرات صبر اور حوصلے مندی سے سیاسی و جمہوری جدوجہد کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں حالانکہ اس چوں چوں کے مربہ سے تکلیف انہیں بھی اتنی ہی ہے جتنی آپ حضرات کو ہے بلکہ بوجہ خصوصی مذہبی جھکائو ان کے درد مندی آپ سے دو چند ہے لہٰذا آپ بھی صبر اور انسان نوازی سے کام لیں۔ ان کی طرح آپ بھی جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنائیں اگر آپ واقعی آدمؑ کو سجدہ کرنے کے نظریئے پر ایمان رکھتے ہیں تو پھر خون خرابے کی راہ اپنانے سے ابدی توجہ کریں اشرف المخلوقات کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہو جائیں ورنہ آپ بارگاہِ ایزدی میں ابلیس وقت قرار پائیں گے۔
تازہ ترین