• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مکلی کرکٹ اسٹیڈیم میں کلچرل فیسٹیول کی اختتامی تقریب سے بلاول بھٹو زرداری کا خطاب باب الاسلام سندھ سے تاریخ کی گواہی کے طور پر یاد رکھا جائیگا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے وارث قوم پرست نواسے نے پاکستانیوں کو ملکی سچائی سے خبردار کیا، وہ مائنڈ سیٹ جو پشتونوں کی قبائلی عصبیت اور پنجابیوں کے مذہبی جذباتیت سے تشکیل پایا، وہ مائنڈ سیٹ جس نے پاکستان کے گلی کوچوں میں عدم تحمل و برداشت کے باعث حق بات کہنے کی گنجائش ختم کر دی ہے، وہ تشکیل ذہنی جس نے اقلیتوں کی حد درجہ سختی کے ساتھ نفی کی، وہ فکری رجحان جو پاکستانی ریاست اور پاکستانی معاشرے کو زندگی کی ویرانیوں اور فونچکاں وادیوں میں ہانکنا چاہتا ہے، وہ مائنڈ سیٹ جس کا پورا حیاتیاتی نقشہ ہم پاکستانیوں کے قریب سے مُصر کے بھی نہیں گزرا، وہ اور وہ انداز فکر جو علماء و مشائخ اور ’’مولوی صاحبان‘‘ کو حکمرانی کے معاملات میں قیادت کے منصب پر دکھانا اور فائز کروانا چاہتا ہے، وہ ذہنی ساخت جس نے پاکستانی ریاست کے مقابلے میں مسلح بغاوت کا ایک پورا عہد قائم کر دیا ہے، وہ مائنڈ سیٹ جس کی سوچوں کے مجموعی ڈھانچے پاکستان کے اندر موجود بعض مذہبی جماعتیں اور عناصر تقریباً کلی حد تک اتفاق کرتے ہیں، وہ مائنڈ سیٹ جس نے افواج پاکستان کے شہداء کی توہین کی گئی، حامی جماعتوں کے ترجمانوں نے اس توہین کی نمائندگی میں بے خوفی اور لاپروائی کے انداز سے شہداء کے خون کو پانی سے بھی سستا کر دیا، وہ مائنڈ سیٹ جو مسلم تاریخ میں کبھی حکمرانی کے منصب تک نہ پہنچ سکا، وہ مائنڈ سیٹ جو بالآخر پاکستانی ریاست اور پاکستانی معاشرے کے مقابلے میں اندرونی اور بیرونی دائروں میں بے پناہ اسلحے، افرادی قوت اور پیسے سے سرفراز ہو چکا ہے، وہ مائنڈ سیٹ اب طاقت کے زور پر ہمارے ملک، ہمارے طرز زندگی اور ہماری ریاست پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، اس مائنڈ سیٹ کی حامی فکری قوتیں اور چند دوسرے گروہ ہماری ریاست اور ہمارے خلاف ان کے ہمرکاب ہیں، وہ مائنڈ سیٹ جس کی مذہبی اجارہ داریوں نے ان کے معیار زندگی کے تمام معمولات میں امراء و روساء کو بھی حیرت زدہ کر دیا، بلاول بھٹو زرداری نے اس مائنڈ سیٹ کا نقشہ کھینچ دیا، یہی تاریخ کی گواہی ہے، آنے والے کل میں جو صف آرائی ہونے جا رہی ہے بلاول شاید سچائی کے سب سے بڑے علمبردار تسلیم کئے جائیں۔ مکلی اسٹیڈیم ٹھٹھہ سے تاریخ کی اس گواہی کو ریکارڈ پر لاتے ہیں جس کا ایک ایک لفظ ہمارے ماضی کے ایوان سے بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ’’ڈرو اس وقت سے جب پوری قوم تمہارے خلاف اکٹھی ہو کر دمادم مست قلندر کا نعرہ بلند کر دے گی اور تمہیں بھاگنے کا راستہ نہیں ملے گا، تم لاشوں کے ڈھیر لگا کر جنت کے دروازے کھولنا چاہتے ہو، ایسا ممکن نہیں، اگر تم سمجھتے ہو دہشت گردی کر کے مجھے بھی دوسروں کی طرح خاموش کرا لو گے تو یہ تمہاری بھول ہے، تمہیں ہر قدم پر میری للکار کا سامنا کرنا پڑے گا میں تمہیں عبرت کا ایسا نشان بنا دوں گا تمہارے جنازے کے لئے ایک کندھا بھی نہیں ملے گا، جن کا مقصد عوام کے خون پر اپنے جنگلی قوانین نافذ کرنا ہے بدقسمتی سے ہمیں غلط تاریخ پڑھائی گئی، اسلام کے نام پر ہمارے مذہب کا چہرہ بگاڑ دیا گیا۔ ہمارے معتدل مذہب کو انتہاء پسندی کے روپ میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ ہم دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ہمارا ملک، ہماری تہذیب، ہماری ثقافت اور ہماری میراث انتہائی خطرے میں ہے۔ ہمارے حکمرانوں، تعلیمی اداروں، ہمارے علماء اور کچھ مدارس نے ہم سے جھوٹ بولا، ہمیں امپورٹڈ فری یہ سب ہمیں جھکانا، توڑنا اور دبانا چاہتے تھے لیکن ناکام ہونے پر ہم پر حملہ کر دیا۔ لفظوں کی گولیاں برسانے والوں نے ہم پر بموں کی برسات کر دی۔ یہ دہشت گرد زمانے بھر کی وحشت کو ہماری تہذیب بنا کر ہمیں اپنے جیسا جنگلی نہیں بنا سکتے۔ ہمیں جھوٹی تاریخ پڑھانے والو، یہ مت بھولو کہ قرآن پاک کا سب سے پہلا ترجمہ سندھی زبان میں کیا گیا۔ شریعت کی پابندی کرنی ہے تو میثاق مدینہ کی پابندی کرو۔ ہم پر اپنا کالا قانون نافذ کرنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دو۔ دہشت گرد چاہتے ہیں کہ ان کے قوانین نافذ ہو جائیں تو وہ ہمارے میلے، فیسٹیول سمیت ہمارے تہذیبی ورثے کو اپنی جہالت کی نذر کر دیں۔ اگر دہشت گردوں کا قانون نافذ ہو گیا تو ہمارے، ہماری بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ بھی ملالہ جیسا سلوک ہو گا جبکہ ہمارے بیٹے بھی اعتزاز کی طرح موت کی بھینٹ چڑھ جائیں گے، صرف یہی نہیں بلکہ کراچی میں مزار قائد، لاہور میں مینار پاکستان اور لاڑکانہ میں گڑھی خدا بخش کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے گا جو زیارت میں قائداعظمؒ کے گھر کے ساتھ کیا گیا۔ نظریاتی اور جسمانی طور پر پاکستان پر حملہ آور جن طالبان گروہوں کا بلاول نے نقشہ کھینچا ہے وہی زمینی حقیقت ہے۔ پاکستان کے اندر ان طالبان گروہوں کی حامی جماعتیں اور ان کے پیروکار بھی پوری شد و مد اور طاقت سے موجود ہیں۔ بلاول نے اس زمینی حقیقت کو اب یا کبھی نہیں، کے بیانیے میں بیان کر دیا ہے۔ بلاول کی یہ تاریخی گواہی ہی فیصلہ کن کردار ہے۔ جو لوگ، خواہ وہ حکمران ہیں یا کوئی اور، اس زمینی حقیقت کو کسی بھی طریقے سے ملفوف رکھنا چاہتا ہے، آپ یقین رکھیں وہ اپنے ساتھ ہمیں بھی تاریخ کے کوڑے دان پر قربان کرنے کا خواہاں ہے! 1970,1960,1950کی دہائی کے پاکستان کا خواب ذہنوں سے نکال دیں۔ جب میرے پیارے دوست ضیاء کھوکھر نے ان دہائیوں کے دو تین واقعات مجھے سنائے میں اداسیوں کے سمندر میں ڈوب گیا۔ میری رائے کی حد تک آپ کے لئے بھی ان واقعات کا جاننا، ایک بار اس ماضی کے خوابوں کی طرف لوٹنے کے لئے ناگزیر ہے۔
انہوں نے مزید بتایا ’’60,50کی دہائی میں پاکستان میں مذہبی مناظروں کا دور تھا۔ یہ گوجرانوالہ میں قبرستان کلاں کی جناز گاہ کے مقام پر صبح شام منعقد کئے جاتے۔ کیا تمہیں علم ہے 1947تا 1977کے دورانیے میں ہمارے ہاں صرف ایک شیعہ سنی فساد ہوا تھا۔ اہل حدیث کے جید عالم مولانا دائود غزنوی، منٹو پارک لاہور میں عید کی نماز حضرت شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ (شیرانوالہ دروازہ والے) کی اقتدا میں ادا کرتے۔ جامعہ اشرفیہ کی بنیاد رکھتے وقت پہلی اینٹ مفتی محمد حسن امرتسریؒ (دیو بندی) اور دوسری اینٹ مولانا دائود غزنوی (اہل حدیث) نے رکھی۔ ایسے لمحات میں ضیاء کے اختتامی جملے عموماً اس قسم کے ہوتے ہیں ’’اچھا خدا حافظ، اپنا خیال رکھنا‘‘، مطلب یہ کہ سارے سنہرے ادوار بھول جائو! بلاول نے بھی یہی زمینی حقیقت بیان کی ہے کہ اے اہل پاکستان! جو لوگ ہمیں اور ہماری ریاست کو اپنے طرز فکر اور طرز زندگی کے لئے قابو کرنا چاہتے ہیں، اس کے بعد شاید تم دوبارہ قدرت کے اس آسمان تلے کھوئے ہوئے نارمل پاکستان کی بازیابی کی کبھی امید نہ کر سکو، سو ’’اب یا کبھی نہیں!‘‘ گزشتہ دنوں سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سنیٹر، دانشور اور مبصر جاوید جبار نے آغا خان یونیورسٹی میں ایک سیمینار سے خطاب میں کہا ’’پاکستان ناکام (Failing)ریاست نہیں بیمار (Alling) ریاست ہے۔ ان کے مطابق سعودی عرب، ویٹی کن، اسرائیل، نیپال اور مالدیپ بھی مذہبی ریاستیں ہیں مگر پاکستان ان سب سے مختلف ہے۔‘‘ جاوید جبار کے الفاظ میں ’’پاکستان کی بے شمار عورتیں اور مرد اس ملک کے مسائل پر قابو پانے کے لئے سیاست میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر پاکستان کو کسی ایک ’’اتاترک‘‘ کی ضرورت نہیں ایک ہزار اتاترک چاہئیں جو پاکستان کو واپس قومی ترقی کی راہوں پہ ڈال سکی۔ یہ صرف ’’میں‘‘ اور ’’آپ‘‘ ہی نہیں ہم ’’سب‘‘ پاکستان کو محفوظ اور مضبوط پاکستان میں بدل سکتے ہیں اور اپنی بیماری کو مرض الموت بننے سے پہلے دور کر کے صحت مند ہو سکتے ہیں‘‘
منو بھائی کے کالم سے مستعار لئے گئے جاوید جبار کے الفاظ میں پاکستان کی تشخیص سو فیصد حق ہے بس ایک نقص کے ساتھ، اور یہ نقص پورے ’’حق‘‘ پہ حاوی ہے کہ پاکستان میں کسی ’’اتاترک‘‘ کی پیدائش ’’ناممکن ‘‘ کہنی چاہئے اور یہ کہ ’’مرض الموت‘‘ سے چھٹکارے کی مدت ناقابل ذکر حد تک کم رہ گئی ہے!
تازہ ترین