• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر معاشرے میں بعض اشیا کے کھانے پر تحدید ہوتی ہے۔ اسلام میں اس کو حرام کہا جاتا ہے۔ ایک طرف بعض غذائوں کے حلال یا غیرحلال ہونے پر بحث ہورہی ہے دوسری طرف موجودہ محقق اور کھوجی پرندوں، مچھلیوں، اژدھوں کا گوشت، جگر، کلیجی کچی کھا جاتے ہیں اور ان کا یہ کارنامہ پردہ سمیں پر دکھایا جاتا ہے۔ چین میں سانپ اور چوہے کے نوزائیدہ بچے، امریکہ میں تتلیاں، گھاس کے ٹڈے لذیز غذائوں میں شامل ہیں۔ جن غذائوں کی طلب بڑھتی ہے ان کی پیداوار بھی بڑھائی جاتی ہے، مجموعی حیثیت سے گائے، بکری، بھیڑ اور سب سے زیادہ چکن کے گوشت کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔ کچھ روز ہوئے اخبار میں ایک خبر دیکھی کہ برازیل چکن کی پیداوار میں ریاست ہائے متحدہ کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ گوشت کی برآمد کرنے والے ممالک اب ایسا گوشت برآمد کررہے ہیں جس کو حلال گوشت کہا جاتا ہے۔
برازیل ایک ملین ٹن منجمد چکن برآمد کرتا ہے اس کے علاوہ حلال بیف بھی اسلامی ملکوں کو بھیجتا ہے۔ برازیل کی برآمدی تجارت میں گوشت بڑا اہم کردار ادا کررہا ہے اس کے ہاں چکن کی پیداوار کا طریقہ بھی مختلف ہے وہ ایک دن کے چوزے کسانوں کو معمول قیمت پر فروخت کردیتا ہے اور جب وہ ایک معینہ وزن کے حامل ہوجاتے تو ان کو واپس خرید لیتا ہے۔ پرورش کے دوران وہ چوزوں کی دیکھ بھال، غذا اور علاج معالجے کے سلسلے میں کسانوں کی مدد بھی کرتا ہے۔ اس طرح کسان اور کمپنی دونوں فائدے میں رہتے ہیں، ضرورت ہے کہ اسی قسم کا طریقہ پاکستان میں اختیار کیا جائے کیونکہ ملک میں چکن اور اس کی مصنوعات کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ایسے ادارے قائم ہو گئے ہیں جو پیداواری کے حلال ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔
پاکستان میں جیسے جیسے متوسط طبقے کی آمدنی میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ہی خاندانوں کے افراد کے ساتھ چھوٹے اور بڑے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کھانے کا رواج بڑھ رہا ہے، نئی نئی ڈیشیں وجود میں آرہی ہیں، کراچی کے ایک خاصے مہنگے ہوٹل میں بٹیر کی ڈش پیش کی جاتی ہے۔ یہ سیلف سروس ہوٹل ہے، یہاں روزانہ آنے والوں کی تعداد ڈیڑھ پونے دو ہزار اور تعطیل کے دن ڈھائی تین ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ اکثریت محض روسٹ بٹیروں کی تلاش میں جاتی ہے تو اہم سوال یہ ہے کہ کراچی میں 8/7 ہزار بٹیروں کو کون ذبح کرتا ہے اور کیا اتنے پرندوں کو ذبح کرنے میں دس بیس کی گردن جدا نہیں ہوجاتی اور وہ مردار قرار دیئے جاتے ہیں۔ برازیل میں ہزاروں مرغیوں کو کون ذبح کرتا ہے جب وہاں گائے بھیڑ جن کی تعداد پرندوں کے مقابلے میں میں بہت کم ہوتی ہے ذبح کرنے کے لئے مشینیں استعمال کی جاتی ہیں کہ جانور کو کھڑا کیا اور اوپر سے تیشہ گرایا گردن کٹ کر الگ ہوگئی۔ دو چار منٹ میں درجنوں جانور ذبح ہوگئے۔
ہم 1947ء تک بھوپال میں تھے وہاں گوشت کے سوال پر ایک مرتبہ کے سوا کبھی کوئی مسئلہ نہیں اٹھا وہاں گائے کا گوشت زیادہ کھایا جاتا تھا۔ گائیں سرکاری مذبح میں مسلم قصاب ذبح کرتے تھے۔ بکری کے گوشت کا کاروبار جن لوگوں کے ہاتھ میں تھا وہ غیرمسلم تھے، مگر ذبح کون کرتا تھا مجھے نہیں معلوم قصاب بھی ہر جانور کو ذبیح پر بسم اللہ اور اللہ اکبر کہتے تھے یا انہوں نے چھری پڑھ کر رکھ لی تھی۔ کسی قاضی یا مفتی کی جانب سے کوئی سوال نہیں اٹھا۔
ریاست میں ایک کائستھ کافی عرصہ وزیراعظم رہے۔ ان کو شکار کا بھی شوق تھا اور گائے کے علاوہ وہ ہر قسم کا گوشت کھاتے تھے، مخفی طور پر گائے کا گوشت بھی کھالیا کرتے تھے۔ ان کا بھتیجا مسلم یونیورسٹی سے ایم اے ایل ایل بی کرکے آیا اور ملازم ہوگیا، سرکاری دفتری کاروبار کی تربیت کے لئے ایک ماہ کے واسطے میرے سپرد ہوا، یوں دوستی ہوگئی۔ اس کی طرف سے شکار کی ران یا دست آتی، میری بیوی نے یہ سوچ کر کہ غیرمسلم کے ہاں سے آئی ہے غیرذبیح ہوگی، خاکروب کو دے دیتی۔ چند دنوں بعد اس نے شکار پر چلنے کی دعوت دی۔ ہمارے ساتھ اس کے مسلمان ڈائریکٹر بھی تھے۔ جنگل میں داخل ہوتے ہی ایک نیل گائے نظر آئی، اس نے گولی چلائی، جانور گر گیا، وہ جیپ کے ڈرائیور کے ساتھ نیچے اترا جو مسلمان تھے، گائے ڈرائیور نے ذبح کی اور گائوں والوں کے اشتراک سے جیپ پر لادی گئی۔ ڈائریکٹر صاحب نے مجھے بتایا شکار میں ایک مسلمان ان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے تاکہ وہ جانور کو ذبح کرے اور گوشت مسلمان دوستوں کو بھیجا جاسکے۔
حلال خوراک کا مسئلہ صرف گوشت تک محدود نہیں۔ میرے علم میں ہے کہ بعض بہترین مسلمان ایلوپیتھک اور ہومیوپیتھک دوائیں استعمال نہیں کرتے مگر اب غیرملکی مشروبات، باہر سے آنے والی بوتلوں میں بند۔ مائی نیز، مکھن، پنیر، پرنکل اور ایسی ہی درجنوں چیزیں کھانے لگے، خوشبو میں سینٹ، قیمتی صابن جیسے پیرسوپ، شیونگ اسپرے وغیرہ آزادانہ طور پر استعمال کرنے لگے، بعض مرتبانوں، پیکٹوں پر لفظ ’’حلال‘‘ لکھا ہوتا ہے، مگر یہ لفظ کس نے لکھا ہے اور کیا لکھنے والا بہ شرح مسلم تھا، 1980ء میں ہم دونوں میاں بیوی کو حج کی سعادت نصیب ہوتی وہاں درجنوں چیزیں باہر کی نظر آئیں جیسے زیتون کا تیل جو اسپین، اطالیہ کا تیار کردہ تھا، طرح طرح کے عطر اور سب سے بڑھ کر مرغ مسلم جو سیخوں پر روسٹ ہورہا تھا یہ درآمد شدہ تھا، سوال تھا کہ اس کو کس نے ذبح کیا، تشفی بخش جواب نہ ملنے پر ہم دونوں نے اس کے کھانے سے گریز کیا۔ اب استعمال کی بہت سی چیزیں جیسے جوتے، چمڑے کے بیلٹ، گھڑی کے پٹے، دانتوں ک برش، کپڑے صاف کرنے والے برش کیا ان کے متعلق سو فیصدی قطعیت سے کہا جاتا ہے کہ ان میں خنزیر کی کھا اور بال استعمال نہیں ہوئے۔ چند دن پہلے اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ مرغیوں کے لئے جو فیڈ باہر سے آرہی ہے اس میں ہڈیوں کا جو چورہ ملایا جارہا ہے اس میں خنزیر کی ہڈیوں کا چورہ بھی شامل ہے۔ جب وہاں ہڈیاں جمع کی جاتی ہیں تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ کس جانور کی ہڈی ہے، بون ملز کو تو ہڈیاں چاہئیں۔
دراصل ہم ایک ایسی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں متروکات سے دامن جھڑانا مشکل ہے، کہا جارہا ہے کہ دنیا میں حلال اشیاء کی سرٹیفکیشن کرنے والی کمپنیوں کی تعداد سو سوا سو کے قریب پہنچ گئی ہے کیا ان پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ کیا یہ ایسی ہی صورت نہیں جہاں بنکوں نے قرضوں پر رقم وصول کرنے والے سود کو ’’مارک اپ‘‘کا نام دے دیا ہے۔ کیا اس طرح سود، سود نہیں رہا۔ ہمارے برادر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی برسوں سے اس دو رخی کی جانب توجہ دلارہے ہیں مگر کوئی سننے والا ہی نہیں، فریاد کس سے کی جائے۔
تازہ ترین