• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔ علامہ اقبال کے اس مصرعے کی سچائی کو میں نے کراچی ادبی میلے میں دیکھا، جہاں میں نے پچاس ہزار سے زائد لوگوں کو سارے پروگراموں میں شرکت کرتے، ہنستے، آپس میں بات چیت کرتے دیکھا۔ کیا کمال تھا کہ سات پروگرام مختلف ہالز میں بیک وقت منعقد ہورہے تھے۔ جتنا رش ادبی پروگرام لے رہے تھے اتنا ہی بلکہ کبھی کبھی تو اس سے بھی زائد رش سیاسی موضوعات پربھی تھا۔ سبب صاف ظاہر ہے جب سرکار، پاکستانی طالبان کو بطور ایک سیاسی حکومت کی طرح سمجھے ہوئے ہو۔ ان سے مذاکرات کرتے ہوئے، جھلا بھی نہیں رہی ہو۔ جب ان مذاکرات میں عورتوں اور اقلیتوں میں سے کسی بھی نمائندے کو شامل نہ کیا ہو تو جھلاہٹ اور غصہ تو لازمی ہونا تھا۔ ان سارے نمائندگان کے درمیان ایک شخص ایسا تھا جو ہمیں بچوں کی طرح سمجھا رہا تھا کہ دو ملک، دو ہمسائے ، ہر وقت ایک دوسرے سے روٹھے رہیں تو زندگی میں کڑواہٹ شامل ہو جاتی ہے۔ پھر روٹھنا بھی کب تک۔ یہ جو 65سال گزرے ہیں، ہندوستان، پاکستان نے حکومتوں کی سطح پر تو دشمنوں والا رویہ قائم رکھا جبکہ عوام ایک دوسرے کے ملک میں آنا جانا، دلی والے لاہور دیکھنا اور لاہور والے دلی دیکھنا چاہتے ہیں۔ دلی جائو توعلامہ اقبال سے لیکر فیض اور فراز کے ہندی ترجمے پڑے ہیں ۔ پاکستان میں دیکھو تو ساحر لدھیانوی، امرتہ پریتم اور عینی آپا کی کتابیں مسلسل شائع ہو رہی ہیں انتظار حسین کی ساری کتابیں دیوناگری میں شائع شدہ سب جگہ مل جائیں گی۔ البتہ ہندوستان اور پاکستان میں تجارت کی باتیں تو ہوتی ہیں مگر کتابوں کی درآمد و برآمد کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ میں دلی میں غالب انسٹیٹیوٹ کی کانفرنس میں تھی۔ بہت سے ریسرچرز میری کتاب آجائو افریقہ، مانگ رہے تھے ہندوستان کی کسی لائبریری میں بھی کتاب نہیں تھی۔ نثار عزیز بٹ کا ناول مانگ رہے تھے کہیں بھی کتاب نہیں تھی۔میں جس شخص کا تذکرہ کرنا چاہتی ہوں۔ وہ مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی تھے۔ دھیمے اور ملائم لہجے میں وہ پاکستانیوں اور بھارتیوں کو سجھا رہے تھے کہ لڑائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ہمسایوں اور ایسے ہمسایوں میں جہاں دال چاول سے لیکر توے سے اتری روٹی ایک جیسی کھائی جاتی ہو جہاں طلسم ہوشربا، پڑھائی جاتی ہو۔ جہاں سکھایا جاتا کہ آپس میں بیر رکھنا کوئی دانشمندی نہیں۔ یہ ملک دشمنی کو اپنی بنیاد کی اساس کیوں بنائے ہوئے ہیں۔ اگرچہ خوف کی نہیں مگر ثقافت اور تہذیبی اساس تو ہے جو صدیوں ایک رہی اور جس کی پیاس دونوں ملکوں کے لوگوں میں ابھی تک بھڑک رہی ہے عوام لڑنا نہیں چاہتے تو یہ نام نہاد سیاسی لوگ، فوج کا نام لیکر، ہر وقت ڈراوا دیتے رہتے ہیں۔تاریخ کی غلط تشریح پہ نہ صرف ڈاکٹر مبارک برہم تھے بلکہ پروفیسر مشیر الحسن کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر جعفر احمد بھی کہہ رہے تھے کہ ہم اپنی معاشرتی علوم ہیں۔ بجائے یہ کہنے کہ ہماری جدوجہد انگریزوں کے خلاف تھی۔ ہم مسلسل کہے جار ہے ہیں کہ ہندو مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے تھے۔ اسلئے ہندوستان کی تقسیم ہوئی ہندوستان میں ہندوتوا اور بی۔ جے۔ پی نصاب میں مسلمانوں کے خلاف جس قدر بھی بغض اگل سکتے تھے، کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں خیر سے اہم عہدوں پرتمام جگہوں پر رجعت پسند حاوی ہیں اور وہ بھی اپنا مطلب نکالنے کے لئے اپنی انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔ خراب کون ہو رہا ہے ہمارے بچے جن کی تربیت میں زہر شامل کرایا جا رہا ہے۔اس دفعہ کی کانفرنس میں قصہ گوئی کے علاوہ ڈانس پر شیما کرمانی اور ناہید صدیقی کی گفتگو بھی تھی اور ڈرامے پہ بشریٰ انصاری نے شگوفے چھوڑے۔ ضیا محی الدین اپنے انداز اور نصرت فتح علی خان نے شاعروں کی نقل اتارنے میں وہ کمال حاصل کیا کہ ہمارے سارے نوجوان دوست بھی اس ہی محویت کے عالم میں تھے جیسے ہم۔ سب سے کمال تو ان ہی نوجوانوں کا تھا۔ کہ ایک نشست شروع اور ختم وقت پر کروانے میں اس قدر ملائمت اور توجہ سے کررہے تھے کہ دل سے دعائیں نکلتی تھیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی پریس میں تو بہت لوگ شامل ہیں مگر اردو کا علم لئے تو بس ایک شخص کھڑا تھا۔ وہ تھا ڈاکٹر آصف فرخی جو کہ کئی پروگراموں میں کمپیئر بھی تھا۔ منتظم بھی تھا اور ہم جیسے لوگوں کو کراچی تک تین دن کے لئے لانے اور ضد کر کے لانے کا سارا بوجھ بڑی متانت اور مسکراہٹ کے ساتھ اپنے کندھوں پر لئے ہوئے تھا۔ اس قدر محنتی شخص میں نے تو اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ہے۔ اللہ اس کو عمر دراز دے اور وہ یونہی ادب کے باغ کو سنوارتا رہے۔ انتظار حسین صاحب جیسا نوے برس کا جوان بھی کسی نے نہیں دیکھا ہوگا کہ ہر تقریب میں احمد شاہ کے ساتھ موجود تھے اور قہقہے لگا رہے تھے۔ہم لوگ جہاں اپنی اپنی پسند کے سیشن تلاش کرنے میں مصروف تھے وہاں امینہ سید، بالکل پرسکون ہرسیشن میں تھوڑی دیر کے لئے موجود ہوتی تھیں۔ اسی طرح زہرہ آپا تھیں۔ تھوڑی دیر کو آرام کرنے کو چلی جاتی تھیں۔ پھر آجاتی تھیں اپنے قبیلے کے ساتھ۔
ہم میں سے بہت لوگ جو نوجوانوں سے مایوس ہونے لگتے ہیں۔ او۔ یو۔ پی کی طرح ایک دفعہ نوجوانوں کو صبح 9 بجے سے رات گیارہ بجے تک ذمہ داریاں تو دیکر دیکھیں۔ اتنے شگفتہ چہرے بھاگ بھاگ کر ہم سب کی رہنمائی کر رہے تھے چائے دے رہے تھے۔ مجال ہے کہیں بھی افراتفری کا عالم ہو۔ کہیں بھی کھانے پر جھپٹ رہے ہوں۔ کہیں بھی الگ بیٹھ کر غل غباڑہ کر رہے ہوں۔ جب لاہور میں خیال گروپ نے کانفرنس کی تھی۔ انہوں نے بھی اسی طرح نوجوانوں کے سپرد کام کیا تھا اور کسی کو پریشانی نہیں ہوئی تھی لیڈز کی بھی جب کانفرنس ہوتی ہے وہ بھی نوجوانوں ہی کے سپرد یہ کام کر دیتے ہیں جبکہ طالبان، ان نوجوانوں کو خود کش بمبار کی حیثیت سے تربیت دیتے ہیں اب تو وہ خاتون بمبار اور خود کش خواتین بھی تیار کر رہے ہیں۔ ان موضوعات پہ خاص لیکچر، ریاض احمد خان کا منعقد کیا گیا جس میں ہزاروں لوگ شامل تھے۔
کیا آشیاں بنانے کو اس دن کے لئے تنکے چنے تھے!
تازہ ترین